سفید سونے کا کاروبار

May 24, 2020

وزیراعظم پاکستان عمران خان نے عوام سے کرپشن کے خاتمے اور بلاامتیاز احتساب کا جو وعدہ کیا تھا، چینی اسکینڈل کی رپورٹ پبلک کرکے وہ وفا کر دیا ہے۔ اِس رپورٹ میں چینی بحران کا ذمہ دار اُن کے قریبی ساتھی جہانگیر ترین اور مسلم لیگ(ق) کے اتحادی چوہدری مونس الٰہی، تحریک انصاف کے ہی وفاقی وزیر خسرو بختیار کے بھائی عمر شہریار کے علاوہ اومنی گروپ اور شریف گروپ کو ٹھہرایا گیا ہے۔ فرانزک رپورٹ میں نہ صرف زیادہ نرخوں پر چینی کی فروخت، نامعلوم خریداروں کو سامان کی فروخت، ڈبل بکنگ، اوور انوائسنگ، گنے کے پھوک اور گڑ کی کم انوائس شدہ فروخت کی شکل میں ہونے والی مجموعی بدانتظامی کا پردہ فاش ہوا بلکہ شوگر ملوں کے لین دین میں کارپوریٹ کی بہت سی دھوکا دہی کا بھی پتا چلا ہے۔ فروری اور مارچ کے دوران چینی کے سنگین بحران کے بعد وزیراعظم نے وفاقی تحقیقاتی ادارہ (ایف آئی اے) کو ملک میں چینی اور آٹے کے بحران سے متعلق مکمل تفتیش کرکے رپورٹ جمع کروانے کے احکامات صادر کیے تھے۔ یہ امر کسی سے مخفی نہیں ہے کہ شوگر مل کا کاروبار پیسہ بنانے اور کسان سے لے کر عام پاکستانی تک کو لوٹ کر سالانہ اربوں روپے کمانے کا یقینی ذریعہ ہے شاید یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے سبھی سیاسی سیانے اس کاروبار سے وابستہ ہیں۔ شوگر ملز مافیا کی وجہ سے جنوبی پنجاب اور سندھ میں کپاس کی پیداوار کم کرکے کسان کو گنا لگانے پر مجبور کیا گیا۔ شوگر مافیا کی یہ کہانی محض موجودہ دور حکومت تک ہی محدود نہیں بلکہ گزشتہ سیاسی ادوار میں یہ کھیل اِس صفائی سے کھیلا جاتا رہا کہ کسی کو خبر تک نہ ہوئی کیونکہ وہ سیاسی خاندان براہِ راست چینی کے کاروبار سے منسلک ہوتے تھے۔ شہزاد اکبر (شاباش مشیر احتساب) کا کہنا ہے کہ ایک روپے کلو قیمت بڑھا کر پانچ اعشاریہ دو ارب روپے کمائے جاتے ہیں۔ رپورٹ میں چینی کی قیمت میں اضافے، چینی کی برآمد اور چینی کی فی کلو پیداوار کے حوالے سے دی جانے والی سبسڈی پر جن حکومتی نمائندوں نے اپنے بیانات ریکارڈ کروائے ہیں اُنہیں غیرتسلی بخش قرار دیا گیا ہے۔ چینی اسکینڈل کی صفحہ بہ صفحہ رپورٹ پڑھ کر مجھے یوں لگا جیسا کہ یہ سفید سونا واقعی بہت زہریلی شے ہے۔ عوام کا بیڑہ غرق کرنے کیساتھ ساتھ اِس نے شوگر مافیا کو بھی کہیں کا نہیں چھوڑا۔

پاکستان میں 88شوگر ملیں ہیں جن میں سے 38چھ مشہور گروپوں کی ہیں، زیادہ تر سیاست سے وابستہ ہیں اور لگتا ہے کہ ابھی صرف انہی چھ گروپوں کی ملوں کی تحقیقات کی گئی ہیں۔ ان گروپوں نے گزشتہ حکومتوں سے لگ بھگ 29ارب روپے سبسڈی کے طور پر لیے۔ باقی مافیا نے بھی یقیناً اپنا حصہ وصول کیا ہوگا لیکن اِس رپورٹ میں اُس افسر شاہی کا کہیں ذکر موجود نہیں جس کا سبسڈی دینے میں بنیادی کردار ہوتا ہے شاید اُن افسروں کے گھروں میں چینی کی بوریوں کے بجائے روپوں کی بوریاں پہنچا دی جاتی ہیں۔ روحانی لوگوں کا کہنا ہے کہ چینی اسکینڈل کی یہ رپورٹ منظر عام پر آنے سے یہ لوگ وزیراعظم کو تنگ کرنے کی کوشش کریں گے لیکن ناکام و نامراد ہوں گے، جہانگیر ترین عمران خان کا ایک ایسا سیاسی اثاثہ ہیں جنہوں نے اُنہیں وزارتِ عظمیٰ کے تخت تک پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ دوسرے چوہدری برادران ہیں جنہوں نے پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت قائم کرنے کیلئے سیاسی دائو پیچ لگانے میں اپنی ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا۔ میرے نزدیک چینی اسکینڈل میں جہانگیر ترین، چوہدری برادران، مخدوم اور دریشک فیملی کا نام سامنے آنے کے بعد تحریک انصاف کے ووٹروں کو جان لینا چاہئے کہ عمران خان اُن سے کیے گئے وعدوں کو بخوبی پورا کر رہے ہیں اور پاکستان کو کرپشن اور بدعنوانی سے پاک کرنے کے لیے وہ اپنے سیاسی اتحادیوں اور سیاسی کارکنوں کی قربانی تک دینے کو تیار ہیں۔ ماضی میں بھی خوراک کے حوالے سے پیدا شدہ خود ساختہ بحرانوں کے حوالے سے کئی انکوائری کمیشن بنائے گئے، اکثر کی رپورٹس ہی سامنے نہ آ سکیں کہ جو افراد اُس کے ذمہ دار تھے حکومتی حلقوں میں وہ خاصا اثرو رسوخ رکھتے تھے اور جن کمیشنوں کی رپورٹس سامنے آئیں اُن میں قصورواروں کو سزا نہ دی گئی۔ عمران خان نے چینی اسکینڈل کی نہ صرف تحقیقات کروائیں بلکہ اُس کی رپورٹ پبلک کرکے نہایت جرأتمندانہ قدم اٹھایا ہے لیکن اُن کی ساری محنت اور نیک نامی ضائع بھی جا سکتی ہے اگر اِس رپورٹ میں سامنے آنیوالے ناموں کیخلاف کارروائی نہ کی گئی۔ دوسری طرف معروف درگاہ بھرچونڈی شریف سندھ کے گدی نشین اور پیر آف پگاڑا کے نیاز مند پیر میاں عبدالخالق القادری استفسار فرما رہے تھے کہ ہمیشہ طیارہ حادثہ عید کے قریب ہی کیوں ہوتا ہے، یہ وہ عظیم درگاہ ہے جن کے جدِ امجد کے ہاتھ پر مولانا عبیداللہ سندھی نے اسلام قبول کیا۔ اس درگاہ نے تحریک بھگتی، تحریک موالات اور تحریک آزادی میں بھرپور کردار ادا کیا، فتاویٰ رضویہ کی پہلی اشاعت اسی درگارہ سے ہوئی، یہ پاکستان کی وہی اکلوتی درگاہ جہاں آکر سندھ کے ہندو 100سال سے مسلمان ہو رہے ہیں۔ بعض اوقات سندھ میں ہندو مسلم اختلاف بھی پیدا ہوتا ہے، یہ درگاہ پاک و ہند کی ان درگاہوں کی فہرست میں شامل ہے جس کا علمی اور روحانی فیض ہر آنیوالے دنوں میں بڑھتا ہی جا رہا ہے کیونکہ ان کا جامعہ صدیقیہ پاکستان کا واحد ادارہ ہے جس کا جامعۃ الازھر مصر کے ساتھ الحاق ہے۔ اس درگاہ پر کئی بار حاضری ہوئی ہے، مجھے جمعہ پڑھانے کا جب موقع ملا تھا تو میری ذاتی کیفیت بڑی عجیب تھی۔ ہر جمعہ پر ٹھاٹھیں مارتا سندھی عشاق کا سمندر بڑا روح پرور ہوتا ہے۔