ترقیاتی فنڈ نہ ملنے پر پختونخوا کی اپوزیشن جماعتوں کا احتجاج

May 28, 2020

خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے لاک ڈاؤن میں نرمی کے اعلان کے بعد جس طریقہ سے بازاروں میں لوگوں کا رش دیکھنے میں آیا ہے، اس نے یقیناً مستقبل کیلئے خطرہ کی گھنٹی بجا دی ہے، موثر لاک ڈاؤن کے بعد اچانک جس طریقہ سے لاک ڈاؤن میں نرمی کا اعلان کیا گیا اس کی ایک وجہ تاجروں کا حکومت پر بڑھتا ہوا دباؤ تھا اور دوسری وجہ وزیر اعظم عمران خان کی یہ سوچ تھی کہ سخت لاک ڈاؤن جاری رکھنے سے غریب اور دیہاڑی دار طبقہ متاثر ہورہا ہے یہی وجہ سے ہے کہ وہ ہمیشہ لاک ڈاؤن میں نرمی یا باالفاظ دیگر سمارٹ لاک ڈاؤن کے قائل رہے ہیں، ایسے مرحلہ پر جب ملک بھر میں کورونا کا مرض تیزی سے پھیلتا جارہا ہوں ، مریضوں کی تعداد 50ہزار سے تجاوز کرچکی ہے جبکہ جاں بحق افراد کی تعداد بھی ایک ہزار سے متجاوز ہوچکی ہے ان حالات میں لاک ڈاؤن میں نرمی اور پبلک ٹرانسپورٹ کھولنے کے خطرناک نتائج کیلئے بھی تیار رہنا چاہیے کیونکہ عوام نے جس طریقہ سے بازاروں میں اختیاطی تدابیر کا جنازہ نکالا اس سے پتہ چلتا ہے کہ کورونا کے حوالے سے ہماری قوم ابھی تک سنجیدہ نہیں ہوسکی ہے اور اگر شعور کی بیداری کی طرف توجہ نہیں دی گئی تو مستقبل میں کورونا کے حوالے سے ملک کو سنگین نتائج بھگتنے پڑ سکتے ہیں ، یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ کورونا کے معاملہ پر وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی پالیسیوں میں بہت تضاد رہا ہے اور اسی طرح حکومت اور اپوزیشن کے مابین بھی کافی خلیج حائل رہی ہے جس کی وجہ سے کوئی متفقہ حکمت عملی طے نہیں کی جاسکی، اگر خیبر پختونخوا کی بات کی جائے تو یہاں پر اپوزیشن پہلے دن سے یہ گلہ کرتی چلی آرہی تھی کہ کورونا کے حوالے سے ہماری نیک نیتی کا مثبت جواب نہیں دیا گیا ہے اپوزیشن جماعتوں کا گلہ ہے کہ انہوں نے پہلے مرحلہ پر ہی حکومت کو ہر قسم کے سپورٹ کی پیش کش کی لیکن بدقسمتی سے صوبائی حکومت کی طرف سے کوئی مثبت جواب سامنے آیا نہ ہی کوئی رابطہ کیا گیا جس کی وجہ سے صوبہ میں مرکز کیساتھ صوبائی سطح پر بھی کوئی مشترکہ حکمت عملی وضع نہیں ہوسکی، صوبائی حکومت کی غیر سنجیدگی کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ وزیر اعلیٰ محمود خان نے کورونا کے حوالے سے کسی ایک مشاورتی نشست کا اہتمام بھی نہیں کیا، ابتدا میں اگرچہ انہوں نے بعض اپوزیشن رہنماؤں کیساتھ انفرادی ٹیلی فونک رابطے تو کئے مگر اس کے بعد حکومت کی جانب سے مکمل خاموشی چھاگئی اگر صوبائی حکومت اپوزیشن کو اعتماد میں لیکر آگے بڑھتی تو یقینا اپوزیشن جماعتوں کے ہزاروں کارکنوں پر مشتمل رضا کار فورس سے بہت موثر طریقہ سے کام لیا جاسکتا تھا اب بھی صوبائی حکومت کے پاس وقت ہے کیونکہ کورونا کے خطرات ابھی ختم نہیں ہوئے لہذا اگر عید کے بعد بھی صوبائی حکومت اپوزیشن کیساتھ مل کر آگے بڑھے تو محدود وسائل اور کم محنت سے بہت کچھ حاصل کیا جاسکتا ہے، دوسری جانب خیبر پختونخوا اسمبلی کے اسپیکر مشتاق غنی اور صوبائی وزیر قانون سلطان خان کی کوششوں سے اپوزیشن جماعتوں اور حکومت کے درمیان صوبائی اسمبلی میں جو ڈیڈلاک پیدا ہوا تھا وہ بظاہر ختم ہوگیا ہے۔

رواں سال ماہ جنوری سے ترقیاتی فنڈز کے معاملہ پر خیبر پختونخوا اسمبلی کی اپوزیشن جماعتیں سراپا احتجاج بنی رہی تھیں، ان کا ہدف وزیر اعلیٰ تھے کیونکہ ان کا گلہ تھا کہ وزیر اعلیٰ کی جانب سے وعدوں کے باوجود ہمیں کوئی ترقیاتی فنڈز فراہم نہیں کئے گئے، اگرچہ اس حوالے سے ایک فارمولا طے پایا تھا جو 65،35 کے تناسب سے تھا لیکن اپوزیشن جماعتوں کا کہنا ہے کہ اس پر بھی عمل درآمد نہیں ہوا چنانچہ جب اسمبلی میں احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا اور اسپیکر مشتاق احمد غنی نے سختی دکھائی تو اپوزیشن کی توپوں کا رخ وزیر اعلیٰ سے ہٹ کرا سپیکر کی طرف ہوگیا اس دوران دو مرتبہ اپوزیشن کی جانب سے وزیر اعلیٰ ہاؤس کے سامنے دھرنا بھی دیا گیا۔

تاہم بظاہر ایسا دکھائی دے رہا تھا کہ وزیر اعلیٰ محمود خان اپوزیشن جماعتوں کو ستانے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہیں اسی لئے انہوں نے اپوزیشن کے احتجاج کی کوئی پروا نہیں کی اس دوران جب کورونا وبا کی وجہ سے صوبائی اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت کےلئے ملتوی کردیا گیا اور کورونا کی وجہ سے صورت حال یکسر تبدیل ہوگئی تو پہلے مرحلہ میں صوبائی وزیر قانون اور دوسرے مرحلہ میں اسپیکر مشتاق غنی نے اپنا کردار ادا کرتے ہوئے اپوزیشن کیساتھ رابطوں کا سلسلہ شروع کردیا اور پھر وزیر اعلیٰ کی پیشگی منظوری کے بعد اسپیکر کی قیادت میں حکومتی جرگہ نے اپوزیشن لیڈر اکرم خان درانی کی رہائشگاہ پر جاکر پارلیمانی رہنماؤں کیساتھ ملاقات کی اس ملاقات میں دونوں جانب سے گلے شکوؤں کا اظہار ہوا تاہم اس امر پر اتفاق کیا گیا کہ اپوزیشن جماعتیں اسمبلی کا ماحول خوشگوار رکھنے میں اپنا کردار ادا کریں گی جبکہ ترقیاتی فنڈز کے معاملہ پر اپوزیشن کی وزیر اعلیٰ کیساتھ ملاقات کرائی جائے گی جس کے دو دن بعد اسپیکر ہاؤس میں اپوزیشن کے پار لیمانی رہنماؤں نے اپوزیشن لیڈر اکرم خان درانی کی قیادت میں وزیر اعلیٰ محمود خان کیساتھ ملاقات کی ، ملاقات میں طے پایا کہ حکومت اور اپوزیشن کی جانب سے کمیٹیاں بنائی جائیں گی جو معمول کے مسائل کا حل نکالیں گی تاہم اعلیٰ سطحی مسائل کے حوالے سے وزیر اعلیٰ خود معاملات کا جائزہ لیں گے۔

اس ملاقات میں بھی اپوزیشن جماعتوں نے یہ یقین دہانی کرائی کہ صوبائی اسمبلی کا ماحول خوشگوار رکھا جائیگا جبکہ حکومت نے بھی یہ یقین دہانی کرائی کہ صوبائی بجٹ کے معاملہ پر اپوزیشن کو اعتماد میں لیا جائیگا، کہنے کو تو حکومت اور اپوزیشن کے درمیان فاصلے ختم ہوگئے ہیں لیکن اصل حقیقت یہ ہے کہ ابھی بہت کچھ کیا جانا باقی ہے کیونکہ اپوزیشن جماعتوں کا یہ کہنا ہے کہ انہیں ابھی تک فنڈز نہیں ملے بلکہ اب تو فنڈز کی تقسیم کا فارمولا بھی عدالت میں چیلنج کرنے کی تیاریاں کی جارہی ہیں ،ظاہر ہے اس سے پھر حکومت اور اپوزیشن کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوگا تاہم اگر حکومت نے بجٹ کے معاملہ پر اپوزیشن جماعتوں کو یقین دہانی کے مطابق پیشگی میں اعتماد میں لیا اور اپوزیشن کے رہنماؤں کو ترقیاتی سکیموں میں مناسب حصہ دیا تو پھر صوبائی بجٹ کی منظوری کا مرحلہ آسانی سے طے کیا جاسکے گا۔