بھارت کی جعلی مہم جوئی …!

May 29, 2020

ڈیٹ لائن لندن … آصف ڈار
حکومت پاکستان کی جانب سے مسلسل اس بات پر اصرار کیا جارہا ہے کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں بڑے پیمانے پر کشمیریوں کی شہادتوں اور کورونا وائرس سے نمٹنے کی پالیسی میں اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لئے آزاد کشمیر میں ایک مرتبہ پھر کسی جعلی مہم جوئی کا ارتکاب کرسکتا ہے تاکہ میڈیا اور بھارت کے عوام کی توجہ حکومتی ناکامیوں سے ہٹائی جاسکے۔ چند روز قبل وزیراعظم عمران خان نے اس حوالے سے اپنے ٹیوٹر پیغام کے ذریعے دنیا کو خبردار کیا تھا اور اب عید کے روز جنگ بندی لائن کے دورے کے موقع پر آرمی چیف جنرل باجوہ نے بھی اسی قسم کے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے بھارت کو براہ راست مخاطب کرتے ہوئے خبردار کیا ہے۔ جنگ بندی لائن کی خلاف ورزی کرنے والے جاسوس ڈرون کو پاکستان کی جانب سے گرائے جانے کا واقعہ بھی اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ بھارتی حکومت پھر کوئی ڈھونگ رچانا چاہتی ہے۔ گزشتہ برس بھارت کی جانب سے کی گئی سرجیکل سٹرائیک کا بھانڈا ھوٹ چکا ہے اور اسے عالمی سطح پر ہزیمت کی صورت میں اس کی بھاری قیمت بھی چکانا پڑی ہے مگر اس کے باوجود وہ ہالی وڈ کی فلموں کی طرح کا جعلی جنگی ڈرامہ کرکے شاید اپنی خفت مٹانا چاہتا ہے مگر پاکستان کا غیرمعمولی طور پر چوکنا ہونا اس کی راہ میں رکاوٹ بن رہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرکے اور بھارتی مسلمانوں کے خلاف شہریت کا بل منظور کرا کے اگرچہ وزیراعظم نریندر مودی نے ہندو انتہاپسندوں کو خوش کیا ہے تاہم آنے والے دنوں میں بھارت کو ان گھنائونے اقدامات کے سنگین نتائج بھگتنے بھی پڑسکتے ہیں۔ کورونا وائرس نے بھارت میں مسلمانوں اور سیکولر قوتوں کو کچھ دیر کے لئے خاموش ضرور کیا ہے مگر جس طرح کشمیری ان حالات میں بھی مزاحمت کررہے ہیں اسی طرح پورے بھارت میں تحریک ایک بار پھر شروع ہوگی جس کے نتیجے میں بھارت کی معیشت کے ساتھ ساتھ انٹرنیشنل امیج کو بھی مزید نقصان ہوگا، اپنی اندھی فوجی طاقت کے زعم میں اب بھارت نے چین کے ساتھ بھی پنگا لے لیا ہے۔ پاکستان کے ساتھ جنگ بندی لائن پر وہ اپنی زور آزمائی تو کرتا ہی ہے اور ہمیشہ منہ کی کھاتا ہے مگر چین کے ساتھ کسی بھی مہم جوئی کا اسے بہت بڑا خمیازہ بھگتنا پڑسکتا ہے۔ دونوں کے درمیان جھگڑا لداخ اور تبت کا ہے۔ یہ دونوں علاقے ایک زمانے میں کشمیر کی ریاست میں شامل ہوا کرتے تھے۔ البتہ تقسیم ہند کے دوران کچھ علاقے چین کے پاس بھی چلے گئے تھے جن کے حوالے سے چین نے پاکستان کے ساتھ یہ وعدہ کررکھا ہے کہ کشمیر کا فیصلہ ہونے کے بعد ان کو کشمیر میں شامل کردیا جائے گا مگر بھارت ہے کہ ان علاقوں کو اپنا حصہ ظاہر کرتا ہے اور اس طرح ان پر بھی اپنا قبضہ کرنا چاہتا ہے جس طرح اس نے لداخ، لیہ، مقبوضہ کشمیر اور مقبوضہ جموں پر قبضہ کررکھا ہے، یہی نہیں بلکہ بھارتی انتہا پسندی سے بنگلہ دیش اور نیپال بھی متاثر ہورہے ہیں اور اب نیپال نے اپنے علاقوں کی بھارت سے واپسی کے لئے عالمی سطح پر مطالبہ کردیا ہے۔ ہندو انتہاپسندی اب سرحدوں س مزید باہر نکل رہی ہے جس کے نتیجے میں بھارت کو ملک کے اندر چلنے والی درجن بھر تحریکوں کے ساتھ ساتھ چین اور پاکستان جیسے ایٹمی ممالک کا سامنا بھی کرنا پڑے گا۔