’’کاہش پیہم‘‘ ناکام....

June 12, 2020

تہمینہ مختیار

اب یہ عادت تو برسوں پرانی ہوگئی تھی کہ وہ گھر کے کاموںمیں مخل ہوتیں لیکن کبھی کبھی بھٹکی ہوئی ر وح کی طرح گھر کے ایک آدھ کونے میں جھانک بھی لیتی تو نہ جانے کیوں کشف کو ان کا یوں کبھی کبھی کا جائزہ لینا بھی سخت ناگوار گزرتا۔ امی پلیز تھوڑی سی احتیاط رکھا کریں تین سال پہلے آپ کا کتنا سیریس فریکچر ہوا ہے دوبارہ کچھ ہوگیا تو ہمارے لئے مسائل کھڑے ہوجائیں گے۔ بس یہی احساس یہی جملہ ان کے لیےسوہان روح بن جاتا اور پھر کرب تنہائی اور کمرے کی چار دیواری ان کا مقدر بن جاتی۔

لیکن آج ایسے ہی نہ جانے کیوں ان کا دل چاہا کہ ذرا سی دیر کے لیےگھر کے درودیوار سے باتیں کرلوں جنہیں انہوںنے بڑی محنت و ریاضت کے ساتھ اپنے بچوں کے لیے تعمیر کروایا تھا۔بڑی احتیاط پسند تھیں کوشش ان کی یہی ہوتی تھی کہ بہو بیگم کو ان کے کسی معاملے سے کوئی اعترا ض نہ ہو، پڑھی لکھی خاتون تھیں اپنے گھر کی فضا کو مکدر کرنا انہیں بھی منظور نہیں تھا اس لئے بہو کے آتے ہی انہوں نے مہرلب ہونا بہتر سمجھا تھا۔

وہ چلتے چلتے کچن تک آگئیں تو کچن کی حالت زار دیکھ کر انہیں دھچکہ لگا۔ ہر طرف بکھری ہوئی یا ہاتھوں سے پھینکی ہوئی چیزیں اپنی بے قدری پر صف ماتم میں نظر آئیں۔ کچن تھا یا کباڑ خانہ! وہ سوچ کر ہی رہ گئیں۔’’اماں جی آپ‘‘ میڈ نے حیرانگی سے انہیں دیکھ کر کہا ’’او اماں جی آپ، آپ کدھر راستہ بھول گئیں، اچھا جی بیٹھ جائیں، چائے وائے چاہیئے…‘‘ ’’نہیں!‘‘انہوں نے ناگواری سے کہا ۔

’’سلطانہ تم کچن کو صاف نہیں رکھتی …‘‘کیوں نہیں رکھتی اماں جی، ابھی کام کررہی ہوں نہ اس لئے چیزیںادھر ادھر بکھری ہوئی پڑی ہیں۔ انہوںنے اس صاف کچن پر ایک طائرانہ نظر ڈالی اور خاموشی سے کچن سے باہرنکل آئیں۔ یہ وہ گھر تھا، جس کا ایک ایک کونا انہوں نے اپنے شوہر کے ساتھ کھڑے ہوکر چھوٹی موٹی نوکریاں کرکے تعمیر کیا تھا اور اس کی تزئین و آرائش کے لیے دن رات محنت کی تھی ۔ وہ خود تو اس دنیا سے جلدی چلے گئے لیکن بچوں کی بے اعتنائی اور بے قدری جھیلنے کے لئے انہیں تنہا چھوڑ گئے تھے… بڑی بہو تو شادی کے چار سال بعد ہی دو بچوں کے ساتھ آزادی کا سرٹیفکیٹ لے کر میاں کے ساتھ علیحدہ ہوگئیں، یہ چھوٹی بہو کشف تھی جو پھر بھی نبھا رہی تھی یا حارث واقعی بیٹے ہونے کا ثبوت دے رہا تھا ۔

چھوٹے سے ٹی وی لائونج میں وہ اپنی تھکی ہوئی سوچوں کے ساتھ بیٹھی، تو لائونج کے اشتہار خانے نے انہیں تنگ کرنا شروع کیا، اتنے سے لائونج میں سجاوٹ بناوٹ کی اتنی چیزیں، اوپر سے دیوار پر نصب اتنا بڑا LCD، یا خدا یہ گھر ہے یا نمائش و زیبائش کی کوئی دکان، جس میں چلنا پھرنا، سانس لینا اتنا مشکل ہوگیا ہے۔ انہیں محسوس ہوا کہ ان کی سانس یہاں بوجھل ہورہی ہے تو وہ کمرے میں چلی آئیں یہاں آکراحساس ہوا کہ کتنا سکون ہے یہاں پر، کم از کم بہو بیگم اس کمرے کے معاملات میں زیادہ دخل نہیں دیتی ہیں۔ سادہ سا فرنیچر، سادہ سے درودیوار، ہلکے سے انگوری رنگ کے پردے جو برسوں سے دونوںکھڑکیوں پر پڑے ہوئے تھے۔

دوپہر کا کھانا ان کے کمرے میں پہنچ جاتا تھا، شام کی چائے وہ عموماً کم ہی پیتی تھیں، البتہ رات کا کھانا وہ سب ڈائننگ ٹیبل پر مل کر کھاتے تھے لیکن ایک دو دن سے وہ دیکھ رہی تھیں کہ گھر کی روٹین کچھ بدلی ہوئی تھی۔ صبح کے وقت بچوں کے جانے کا ہلکا ہلکا سا شور شرابہ بھی ان کی نیند میں مخل نہیں ہورہا تھا۔ حارث بھی انہیں دو دن سے گھر میں نظر آرہا تھا اور کشف بھی دیر سے سو کر اٹھ رہی تھی… پہلے توا نہوں نے سمجھا کہ ہفتہ، اتوار کی چھٹی ہے لیکن آج ایسے ہی کیلنڈر پر نظر چلی گئی تو انہیں جمعرات کا دن نظر آیا تو انہیں بہت تعجب ہوا کہ وہ بھی تو کتنی چیزوں اور کتنے معاملات سے بے خبر ہوچکی ہیں اب ایسا بھی کیا کہ انسان ہر چیز سے ہی منہ موڑ لے، پر وہ بھی تو ان خواتین میں سے نہیں تھیں جو گھر کو آخری وقت تک اپنی راجدھانی سمجھتی ہیں… اس لئے خود ہی تو اپنے لئے اور دوسروں کے حق اور گھر کی واقفیت کے لیےوقت سے بھی بہت پہلے چابیاں بہو کو تھماکر کمرے ہی کو اپنی دنیا بنالیا تھا۔

گھر میں، گھر سے باہر دنیا میں کیا ہورہاہے انہیں اب اس سے کوئی خاص غرض نہیں تھی لیکن آج اور کچھ دن پہلے سے بھی ان کی جہاندیدہ نظریں یہ دیکھ رہی تھیں کہ ماحول میں کچھ ایسا ارتعاش ہے جو آج سے پہلے نہیں تھا۔ خبریں انہوںنے عرصے سے سننا بند کردی تھیں پر کچھ ایسا خاص تھا جو اردگرد کو بوجھل کیا ہوا تھا… اور پھر نہ جانے کیا سوچ کر انہوں نے ایک عرصے سے بند کمرے کے کونے میں پڑے ہوئے چھوٹے سے ٹی وی کو آن کیا اور اسکرین سے گرد صاف کرکے خبروں کے چینلز کو تلاش کرکے ایک چینل کو دیکھنے لگیں اور کافی دیر تک خبریں سننے کے بعد ان کا دل ہولنے لگا… یہ کیا ہورہا ہے ارد گرد، دنیا میں ایک ہنگامہ مچا ہوا ہے اور انہیں خبر ہی نہیں، وہ اتنی بے خبری ہوگئی ہیں یا انہیں اس قابل ہی نہیں سمجھا جارہا ہے کہ انہیں بھی کچھ بتایا جائے کہ آج کل انسانیت کتنے بڑے گھمبیر مسئلے میں الجھی ہوئی ہے اس ننھے سے وائرس سے دنیا کا نقشہ ہی الٹ گیاتھا، کون سی زمین نہیں تھی جو اس کے غم سے بوجھل نہیں تھی، یا خدا اتنی تباہی، بڑے بڑے ناخدا سر جھکا کر بیٹھ گئے، فلک بوس عمارتوں کے شہر خاموشی اور سناٹے کی چادر اوڑھ کر بیٹھ گئےتھے، ہم تو بہت غریب ہیں یا خدا ہمارا کیا ہوگا؟

ابھی تو گھٹنوں کے بل چل کر ترقی کا سفرشروع کیا ہے۔ اب انہیں سمجھ میں آیا کہ گھر میں بے نام سی خاموشی کیوں چھائی ہوئی تھی۔ کچھ سوچنے کے بعد انہوںنے دوپہر کا کھانا آج بچوں کے ساتھ کھانے کا ارادہ کیا۔ بچے انہیں دیکھ کر حیران تو ہوگے لیکن اب ہماری انا بالائے طاق رکھ کر انہیں حوصلہ اور ہمت تو دینی ہے، ورنہ ان کے ہونے کا فائدہ کیا، ان کے بالوںمیں جو سفید چاندنی اتری ایسے تو نہیں اتری، اس کی قیمت زندگی کے تلخ تجربات ہیں جو بھتتر سال کی دھوپ و چھائوں کی نرمی و گرمی سہ کر انہیں حاصل ہوئے تھے۔

بچے دوپہر کو دادی کو اپنے ساتھ کھانا کھاتے دیکھ کر حیران تو ہوئے، لیکن ان کے چہرے پر ایک خوشگوار تاثر بھی نظر آیا…حارث آج کل تم گھر پر ہو بیٹا، اور حارث تو جیسے ان کے پوچھنے کا منتظر تھا! اول سے آخر تک اس مہلک وائرس کے حوالےسے دنیا بھر کی پریشانیاں ان کے سامنے رکھ دی اور اتنے سالوںبعد ماں کا ہاتھ تھام کران سے دعا کی سفارش بھی کردی… انہیں اس کے اس بھولپن پر پیار بھی بہت آیا… پاگل کہیں کا وہ تو ایسے ہی ان کی دعائوںکے حصار میں رہتاتھا…

ایک دن رات کےکھانے کی ٹیبل پر بیٹھے ہوئے ۔اماں نے جب حارث اور کشف سے بات کرنی شروع کی تو ایسا لگا جیسے وہ تو برسوں سے ان سے کچھ کہنا چاہتی ہیں انہیں اس راہ پر لانا چاہتی ہیں ،جس سے وہ دنیاداری کے جال میں الجھ کر نمودونمائش، اسراف، بناوٹ اور فضول خرچی کے گورکھ دھندوںمیں پڑ کر خود اپنا آپ بھی فراموش کرچکے ہیں! یہ آزمائش، یہ امتحان بیٹا یوں ہی تو نہیں ہورہا ہے…ہم نے اس کی ذات کو کہاں کہاں ناراض نہیں کیا ہے اس طمع، حرص و ہوس نے ترقی کے نام پر ہم سے بہت کچھ چھین لیا ہے۔ سادگی، میانہ روی، صبر، وقار، جہالت اور غربت کی نشانی بن چکا ہے …تو یہ تو ہونا ہی تھا بیٹا! ایسا جلال تو آنا ہی تھا کبھی نہ کبھی تو سبق سکھانا تھا اور اس نے بگڑی ہوئی قوموں کوایسے ہی سبق سکھایا ہے۔

ایک طرف کچھ انسانوںکی بے کسی، بے بسی اور غربت اور دوسری طرف تم اور ہم جیسے لوگوںکی امارت، فضول خرچیاں، ایک طرف لوگوںکا ایسا ہجوم جو پیسے کو پیسہ ہی نہیں سمجھ رہا ہے اور دوسری طرف ایسے مزدور، ایسے سیکورٹی گارڈ، تولیہ اور چھوٹی چھوٹی چیزیں بیچتے ہوئے بچے جن کی طرف تم نظر اٹھا کر بھی نہیں دیکھتے کبھی ان کی آنکھوں میں وہ دکھ دردکی لہریں دیکھو جو تم سے اور تم جیسے لوگوں سے شکوہ کرتی ہوئی نظر آئیں گی، سوال کرتی ہوئی نظر آئیں گی پر ہمیں اتنی فرصت کہاں کہ ان نظروںکو ان تحریروں کو پڑھ سکیں لوگ زندگی پہلے بھی گزارتے تھے امارت اور غربت، بناوٹ اور سادگی کا سفر ہمیشہ رہا ہے پر آج کی نسل کی یہ دوڑ بے لگام دوڑ میں بدل چکی ہے۔ تم نے کبھی کچن کے معاملات کو غور سے دیکھا ہے۔ میڈ ضرورت یا فیشن کچھ سمجھ میں نہیںآتا ہے۔

ہم ایک چھوٹے سے وائرس سے کتنے خوفزدہ ہو کرقید ہوگئے ہیں کبھی اس کی ذات سے اس کی پوچھ گچھ سے بھی اتنے پریشان ہوئے! کتنی چیزوں کو کتنی آسائشوں کو ترک کیا… اس کا جواب ہم میں سے کسی کے پاس نہیں… اس کے امتحان اس کی آزمائشوں میں ناراضی نہیں بیٹا اسے اس بگڑی ہوئی دنیا کانقشہ سنوارنا ہے… ادھر سےادھر جو پانسے الٹ گئے ہیں انہیں اپنی جگہ پر لانا ہے، رشتے، ناطوں میں ویسےہی بناوٹ اور دکھاوا رہ گیا تھا کون دل سے مل رہا تھا یہ تو دل ہی جانتا ہوگا اللہ نے ظاہر کرکے دکھادیا کہ فاصلہ تو فاصلہ ہی سہی جب تعلق رشتوں میں دوستیوں میں زہر بن جائے تو ایسے وائرس خودہی دنیا کا راستہ دیکھ لیتے ہیں۔ حارث اور کشف بہت ہی خاموشی سے نظریں جھکا کر ان کی سچی باتوں کو سنتے رہے، کچھ غلط تو وہ نہیں کہہ رہی تھیں۔

میرا مقصد تمہیں شرمندہ کرنا نہیں ہے بیٹا! صرف سمجھانا ہے ہمارا سفر اب اپنے اختتام کی طرف ہے تمہارا سفر تمہاری نسل کے لیے شروع ہوچکا ہے، اگر آج تم نے قوانین فطرت سے ہٹ کر اس کی حدود کو پار کرکے ایسے خواب اپنی نسلوں کی آنکھوںمیں اتاردیئے کہ جن کی تعبیر بڑی بھیانک ہے۔ پھر تمہارے پاس کچھ بھی نہیں رہےگا… ہم نے ہی اسے ناراض کیا ہے ہم ہی اسے راضی کریں گے… توبہ و استغفار کے دروازے تو ہر وقت کھلے ہیں ۔لہٰذا ہمیں چاہیے کہ ہر وقت استغفار کرتے رہیں اور اپنے رب کو راضی کرلیں ۔