وفاقی بجٹ21-2020 پیش کردیا گیا

June 12, 2020

وفاقی وزیرِ صنعت و پیداوار حماد اظہر نے قومی اسمبلی میں مالی سال 21-2020ء کا وفاقی بجٹ پیش کر دیا، حکومت نے بجٹ میں عوام کو ریلیف دینے کے لیے کوئی نیا ٹیکس نہ لگانے کا اعلان کیا ہے۔

قومی اسمبلی میں وفاقی وزیرِ صنعت و پیداوار حماد اظہر کی جانب سے کی جانے والی بجٹ تقریر کے دوران اپوزیشن اراکین نعرے بازی کرتے رہے۔

وفاقی بجٹ پیش، حکومت کا نیا ٹیکس نہ لگانے کا اعلان

وفاقی بجٹ میں مہنگائی 9 اعشاریہ 1 فیصد سے کم کر کے ساڑھے 6 فیصد تک لانے کی تجویز دی گئی ہے، پانی کے منصوبوں کے لیے 70 ارب روپے، جبکہ ایم ایل ون کے لیے 34 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔

وفاقی بجٹ 21-2020ء میں دفاع کے لیے 12 کھرب 89 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔

وفاقی وزیر حماد اظہر نے اپنی بجٹ تقریر کے دوران پاک فوج کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ حکومت ان حالات میں کفایت شعاری کے اصولوں پر کار بند ہے، افواج پاکستان کے مشکور ہیں کہ انہوں نے حکومت کی کفایت شعاری کی کوششوں میں بھرپور تعاون کیا ہے۔

بجٹ میں درآمدی سگریٹ پر ڈیوٹی 65 فیصد سے بڑھا کر 100 فیصد کرنے کی تجویز دی گئی ہے، آٹو، موٹر سائیکل رکشہ اور 200 سی سی موٹر سائیکل پر ایڈوانس ٹیکس نہیں لیا جائے گا۔

وفاقی بجٹ میں پاکستان میں تیار کیے جانے والے موبائل فونز پر سیلز ٹیکس کم کرنے کی بھی تجویز دی گئی ہے، کیفین والے مشروبات پر ٹیکس 13 فیصد سے بڑھا کر 25 فیصد کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔

بجٹ میں لاہور اور کراچی میں وفاق کے زیرِ انتظام سرکاری اسپتالوں کے لیے 13 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔

وفاقی بجٹ میں ٹیکس دہندگان کے لیے اسکول فیس پر ٹیکس کی شرط ختم کرنے کی تجویز دی گئی ہے، جبکہ ٹیکس نادہندگان سے اسکول کی 2 لاکھ سے زائد سالانہ فیس پر 100 فیصد ٹیکس لینے کی تجویز دی گئی ہے۔

بجٹ میں بھاری فیسیں لینے والے تعلیمی اداروں پر 100 فیصد سے زائد ٹیکس عائد کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔

وفاقی بجٹ میں اسمارٹ اسکولوں اور مدارس کے نظام میں اصلاحات کے لیے 5 ارب روپے مختص کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیے: وفاقی وزیر حماد اظہر کی بجٹ تقریر کے اہم نکات

اپوزیشن اراکین اسمبلی وفاقی وزیر حماد اظہر کی بجٹ تقریر کے دوران سراپا احتجاج رہے جبکہ وہ اسمبلی میں پلے کارڈز بھی لے آئے جن میں حکومت مخالف نعرے درج تھے۔

پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ نون اور متحدہ مجلس عمل کے اراکین نے احتجاجی بینرز اٹھا رکھے تھے۔

اپوزیشن اراکین کو بجٹ تقریر شروع ہونے کے باوجود بجٹ تقریر کی کاپیاں نہیں دی گئیں اور نہ ہی بجٹ کی پنک بکس دی گئیں۔

قومی اسمبلی میں اپوزیشن اراکین نے ’آٹا چور‘، ’چینی چور‘ اور ’علی بابا چالیس چور‘ کے نعرے بھی لگائے۔

بجٹ تقریر کےدوران واک آؤٹ کرنے والے اپوزیشن ارکان نے وفاقی بجٹ کو مسترد کر دیا، اپوزیشن رہنماؤں کا کہنا تھا بجٹ میں عام آدمی کے لیے کوئی منصوبہ نہیں رکھا گیا۔

وفاقی بجٹ سینیٹ میں بھی پیش کر دیا گیا ہے، جس کے بعد چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے اجلاس پیر کی شام 4 بجے تک ملتوی کر دیا۔

صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سلیم مانڈوی والا نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کا مطالبہ کر دیا۔

یہ بھی پڑھیئے: بجٹ کا سارا ملبہ کورونا پر ڈالا گیا: خواجہ آصف

انہوں نے کہا کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ نہ کر کے اچھا پیغام نہیں جائے گا، حکومت کو سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے پر غور کرنا چاہیے۔

ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سلیم مانڈوی والا کا یہ بھی کہنا ہے کہ موجودہ صورتِ حال میں بجٹ کا فوکس صرف کورونا وائرس کے باعث مشکلات پر ہونا چاہیے۔

ادھر پاکستان مسلم لیگ نون کے صدر اور قائدِ حزبِ اختلاف میاں محمد شہباز شریف نے عوام دشمن قرار دیتے ہوئے وفاقی بجٹ کو مسترد کر دیا۔

ایک بیان میں میاں شہباز شریف کا کہنا ہے کہ اس بجٹ کے نتیجے میں مہنگائی اور بے روزگاری میں مزید اضافہ ہوگا۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ بجٹ صرف پی ٹی آئی کے فنانسرز اور مفاد پرستوں کو نوازنے کے لے بنایا گیا ہے، آئندہ آئی ایم ایف اجلاس سے قبل حکومت مِنی بجٹ پیش کرے گی۔

پیپلز پارٹی کی رہنما شیری رحمٰن کا بجٹ پر اپنے ردِ عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہنا ہے کہ بجٹ میں صرف اعداد و شمار آگے پیچھے کیے گئے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ کسی کا دوست نہیں بلکہ پاکستان دشمن بجٹ ہے، نہ فنانس کمیٹی کو آن بورڈ لیا گیا، نہ بجٹ پر کوئی بحث ہوئی۔

شیری رحمٰن کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس وقت جو صورتِ حال ہے اس میں کورونا وائرس کے علاوہ ٹڈی دل کا بھی سامنا ہے۔