• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وفاقی وزیر حماد اظہر کی بجٹ تقریر کے اہم نکات

وفاقی وزیرِ صنعت و پیداوار حماد اظہر نے قومی اسمبلی میں مالی سال 21-2020ء کا وفاقی بجٹ پیش کر دیا۔

وفاقی وزیر حماد اظہر نے بجٹ تقریر کے دوران پاک فوج کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کی کفایت شعاری کی پالیسی پر افواجِ پاکستان کے شکر گزار ہیں۔

وفاقی وزیر حماد اظہر کی بجٹ تقریر کے اہم نکات


بجٹ تقریر کے اہم نکات درج ذیل ہیں:۔

  • بجٹ میں حکومت کی جانب سے عوام کو ریلیف دینے کے لیے کوئی نیا ٹیکس نہ لگانے کا اعلان کیا گیا ہے۔
  • مہنگائی 9 اعشاریہ 1 فیصد سے کم کرکے ساڑھے 6 فیصد تک لانےکی تجویز دی گئی ہے۔
  • پانی کے منصوبوں کے لیے 70 ارب روپے، ایم ایل ون کے لیے 34 ارب مختص کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
  • درآمدی سگریٹ، بیڑی اور سگار میں ایف ای ڈی میں اضافہ کیا گیا ہے۔
  • درآمدی سگریٹ پر ڈیوٹی 65 فیصد سے بڑھا کر100 فیصد کرنے کی تجویز ہے۔
  • الیکٹرانک سگریٹس پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں اضافہ کیا گیا ہے۔
  • آٹو، موٹر سائیکل رکشہ اور 200 سی سی کی موٹر سائیکل پر ایڈوانس ٹیکس نہیں لیا جائے گا۔
  • پاکستان میں موبائل فون بنانے کی اجازت دے دی گئی ہے۔
  • پاکستان میں تیار کیے گئے موبائل فونز پر سیلز ٹیکس کم کرنے کی تجویز پیش کی گئی۔
  • کیفین والے مشروبات پر ٹیکس 13 فیصد سے بڑھا کر 25 فیصد کرنے کی تجویز دی گئی۔
  • مشکل سفر سے ابتدا کی، مطلوبہ اہداف کے حصول کے لیے عوام کا تعاون کی ضرورت ہے
  • معاشی بحران ورثے میں ملا، ملک دیوالیہ ہونےکےقریب تھا۔
  • گزشتہ حکومت میں بجٹ خسارہ 2300 ارب کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکا تھا۔
  • جاری کھاتوں کا خسارہ 20 ارب کی انتہاپر پہنچ چکا تھا۔
  • ملکی قرض 31 ہزار ارب پر پہنچ چکا تھا۔
  • گزشتہ 5 برسوں میں برآمدات میں بھی کوئی اضافہ نہیں ہوا تھا۔
  • 2 سال کے دوران کرپشن کا خاتمہ کیا۔
  • سود کی ادائیگیوں کے لیے 2 ہزار 946 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، ریٹائرڈ ملازمین کو پینشن کی ادائیگی کے لیے 470 ارب روپے کا تخمینہ ہے۔
  • شرح نمو میں بہتری کے لیے ہر ممکن اقدامات کیئے، ہمارا مقصد معیشت کی بحالی ہے۔
  • وفاقی ترقیاتی پروگرام کا حجم 650 ارب روپے مختص کیا گیا ہے۔
  • نان ٹیکس ریونیو 1108 ارب روپے مختص کیا گیا ہے۔
  • ایف بی آر کے ریونیو میں 17 فیصد اضافہ ہوا۔
  • ایف بی آر کے لیے ٹیکس وصولیوں کا ہدف 4 ہزار 963 ارب روپے رکھا گیا ہے۔
  • ایف بی آر کے لیے 100 ارب مختص تھے۔
  • نجکاری سے آمدن کا تخمینہ 100 ارب روپے رکھا گیا ہے۔
  • وفاقی ترقیاتی پروگرام کا حجم 650 ارب روپے مختص کیا گیا ہے۔
  • نان ٹیکس ریونیو 1108 ارب روپے مختص کیا گیا ہے۔
  • کرپشن کا خاتمہ اور ادارواں کی بحالی پہلی ترجیح رہی ہے۔
  • زرمبادلہ کے ذخائر میں بہتری لے کر آئے ۔
  • 16 سو ارب کی وصولیوں کا ہدف پورا کریں گے۔
  • 5 ہزار ارب کا سود ادا کیا گیا۔
  • خزانے پر گزشتہ حکومتوں کے قرضوں کے سود کا بوجھ اتارا۔
  • تحریکِ انصاف سماجی انصاف پر یقین رکھتی ہے اور اس کے حصول پر کار بند ہے۔
  • رواں مالی سال کے پہلے 5 ما ہ میں بجٹ خسارہ 5 فیصد سے کم ہو کر 3 اعشاریہ 8 فیصد رہ گیا تھا۔
  • ماضی کی حکومتوں کے بھاری قرضوں کی وجہ سے 5 ہزار ارب کا سود ادا کیا گیا۔
  • پاکستان کی بہتر ہوتی معیشت دیکھ کر آئی ایم ایف نے 6 ارب ڈالر کے ایکسپینڈڈ فنڈز کی منظوری دی۔
  • بلوم برگ نے دسمبر میں پاکستان کو دنیا کی بہترین معیشتوں میں سے ایک قرار دیا۔
  • موڈیز نے بھی ہماری ریٹنگ کو بہتر قرار دیا۔
  • منی لانڈرنگ کی روک تھام کے لیے ماضی میں کوئی اقدام نہیں کیا گیا تھا۔
  • منی لانڈرنگ، ٹیرر فنانسنگ کے خلاف اقدام نہ کرنے سے پاکستان ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں گیا۔
  • جون 2018ء کو پاکستان کو ایف اے ٹی ایف گرے لسٹ میں ڈالا گیا ، ہماری حکومت نیشنل ایف اے ٹی ایف کمیٹی بنا کر اس میں بہتری لائی۔
  • ہم نے 2 سال میں نمایاں معاشی اعشاریے بہتر کیے۔
  • تجارتی خسارے میں 31 فیصد کمی کی، بجٹ خسارہ بھی 3 فیصد تک لایا گیا۔
  • اس مالی سال 1160 ارب کے مقابلے میں 1600 ارب ریونیو حاصل کریں گے۔
  • ماضی کے بھاری قرضوں کی وجہ سےگزشتہ 2 سال میں بھاری سود ادا کیا۔
  • 9 ماہ میں 17 ارب ڈالر غیر ملکی زرمبادلہ ذخائر ہوگئے۔
  • 74 فیصد قرضہ جات کو طویل المدتی قرضوں میں تقسیم کیا۔
  • اسٹیٹ بینک سے ادھار لینے کا سلسلہ بند کیا۔
  • کرنسی کا ریٹ مارکیٹ اورینٹل کیا گیا۔
  • تجارتی راہ میں حائل رکاوٹوں کو ختم کیا گیا۔
  • سرکاری اداروں کو بہتر بنانے کی کوشش کی اور شفاف نجکاری کی گئی۔
  • میڈ اِن پاکستان کے ساتھ پاکستانی مصنوعات بین الاقوامی منڈیوں تک پہنچائی گئیں۔
  • حکومت نے تمام صوبوں میں شفاف احتساب کے لیے اسٹرکچر اصلاحات کیں۔
  • پبلک فنانس مینجمنٹ ایکٹ 2019ء کا پہلی بار نفاذ کیا گیا ہے۔
  • پینشن کے نظام میں اصلاحات لائی گئی ہیں۔
  • ڈاکٹرعشرت حسین کی سربراہی میں ٹیم بنائی گئی۔
  • ٹیم نے 45 اداروں کی نجکاری، 14 اداروں کی صوبوں کو منتقلی کا پلان دیا۔
  • تجارتی خسارے میں 31 فیصد کمی کی گئی۔
  • کورونا وائرس کی وباء سے پاکستان کی معیشت کو جھٹکا لگا۔
  • طویل لاک ڈاؤن اور کاروباری سرگرمیاں بند ہوئیں، سفری پابندیوں سے معیشت کو نقصان ہوا۔
  • صنعتیں اور کاروبار بند ہونے سے جی ڈی پی میں 2100 ارب کی کمی ہوئی۔
  • کورونا اخراجات، مالیاتی اخراجات کو بیلنس رکھنا بجٹ کی ترجیحات میں ہے۔
  • کورونا کے تدارک کے لیے 12 سو ارب روپے سے زائد کے پیکیج کی منظوری دی گئی ہے۔
  • کورونا وائرس کی صورتِ حال میں خصوصی ترقیاتی بجٹ کی مد میں 70 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
  • کورونا وائرس کے باعث 73 فیصد جاری منصوبوں اور 27فیصد نئے فنڈز مختص کر رہے ہیں۔
  • کورونا سے بچاؤ کے لئے خصوصی 70 ارب کا پروگرام مختص کر دیا گیا ہے۔
  • کورونا اور دیگر آفات سے نمٹنے کے لیے الگ 70 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
  • کسانوں کو 50 ارب کی رقم دی گئی۔
  • وفاقی حکومت کے اخراجات میں مختلف پیکیجز سے اضافہ ہوا۔
  • معیشت کی بہتری کے لیے کنسٹرکشن سیکٹر کو ریلیف دیا۔
  • لاک ڈاؤن کے برے اثرات کے ازالے کے لیے اسٹیٹ بینک نے بھی خصوصی ریلیف دیا۔
  • اسٹیٹ بینک نے انفرادی قرضوں کے لیے بینکوں کو 800 ارب روپے دیے۔
  • گزشتہ مال سال میں کوئی ضمنی گرانٹ نہیں دی گئی۔
  • خصوصی علاقوں فاٹا اور گلگت بلتستان کے لیے خصوصی بجٹ رکھا گیا ہے۔
  • کفایت شعاری اور غیر ضروری اخراجات میں کمی کو یقینی بنایا جائے گا۔
  • بلین ٹری سونامی اور نیا پاکستان ہاؤسنگ اسکیم کو بجٹ میں تحفظ دیا گیا ہے۔
  • نان ٹیکس ریونیو میں اضافے کی توقع ہے ۔
  • احساس پروگرام کو 187 سے بڑھا کر 208 ارب کر دیا گیا ہے۔
  • توانائی اور خوراک سمیت 180 ارب کی رقم مختص کی ہے۔
  • حکومت اِن مشکل حالات میں کفایت شعاری کے اصولوں پر کاربند ہے۔
  • دفاع کے لیے 12 کھرب 89 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔
  • مجموعی طور پر 875 ارب روپے کی رقم وفاقی بجٹ میں رکھی گئی۔
  • طبی آلات کی خریداری کے لیے 71 ارب، غریب خاندانوں کے لیے 150 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
  • ایمرجنسی فنڈ کے لیے 100 ارب مختص کیے گئے ہیں۔
  • آزادجموں کشمیر کے لیے 55 ارب، گلگت بلتستان کے لیے 32 ارب مختص کیے ہیں۔
  • کے پی کے میں ضم اضلاع کے لیے 56 ارب بھی مختص کیے جا رہے ہیں۔
  • سندھ کے لیے 19 ارب، بلوچستان کے لیے 10 ارب کی خصوصی گرانٹ رکھی گئی ہے۔
  • توانائی اور خوراک کے شعبے میں 180 ارب روپے کی سبسڈی دی گئی ہے۔
  • خصوصی علاقے آزاد کشمیر کے لیے 72 ارب مختص کیے گئے ہیں۔
  • کامیاب نوجوان پروگرام کے لیے 2 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
  • ای گورننس کے ذریعے وزارتِ انفارمیشن ٹیکنالوجی کے تیار پلان کے لیے 1 ارب سے زائد مختص کیے گئے ہیں۔
  • فنکاروں کی مالی امداد کے لیے آرٹسٹ پروٹیکشن فنڈ 25 کروڑ سے بڑھا کر 1 ارب کر دیا گیا ہے۔
  • عوام کو سستی ٹرانسپورٹ کی فراہمی کے لیے ریلوے کے لیے 40 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
  • کامیاب نوجوان پروگرام کے لیے 2 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
  • پی ایس ڈی پی کے لیے 650 ارب روپے مختص کر رہے ہیں۔
  • توانائی اور بجلی کے لیے 80 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
  • دیا میر بھاشا، مہمند اور داسو ڈیمز کے لیے مالی وسائل فراہم کیے جا رہے ہیں۔
  • سماجی شعبے کے لیے 250 ارب مختص کیے گئے ہیں۔
  • مواصلات کے دیگر منصوبوں کے لیے 37 ارب رکھےگئے ہیں۔
  • تعلیمی منصوبوں اور مدرسوں کا نصاب ضم کرنے اور ای اسکولز کے قیام کے لیے 5 ارب مختص کیے گئے ہیں۔
  • آبی وسائل کے لیے مجموعی طور پر 69 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
  • لاہور وفاق اور کراچی کے اسپتالوں کے لیے 13 ارب مختص کیے گئےہیں۔
  • زراعت ریلیف میں 10 ارب مختص کیے گئے ہیں۔
  • پی ایس ڈی پی کے لیے 650 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
  • بجلی کا ترسیلی نظام بہتر بنانے کے لیے 80 ارب مختص کیے گئے ہیں۔
  • وزارتِ موسمیاتی تبدیلی کے لیے 6 ارب مختص کیے گئے ہیں۔
  • قومی شناختی کارڈ سے متعلق شرط 50 ہزار سے بڑھا کر 1 لاکھ کر دی گئی۔
  • ڈبل کیبن گاڑیوں پر بھی ٹیکس کی شرح بڑھا دی گئی۔
  • ایف اے ٹی ایف کے 14 نکات پر مکمل جبکہ 11 نکات پر عمل درآمد کیا جا رہا ہے۔
  • اسٹیٹ بینک انفرادی قرضوں کے لیے 800 ارب روپے مختص کرے گا۔
  • ٹیکس ادا کرنے کے لیے تنخواہ دار طبقے کے لیے ایپ متعارف کرائی گئی ہے۔
  • سیمنٹ کی پیداوار میں ڈیوٹی کم کرنے کی تجویز ہے۔
  • افغانستان کی بحالی کی مد میں 2 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
  • بلوچستان کو 10 ارب روپے کی خصوصی گرانٹ دی جائے گی۔
  • ٹیکس دہندگان کے لیے اسکولوں فیس پر ٹیکس کی شرط ختم کر دی گئی ہے۔
  • ٹیکس ناہندگان کے لیے اسکول فیس پر ٹیکس کی شرط برقرار ہے۔
  • ایکسائز ڈیوٹی 65 فیصد سے بڑھا کر 100 فیصد کر دی گئی ہے۔
  • انرجی ڈرنکس پر ایکسائز ڈیوٹی 13 فیصد سے بڑھا کر 25 فیصد کر دی گئی۔
  • ڈبل کیبن پک اپ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی عائد ہو گی۔
  • بھاری فیسیں لینے والے تعلیمی اداروں پر 100 فیصد سے زائد ٹیکس عائد کر دیا گیا ہے۔
  • 2 لاکھ روپے سے زائد سالانہ فیس لینے والے تعلیمی اداروں کو 100 فیصد زائد ٹیکس دینا پڑے گا۔
  • ایف اے ٹی ایف کے تقاضوں کو بھی بجٹ میں مدِنظر رکھا گیا ہے۔
  • زراعت کے شعبے اور ٹڈی دل کے خاتمے کے لیے 10ارب مختص کیے گئے ہیں۔
  • تعلیمی اداروں اور شادی ہالز کے ٹیکس پر کمی کی جا رہی ہے۔
  • 50 ہزار سے 1 لاکھ کی خریداری پر شناختی کارڈ دکھانا ہو گا۔
  • عام خریدار کے لیے شناختی کارڈ کی حد 1 لاکھ روپے ہے۔
  • سیمنٹ پر ڈیوٹی 75 اعشاریہ 1 فی کلو کم کرنے کی تجویز ہے۔

وفاقی وزیر حماد اظہر کی بجٹ تقریر 1 گھنٹہ 5 منٹ پر مشتمل تھی۔

تازہ ترین