وزیر اعلیٰ بزدار کا ’’کلہ‘‘ مضبوط: وزیراعظم کی طرف سے بھرپور اعتماد کا اظہار

June 18, 2020

وزیراعظم عمران خاں نے لاہور میں قیام کے دوران گورنر پنجاب چودھری محمد سرور، وزیر اعلیٰ پنجاب سردار عثمان خاں بزدار متعدد صوبائی وزراء سمیت پارٹی کے دیگر رہنمائوں سے کورونا وائرس سے پیدا ہونے والی سیاسی سماجی معاشی صورتحال سمیت اہم امور پر مشاورت کی وزیراعظم نے کورونا وائرس اور ٹڈی دل پر قابو پانے کے حوالے سے پنجاب حکومت کے اقدامات پر اطمینان کا اظہار کیا اور پنجاب اسمبلی میں 15جون کو پیش کئے گئے اگلے مالی سال کے صوبائی بجٹ پر تبادلہ خیال کیا۔ کورونا وائرس سے شدید مالی مشکلات کے باوجود پنجاب کے عوام کو ریلیف دینے کے لئے ٹیکس فری بجٹ پیش کرنے کے اقدام کو بڑا کارنامہ قرار دے کر ’’وزیر اعلیٰ‘‘ عثمان بزدار کا ’’کلہ‘‘ ایک بار پھر مضبوط کر دیا ہے جن کے بارے شوگر کمیشن کی رپورٹ کے منظر عام پر لانے کے حکومتی اقدام سے اربوں روپے شوگر سبسڈی لینے والے مالکان، حکومت اور بڑی بڑی سیاسی جماعتوں کے علاوہ پارلیمان میں بیٹھے ان کے بااثر اراکین نے پی ٹی آئی حکومت کو زیر کرنے کے لئے در پردہ جوڑ توڑ شروع کر رکھا ہے۔

اسپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الٰہی بڑے زیرک تجربہ کار جوڑ توڑ کے ماہر منجھے ہوئے ناقابل شکست پارلیمینٹرین ہیں جن کے حکومتی، اپوزیشن جماعتوں کے سرکردہ اراکین سے ذاتی تعلقات ہیں ان کا پارلیمان، بیورو کریسی، جوڈیشری اور دیگر قومی اداروں میں گہرا اثر و رسوخ ہے۔ نیب زدہ بعض اہم سیاستدانوں اور شوگر ملز مالکان نے چودھری خاندان کو سیڑھی کے طور پر استعمال کرنے کے لئے ان سے رابطے کرنے کی کوشش کی۔ ان رابطوں کی بنیاد اطلاعات ان کے بعض نادان دوستوں نے اوپر تک پہنچا دیں جس سے وزیراعظم اور ان کے قریبی ساتھیوں کے خوب کان بھرے گئے جس کے نتیجے میں وزیراعظم اور چودھری خاندان کے درمیان اتحادی ہونے کے باوجود فاصلے بڑھ گئے۔

ورکنگ ریاست کے طے شدہ فارمولے پر عملدرآمد کی رفتار سست ہو گئی۔ لیکن اسپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الٰہی نے دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دونوں اتحادی جماعتوں کے درمیان طے شدہ ورکنگ ریلیشن شپ کے معاہدے پر عملدرآمد نہ ہونے کے باوجود پی ٹی آئی حکومت کے ہر صورت میں کھڑے ہونے کا عزم دہرایا۔ صوبائی بجٹ اجلاس سے چند روز قبل اسپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الٰہی نے اپنے صاحبزادے رکن قومی اسمبلی چودھری مونس الٰہی کے ہمراہ وزیر اعلیٰ ہاؤس جا کر وزیر اعلیٰ عثمان بزدار سے ملاقات کی اور دونوں جماعتوں کے درمیان پیدا ہونے والی غلط فہمیوں کو دور کر دیا لیکن چودھری خاندان کو اپنے اندر سے چھپے اس دشمن کو تلاش کرنا چاہئے کہ جو وزیراعظم، گورنر، وزیر اعلیٰ اور پی ٹی آئی کے حوالے سے ان کے گھر میں ہونے والے جوڑ توڑ اور آف دی ریکارڈ گفتگو اوپر پہنچاتے ہیں۔

وزیراعظم کو پنجاب اسمبلی میں سینکڑوں افسران اور ملازمین کی خفیہ طریقہ کار سے بھرتیوں کی اطلاع کس نے دی یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔ وزیر اعظم کو چاہئے کہ وہ حکومتی امور چلانے کے لئے اپنے اتحادی چودھری برادران سے مشاورت کر کے پالیسی بنائیں ورنہ پی ٹی آئی کی قیادت یہ بات یاد رکھیں کہ تبدیلی کا یہ طوفان تھم ضرور گیا ہے مگر ابھی ختم نہیں ہوا۔ وزیر اعظم کا دورہ لاہور میں بڑے اہم فیصلے کئے گئے۔

وزیراعظم نے یہ دورہ اس وقت کیا جب کورونا وائرس سے مہلک اثرات سے لاکھوں شہریوں کی زندگی کو خطرات لاحق ہو گئے اس جان لیوا وائرس سے پیدا ہونے والے سماجی، سیاسی، معاشی اور اقتصادی عدم استحکام سے سب کچھ بدل کر رکھ دیا ہے اور اپوزیشن جماعتیں حکومت کی کورونا وائرس اور دیگر پالیسیوں کو ہر طرح سے ہدف تنقید بنا رہی ہیں کورونا، شوگر، آٹا، پٹرول، ادویات کی ناجائز منافع خوری نے شہریوں کی زندگی اجیرن بنا رکھی ہے۔ ان حالات میں وزیراعظم نے وزیر اعلیٰ کو پنجاب میں سال 2020کے آخری عشرے میں بلدیاتی انتخابات کرانے کا گرین سگنل دے کر تیاریاں کرنے کا حکم دیا ہے۔

وزیراعظم نے جب کورونا وائرس شہروں سے نکل کر دیہات تک پھیل گیا ہے وہاں وزیراعظم اور ڈاکٹر ظفر مرزا نے اگلے ماہ جولائی تک 10لاکھ افراد کے کورونا وائرس کا شکار ہونے کا عندیہ دے کر خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے کیا یہ صوبائی انتظامیہ کے لئے بلدیاتی انتخابات کرا پائے گی کیا یہ بلدیاتی انتخابات کے لئے موزوں وقت جب تمام انتظامیہ اور سرکاری مشینری کورونا وائرس، ٹڈی دل پر قابو پانے کے ساتھ ساتھ شوگر، آٹا، گوشت، سبزی، پٹرول ادویات، کھاد اور سیمنٹ اور دیگر اشیاء کی قلت پیدا کرنے والے ذخیرہ اندوزوں کے خلاف کارروائیوں میں مصروف ہے۔

وزیراعظم کی ان حالات میں حکومت کو بلدیاتی انتخابات کرانے کی منطق سمجھ سے بالاتر ہے ۔ بہرکیف عمران خاں بڑے خوش قسمت وزیراعظم ہیں جو اپنے دو سال کے دور اقتدار میں ابھی تک عوام سے کئے گئے کسی وعدے پر پورا نہیں اتر سکے اور ملک سے دہشت گردی اور کرپشن پاک کرنے کے نام پر عسکری، جوڈیشری سمیت دیگر قومی ادارے ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ یہی وزیراعظم اور ان کی حکومت کی کامیابی ہے لیکن عوام کو مہنگائی، بیماری، بیروزگاری، غربت اور جہالت سے نجات دلائے بغیر ان کے لئے ایسے حالات کا دیر تک ان کے حق میں رہنا ممکن نہیں رہے گا۔

حکومت کو چاہئے کہ وہ کورونا، ٹڈی دل، مہنگائی، بیروزگاری، بے انصافی جیسے مسائل پر قابو پانے کے لئے اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلے اور اپوزیشن کو بھی چاہئے کہ وہ ان قومی ایشوز پر پوائنٹ سکورنگ کی بجائے حکومت سے تعاون کا ہاتھ بڑھانے جیسا مسلم لیگ (ق) نے پنجاب اسمبلی سے گستاخانہ مواد کے خلاف متفقہ قرارداد منظور کرا لی ہے اور حکومت سے تین گستاخانہ کتابوں پر پابندی عائد کروا کر ملک میں جنم لینے والے فتنے کو دفن کر دیا ہے دینی حلقوں میں پنجاب اسمبلی کے فیصلے کی بڑی پذیرائی ہو رہی ہے اس کا کریڈٹ چودھری پرویز الٰہی کو جاتا ہے جنہوں نے پی ٹی آئی مسلم لیگ (ن) پیپلز پارٹی اور دیگر پارلیمانی جماعتوں کے تعاون سے یہ کارنامہ سرانجام دیا۔