آخر کس جرم کی پاداش میں پائی ہے سزا

June 20, 2020

کہتے ہیں کہ، انسان کو فتح کی صورت میں انکساری کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور عالم شکست میں باوقار نظر آناچاہیے ۔آج اس کی مکمل تصویر دیکھنی ہو تو جنگ اور جیو ٹی وی کے ایڈیٹر انچیف میر شکیل الر حمٰن کو دیکھیے ،جو نہ جانے کس جرم کی پاداش میں قید ہیں ۔تاریخی طور پر جس طرح ہماری مزاحمتی سیاست میں حق گوئی پر قید وجرمانےجرم تصور کیے جانے کے بجائے سنہری حروف سے لکھے جاتے رہے ہیں، اسی طرح مزاحمتی اور سچی صحافت کی روایت بھی یہی ہے ۔

مولانا محمد علی جوہر ہو ںیا مولانا ظفر علی خان ،حسرت موہانی ہوں یا فیص احمد فیض ،سب اپنے اپنے ادوار میں سچ کا علم بلند کرتے ر ہے اور اپنے اس جرم حق گوئی کی سزا بھگتتے رہے ۔یہ دور ابتلا ابھی ختم نہیں ہوا ۔جس کی واضح مثال بدلتی دنیا میںجرم صداقت کے نئے قیدی ،میر شکیل الر حمٰن ہیں ،جو آزادصحافت کو پابند سلاسل کرنے کے خلاف ایک استعارہ ہیں ۔جوا پنے والد مرحوم میر صحافت میر خلیل الر حمٰن کی طر ح حق کی آواز بلند کرتے رہے ،اس کے لیے نہ اپنے کاروبار کی پرواکی اور نہ کسی نقصان سے ڈرے ۔کڑوا سچ تو یہ ہے کہ زندہ معاشرے کی پہچان ہی وہ آوازیں ہوا کرتی ہیں جوموافقت یا مخالفت میں بلند ہوتی ہیں۔

عہد حاضر میں یہ فر یضہ میڈیا سر انجام دے رہا ہے ۔جرأت اظہار کا یہ سلیقہ رکھنے والا ریاست کا چوتھا ستون ،سماج کو مردہ ہونے سے بچانے کی کوشش کررہا ہے ۔غالباً یہی وجہ ہے کہ اس کی شہ رگ دبوچنے کی خواہش بڑی شدید اور دیرینہ ہے ،جس کا اندازہ اس سے بہ خوبی ہوتا ہے کہ قومی احتساب بیورو (نیب ) نے سب سے بڑے میڈیا گروپ کے سر براہ میر شکیل الرحمٰن کو گرفتار کرکے میڈیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ ،کو ئی نہ سر اٹھا کے چلے ‘‘ ۔میر صاحب کی گرفتار ی کا مقصد ادارے کی آوازوں کو دبانا ہے ۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ آج پاکستان میں جو تھوڑی بہت آزاد صحافت زندہ ہے تو اس میں ادارہ جنگ ، جیو ٹی وی کی قر بانیوں اور جہد مسلسل کا بہت بڑا کردار ہے ۔ادارے کی 79 سالہ تاریخ گواہ ہے کہ مختلف ادوار میں حکمراں ’’جنگ ‘‘ سےجنگ لڑتے رہے لیکن ہنوزجنگ میڈیا گروپ کا سفر کام یابی سے جاری رکھا ۔

آخر کیا وجہ ہے کہ نواز شریف ہوں یا آصف زرداری ،بھٹوہوں یا ضیاالحق، جنرل مشرف ہوں یا موجودہ وزیر اعظم عمران خان ، سب کو یہ ادارہ کھٹکتا رہا ۔اور سب ہی کسی نہ کسی طرح اس ادارے کےخلاف کارروائیوں میں ملوث رہے ۔کسی حاکم وقت نےا شتہارات بند کرائے تو کسی نے نیوز پرنٹ روک دیا ۔کسی نے اپنی خبریں نمایاں شائع نہ کرنے پر جنگ کے دفتر پر ہی نہیں مالکان کی رہائش گاہ پر بھی حملے کرائے ۔غرض کم وبیش ہر دور میں ادارے کو مختلف دبائو اور مشکلات کا سامنا رہا ۔

ایک اخبار جو ہر مشکل وقت میں ڈٹا رہا ،سچ بولنے ،لکھنے اور اہم مسائل کو سامنے لانے سے کبھی نہیں جھجکا ۔خوش حال پاکستان کی خاطر ،ہمیشہ سچ اور انصاف کا پیشوا اور نقیب رہا، اس ہی پر زمین تنگ کی جاتی رہی ۔12 مارچ 2020ء کو جنگ جیو گروپ کے ایڈیٹر ان چیف کو نیب کا قانونی تقاضے پورے کیے بغیرگرفتارکرنے کا مقصد صحافی برداری کو یہ پیغام دیناہے کہ نیب کے خلاف پروگرام کرنے یا سچ بولنے کی سزا گرفتاری اور مقدمات ہیں۔

لیکن آخر میر شکیل الرحمٰن کا جرم کیا ہے ؟بنا جرم کے ’’100‘‘ دن سے نیب کے زیر حراست ہیں ۔نیب ترجمان کے مطابق میرشکیل الر حمٰن کو سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نے 54 پلاٹو ں پر رعایت لینے کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے ۔جب کہ حقیقت یہ ہے کہ یہ پراپرٹی 34 برس قبل خریدی گئی تھی ،جس کے تمام شواہد نیب کو فراہم کردئیے گئے تھے ،میر صاحب کی گرفتاری کو’’100‘‘ دن بیت گئے ، ان کی گرفتاری کوئی معمولی واقعہ نہیں ،نہ صرف پاکستان بلکہ عالمی سطح پر بھی ان کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا جارہاہے ۔قومی اسمبلی میں بھی شدید احتجاج کیا گیا ۔سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی ،آصف زرداری سمیت شہباز شریف ،بلاول بھٹو ،مریم نواز ،فضل الر حمن اور دیگر سیاسی قائدین نے میر شکیل الر حمٰن کی گرفتاری کی شدیدمذمت کرتے ہوئے ان کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا ۔

بے قصور ہونے کے باوجود وہ اب تک پابند سلاسل ہیں، ایسا کیوں ہے؟، یہ تووقت ہی بتائے گا لیکن آزادی صحافت کے لیے وہ کبھی سر نہ جھکائیںگے اور نہ کوئی سمجھوتا کریں گے کہ حق کی آواز بلند کرنا اُن کے خون میں شامل ہے ۔بہرحال کیا اسیری کیا رہائی سودن پلک جھپکتے نہیں گزرے ،پیشیاں بھی ہوتی رہیں، بینچ بھی ٹوٹتے رہے ،تاریخٰیں بھی بڑھتی رہیں ،قومی و بین الاقوامی سطح پر آوازیں بھی بلند ہوتی رہیں ،جنہیں کوئی روک بھی نہیں سکتا لیکن ان سو دنوں میں کیا ہوتا رہا ۔کیا سوچتے رہے یہ جاننا بھی ضروری ہے ۔