اخبار بمقابلہ دربار

June 20, 2020

غالب نے کہا تھا:

لکھتے رہے جنوں کی حکایات خونچکاں

ہر چند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے

یہ انیسویں صدی کی آواز ہے۔

پھر ایک سو سال بعد فیض احمد فیض کہتے ہیں:

جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے

ہم پرورش لوح و قلم کرتے رہیں گے

فیض بیسویں صدی کی آواز تھے اکیسویں صدی میں بھی پرورش لوح و قلم کا سلسلہ جاری ہے۔ لوح قلم میسر نہیں ہیں تو لوگ خونِ دل میں انگلیاں ڈبوکر لکھ رہے ہیں۔

جبر ہر صدی میں ہوتا رہا ہے۔ دربار کو سچ سننے کا حوصلہ کبھی بھی نہیں ہوا ہے۔ جمہوریت کا نظام آگیا ۔ عوام کی حکمرانی آگئی۔وہی رہنما جب تخت پر رونق افروز نہیں ہوتے تو آزادیٔ اظہار کے بڑے حامی ہوتے ہیں۔ لیکن جب انہیں ان کی آرزو کرسی میسر آجاتی ہے تو اپنے آپ کو عقل کُل خیال کرنے لگتے ہیں۔ اور یہ خبط ہوجاتا ہے کہ وہ اور ملک لازم و ملزوم ہیں۔ ان سے بڑا محب وطن کوئی نہیں ہے۔ وہ لکھنے والوں کو حب الوطنی کے سر ٹیفکیٹ جاری کرنے لگ جاتے ہیں۔اور مخالف آوازوں کو قوم کے عین مفاد میں خاموش کرنا شروع کردیتے ہیں۔

ملک پر جب غیر ملکی استعمار برطانوی بادشاہت کا تسلط تھا۔ اس وقت بھی 1857 سے لے کر 1947تک کے طویل عرصے میں بہت سے اخبار مالکان اور ایڈیٹرز کو قید و بند کی صعوبتوں سے گزرنا پڑا ۔ پھر فیض یاد آتے ہیں:

جو راہ ادھر کو جاتی ہے مقتل سے گزر کر جاتی ہے

ستمبر 1857میں ’اخبار ظفر‘ کے مدیر مولوی محمد باقر انگریز کے ہاتھوں گرفتار ہونے والے پہلے صحافی تھے۔ ان پر بغاوت کا مقدمہ چلایا گیا۔ اور انہیں اسی الزام میں فائرنگ اسکواڈ کے سامنے کھڑا کردیا گیا۔ اس کے بعد ایک طویل فہرست ہے۔ جنہیںمختلف جیلوں میں بند کیا گیا۔

مولانا ابوالکلام آزاد نے قلعہ احمد پور میں طویل قید کاٹی۔ اور یہیں انہوں نے اپنی شہرۂ آفاق کتاب ’غبارِ خاطر‘ قلمبند کی۔ جو اُردو ادب و صحافت میں روشنی کے ایک مینار کی حیثیت رکھتی ہے۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے تو ’البلاغ‘ اور ’الہلال‘ کے ذریعے ہندوستانیوں کو جگانے اور اپنے حقوق کا احساس دلانے کی کوشش کی۔ مولاما محمد علی جوہر کے ’کامریڈ‘ نے بھی انگریز سامراج کے خلاف یہی انقلابی کردار ادا کیا۔ ان پر تو مقدمہ کراچی کے خالقدینا ہال میں چلتا رہا۔ کراچی سینٹرل جیل میں انہوں نے کافی عرصہ قید کاٹی۔

صحافت میں ایک بہت ہی نمایاں نام مولانا حسرت موہانی کا ہے جو شاعر بے بدل بھی تھے۔ تحریک پاکستان کے سرکردہ رہنما۔ وہ بہت ہی دھیمے مزاج والے انسان تھے لیکن انگریز کے خلاف شمشیر برہنہ۔ ان کی سیاسی ۔ صحافتی۔ ادبی سرگرمیاں حکومت برطانیہ کی نظر میں پسندیدہ نہ تھیں۔ ان کے گھر پر چھاپہ مارا گیا۔ انگریز کے خلاف لٹریچر کی تلاش کی گئی۔ پھر ان کی نظر بندی کا حکم جاری کیا گیا۔ نظر بندی کے حکم کو انہوں نے قبول نہیں کیا۔ اس لیے مئی 1916 میں انہیں ملت پور جیل میں قید کردیا گیا۔ حکومت ہند نے گرفتاری کا سبب غیر ملک سے تعلق قرار دیا۔

خبر یہ چھپی۔ فضل الحسن حسرت موہانی۔ علی گڑھ کے مشہور شورش پسند کو حکومت صوبہ متحدہ نے ملت پور ضلع جھانسی میں نظر بند کردیا۔ یہ معلوم ہوا ہے کہ ان کا اور مولانا ابوالکلام آزاد کا ارادہ کابل جانے کا تھا۔ یہ بھی خبر ملی ہے کہ ان کو اور مولانا ابوالکلام کو برکت اللہ کی عارضی حکومت ہند کی طرف سے مراسلات موصول ہوئے ہیں۔ زنداں کی مشقت کے حوالے سے ان کا یہ مطلع تو برسوں سے زباں زد خاص و عام ہے:

ہے مشق سخن جاری چکی کی مشقت بھی

اک طرفہ تماشا ہے حسرت کی طبیعت بھی

ان کی شاعری کے زیادہ تر مجموعے جیل کی سلاخوں کے پیچھے لکھی گئی غزلوں پر مشتمل ہیں۔ مولانا حسرت موہانی نے علی گڑھ۔ ملت پور۔ جھانسی الہ آباد۔ فیض آباد۔ لکھنؤ۔ میرٹھ۔ کانپور۔ احمد آباد ۔ سابر متی کی جیلوں میں بامشقت قید کاٹی۔

انگریز آزادیٔ اظہار کے چمپئن شُمار کیے جاتے ہیں۔ لیکن ہندوستان پر تسلط کے دَور میں انہوں نے کبھی بھی اختلافی زبانوںکو برداشت نہیں کیا۔ مولانا ظفر علی خان کا ’زمیندار‘ اپنے زمانے کا بہت مقبول اخبار تھا۔اسے بار بار ابتلائوں کا سامنا کرنا پڑا۔ مولانا ظفر علی خان بھی حوالات کے سپرد کیے جاتے رہے ان کا اخبار سامراج کی دشمنی کے لیے شہرت رکھتا تھا۔ حکومت کی طرف سے نوٹس آتے۔ دھمکیاں ملتیں۔ لیکن وہ اپنے راستے سے نہ ہٹے۔ 1934میں پہلی بار انہوں نے حکومت پنجاب کے مقدمات کا سامنا کیا۔ مولانا انگریز کے خلاف جلسے جلوسوں میں بھی باقاعدہ شرکت کرتے۔ ان کا یہ شعر قید و بند کے حوالے سے بہت مقبول ہے:

بچپن سے ہی لکھی تھی مقدر میں اسیری

ماں باپ کہا کرتے تھے دل بند جگہ بند

اخبار کو زر ضمانت جمع کرانے کے نوٹس دیے جاتے۔ ’ زمیندار‘ اپنے قارئین سے اپیل کرتا۔ لوگ دفتر آکر چندہ دے دیتے ۔ زر ضمانت جمع کرواتے اخبار کی بندش ٹل جاتی۔

قیام پاکستان کے بعد بھی اخبارات پر حکومتوں کے جبر کا سلسلہ جاری رہا۔ خاص طور پر پنجاب میں یہ کھیل زیادہ کھیلا گیا۔جس ملک کے بانی نے اخبار نویسوں کو ایک طاقت قرار دیا تھا۔ اس مملکت میں اخبار۔ اخبار مالکان ۔ اخبار مدیران پولیس حوالات میں مختلف جیلوں میں قیدیں کاٹتے رہے۔

حکومت پنجاب کی جابرانہ پالیسیوں کے باعث بہت سے اخبارات و رسائل بند ہوتے رہے۔ سب سے زیادہ جرأت اظہار جناب شورش کاشمیری کرتے رہے۔ ہفت روزہ ’ چٹان‘ 1956 کی دہائی میں مقبول ترین رسالہ تھا۔ مشرقی اور مغربی پاکستان دونوں میں بہت مقبول۔ شورش کاشمیری ہر حکومت کے دَور میں معتوب رہے۔ اور قید کاٹتے رہے۔ ان کی شاعری اس دَور میں بہت مقبول رہی۔’پس دیوار زنداں‘ ان کی مقبول کتاب ہے۔ مولانا ابوالکلام آزاد۔ مولانا محمد علی جوہر۔ مولانا ظفر علی خان سے ان کی عقیدت لازوال تھی۔ نثر اور نظم میں ان شخصیتوں کے لیے تسلسل سے لکھتے رہے۔

شورش کاشمیری۔ اور جنگ کے بانی میر خلیل الرحمٰن کے درمیان ہمیشہ گہرا رابطہ رہا۔ ملک میںاکثر میٹنگوں میں اکٹھے شریک ہوتے۔ غیر ممالک کی کانفرنسوں میں بھی اپنے وقت کے یہ دونوں اخبار مالک۔ اخبار مدیر اکٹھے جاتے رہے۔

زنداں کے حوالے سے ان کے اشعار ملاحظہ ہوں:

رہا ہوں قید مشقت میں دس برس شورش

ہر ایک حلقۂ زنجیر پا سے کھیلا ہوں

ہم نے اس وقت سیاست میں قدم رکھا تھا

جب سیاست کا صلہ آہنی زنجیریں تھیں

حیف اب وقت کے غدار بھی رستم ٹھہرے

اور زنداں کے سزاوار فقط ہم ٹھہرے

1965 کی 17روزہ جنگ کے دوران شورش کاشمیری نے بہت ترانے نظمیں لکھیں۔ ہفت روزہ ’چٹان‘ کے صفحات جانبازوں۔ شہیدوں کے لیے وقف رہے۔ ان کے نغمے بہت مقبول ہوئے لیکن جنگ کی پہلی سالگرہ ٹھیک 6ستمبر 1966کو ڈیفنس آف پاکستان رولز کی دفعہ 32کے تحت چھ ماہ کے لیے منٹگمری سینٹرل جیل میں نظر بند کردیے گئے۔

انہوں نے لکھا:

میں نے جو کچھ بھی کہا حرف غلط ثابت ہوا

میں نے جو کچھ بھی لکھا نغمہ سرا واپس کریں

قیام پاکستان کے بعد میاں افتخار الدین کے قائم کردہ پروگریسیو پیپرز لمیٹڈ کو بھی مسلسل جبر و استبداد کا سامنا کرنا پڑا۔ ’ پاکستان ٹائمز‘ قائد اعظم کے حکم پر جاری کیا گیا تھا۔ اس کے پہلے ایڈیٹر فیض احمد فیض تھے۔ ’امروز‘ کے ایڈیٹر احمد ندیم قاسمی تھے۔ فیض احمد فیض پہلے پنڈی سازش کیس میں گرفتار ہوئے پھر ایوب خان کے مارشل لاء میں فیض صاحب اور قاسمی صاحب برطرف کیے گئے۔جیل میں ڈالے گئے۔ بالآخر اس ادارے کو نیشنل پریس ٹرسٹ میں ضم کردیا گیا۔

پاکستان بننے کے بعد مختلف حکومتوں نے سرکاری اشتہارات پر بندش اور نیوز پرنٹ کے کوٹے کی منسوخی کے ذریعے آزادیٔ اظہار سلب کرنے کی کوششیں کیں۔

یحییٰ خان کے دَور میں بھی گرفتاریاں ہوئیں۔ بھٹو صاحب کے دَور میں’ ڈان‘ کے چیف ایڈیٹر الطاف گوہر۔ جسارت کے ایڈیٹر مولانا صلاح الدین عرصہ قید رہے۔جنرل ضیاء الحق کے دَور میں تو ساری آزادیاں ختم کردی گئیں۔ بیسیوں اخبار بند ہوئے۔ صحافیوں کو کوڑوں کی سزائیں بھی ہوئیں۔ اخبارات پر پابندی کے خلاف چلنے والی تحریکوں میں صحافی بڑی تعداد میں پاکستان بھر کی جیلوں میں پابند سلاسل رہے۔

اخبارات اور حکمرانوں میں بر سر پیکار رہنے کی روایت بہت قدیم ہے۔ آج کل آزادیٔ اظہار کے حوالے سے پہلی آئینی ترمیم والے امریکی معاشرے میں بھی اخبار اور سرکار کی کشمکش زوروں پر ہے۔ صدر ٹرمپ کھلے عام میڈیا کے خلاف تلوار سونتے ہوئے ہیں۔

اکثر ملکوں میں میڈیا زیر عتاب ہے۔ پاکستان میں بھی 2018 سے شروع ہونے والا دَور براہ راست پابندیوں اور بالواسطہ کنٹرول کے حوالے سے گزشتہ تمام ادوار کو پیچھے چھوڑ گیا ہے۔ اور المیہ یہ ہے کہ پچھلے زمانوں کی طرح اب میڈیا مالکان میں اتحاد کی صورت نظر آتی ہے اور نہ ہی میڈیا ورکرز میں۔ اس لیے جبر بڑھ رہا ہے ۔ ادارے کمزور ہورہے ہیں۔ ورکرز بے روزگار ہورہے ہیں۔