مینگل علیحدگی: حکومت کو پھر بھی کوئی خطرہ نہیں

June 25, 2020

بلوچستان نیشنل پارٹی کی حکومت سے علیحدگی کو بڑا دھماکہ سمجھنے والوں کے لئیے اتنا ہی کافی ہے کہ چیئر مین سینٹ کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے موقعہ پر اپوزیشن داخلی بر تری کے باوجود ناکام ہو گئی، حکمران جماعت کا دعوی ہے کہ اب بھی ان کی حکومت کو کوئی خطرہ نہیں ,نئے پاکستان کا عزم ہے کہ اقتدار میں آئے تھے تکمیل کر کے میں دم لیں گے عمران خان کی حکومت اپنے دو سالہ اقتدار میں 11000 ارب قرض لے چکی ہےجو کہ ملک کی 70 سالہ تاریخ میں ایک چوتھا ئی کے برابر ہے سیاسی مخالفین کا کہنا ہے کہ کوئی مثبت کام نہیں کیا اور قرضہ بڑھتا جا رہا ہے،لگتا ہے حکمران ملک دیوا لیہ کرنے کی سازش میں مصروف ہیں، اسلام آباد ہائی کورٹ نے حکومت کو چینی بحران کے مرتکب شوگر ملز مالکان کے خلاف کاروائی کرنے کی اجازت دے دی ہے، حکم امتنائی ختم کرنے والی عدالت کے چیف جسٹس نے بھی انکوائری کمیشن کی رپورٹ کو حکومت اور نیب کے لیے امتحان قرار دے دیا ہے۔

حکم امتنا عی ختم ہو نے پر وزیراعظم عمران خان نے اپنی کور کمیٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہو ئےخبردار کیا ہے کہ غریب عوام کو نقصان پہنچا کر پیسہ بنانے والے کسی شخص کو معاف نہیں کیا جا ئے گا شوگر انکوائری رپورٹ پر معاملہ انجام تک پہنچایا جا ئے گا یہ کہنا غلط ہو گا کہ انکوائری کمشن سیاسی مخالفین سے انتقام کے لیے بنایا گیا ہے سیاسی حلقے کمیشن رپورٹ میں ایک وفاقی وزیر کے نام کی موجودگی کو صرف نیب نہیں بلکہ حکومت کا بھی امتحان قرار دے رہے ہیں ، پی ٹی آئی کی حکومت نے اپنا تیسرا بجٹ پیش کر دیا ہے ایک بڑے خسارے پر مشکل بجٹ میں نہ تو کوئی نیا ٹیکس لگایا گیا ہے نہ ہی سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ کیا گیا ہے۔

پارلیمنٹ میں نئے بجٹ پر بحث جا ری ہے اپوزیشن لیڈر میاں محمد شہباز شریف کا کہنا کہ تاریخی بجٹ خسارہ حکومتی دعوئوں کی تر دید ہے بجٹ خسارہ کورونا سے پہلے ہی معیشت چاٹ چکا تھا حکومت گردشی قرضوں پر قابو پانے میں مکمل ناکام رہی ہے پہلی بار بجٹ خسارہ ملکی جی ڈی پی کے 10 فیصد سے بھی زیادہ ہے جو کورونا سے بھی زیادہ پریشان کن ہے کورونا کی وجہ سے بیرون ملک سے بھی محنت مزدوری کر کے ڈالر بھیجنے والے شہری پریشان ہیں سعودی عرب سے 10 ہزار اور متحدہ عرب ریاست سے پندرہ ہزار پاکستا نیوں کی جلد وطن واپسی بھی معاشی صور تحال مزید گھبیر بنانے کا سبب بنے گی۔

سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ ایک طرف وزیر اعظم اپنے دورہ سندھ کے دوران یہ شو شہ چھو ڑ چکے ہیں کہ اٹھارویں ترمیم نے وزرائے اعلیٰ کو ڈکیئر بنادیا ہےتو دوسری طرف وفا قی وزیر سائنٹس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری بیان داغ چکے ہیں کہ وزرائے اعلیٰ کے صوابدیدی فنڈز آئین کی سنگین کے خلاف ورذی ہیں ،حکومت کے بارے میں یہ تاثر مضبوط ہوتا جارہا ہے کہ حکمران اپوزیشن سے تو اچھے تعلقات کو ضروری ہی نہیں سمجھےاور اپنا دورانیہ اپنی مرضی سے اپوزیشن کو اعتماد میں لیے بغیر گزار نے کے خواہاں ہیں۔

دوسری طرف صوبوں میں مختلف جماعتوں کی حکومتوں کے ساتھ بھی معاملات جمہوری انداز میں انہیں عوام کے منتخب نمائند وں کی حثیت سے تسلیم کرنے کی ضرورت پر زور نہیں دیا جا رہا، اپوزیشن لیڈر شہباز شریف سمیت تقریباً پوری اپوزیشن نیب کی طلبی پر مجبور ہے ،منی لانڈنگ کیس میں اپوزیشن لیڈر کی درخواست ضمانت کی سماعت جمعرات کو ہو گی سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ عمرانخان کی کسی اور شعبہ میں اپنی حکومت کی کارکردگی بے شک نہ دکھا سکیں لیکن اپنے سیاسی مخالفین کو جیلوں کی سیر ضرور کراتے رہیں گے۔

پارٹی کارکن خوش ہیں کہ اقتدار میں شریک بعض لوگ بھی صرف اس خوف سے سخت بات بھی برداشت کر جائے ہیں کہ انہیں پتہ ہے کہ پی ٹی آ ئی حکومت کو ابھی نہیں چھیڑا جا سکتاحکومت اب 18 ویں تر میم میں مزید تر میم کی خواہاں ہے اس کے لیے بھی اپوزیشن مدد کے لیے تیار ہو جا ئے گی مگر اپوزیشن سے رابطہ کرنا ایک مشکل ٹارگٹ ہے ۔حکومت کو اس کے بدلے اپوزیشن کو کچھ دینا بھی ہو گا ،پاکستان پیلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو زرداری اپوزیشن لیڈر سے آل پارٹیز کانفرنس بلانے کا مطالبہ کر چکے ہیں مگر شہباز شریف ابھی تک کورونا سے بچنے کی کوشش میں قر نطینہ میں بیٹھے سیاست کر رہے ہیں 25 جون کو عدالت نے انہیں مزید رعایت نہ دی تو نیب کی تحو یل میں ان کی صحت پر منفی اثرات مرتب ہو نے کا اندیشہ بھی موجود ہے۔

نیب کے ذریعے قومی دولت لو ٹنے والوں کی گرفتار یوں کے باوجود کوئی بڑی ریکوری نہ ہو نے کی وجہ سے حکومت کفایت شعاریکے چھوٹے چھوٹے پلان بنا کر پیسے بچانے میں کوشاں ہے جس سے یہ تا ثر ملتا ہے کہ وزیر اعظم اور ان کی ٹیم کو اپنے دو سالہ اقتدار کے باوجود کھانچوں کا پتہ ہی نہیں چل سکا جہاں نہ صرف قومی خزانے کی لوٹ مار ہوتی ہے بلکہ اس لوٹ مار کو ڈالروں کی شکل میں روزانہ کی بنیاد پر بیرون ملک بھیجا جانا ایک معمول تھا ، بلکہ جرائم پیشہ افراد کی دیدہ دلیری بھی بڑھتی جا رہی ہے یہ تا ثر مضبوط ہوتا جا رہا ہے کہ اس ملک میں مسلح افواج کے سوا کوئی بھی وطن عزیز کی سلامتی اور دفاع سے مخلص نہیں، سیاستدانوں پر تو الزام پرانا ہے کہ سیاستدان لٹیروں اور جرائم پیشہ عناصر کے فرنٹ مین ہیں۔

جن پر بیورو کریسی اس لیے ہاتھ نہیں ڈالتی کہ کہیں نہ کہیں ان کا ڈاکخانہ بھی مل ہی جاتا ہے ،ایک طرف بھارت نے اگست2019 سے مقبوضہ کشمیر میں کشمیریوں کا لاک ڈائون کر رکھا ہے گھر گھر تلاشی سے قتل وغارت گری میں مصروف ہےاور دوسری طرف ایل او سی پر روزانہ کی بنیاد پر گو لہ بازی کر کےسولین کو نشانہ بنا کر پاکستانی افواج کو مشتعل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے مگر موقع پر موجود جوان فوری جواب دیتے ہیں مگر انہیں آگے بڑ ھ کر جا ر حا نہ انداز اپنانے کی اجازت نہیں ،دوہمسائوں میں چوتھی ممکنہ جنگ کو خطر ناک تصور کیا جارہا ہے،طاقت کا استعمال جنگوں میں مجبوری میں کیا جاتاہےاور نہ چا ہیتے ہوئے بھی دشمن کو رعایت نہیں دی جا سکتی۔

کورونا کی شدت میں روز اضا فہ ہو رہا ہے اور غیر سرکاری سطح پر پیش گو ئی کی جا رہی ہے کہ اگست تک پاکستان میں کورونا کے مریضوں کی تعداد 10لاکھ تک پہنچ گئی حکومت نے وفا قی دارالحکومت سمیت چاروں صوبوں اور آزاد کشمیر میں سمارٹ لاک ڈائون آغاز کیا ہے، اس پر عمل در آمد کی صورت میں مریضوں کی تعداد کم ہو نے کا امکان ہے ۔ جہاں تک مینگل کا حکومت سے علیحدگی کا تعلق ہے جب تک بی این پی کے حامی بلوچ بندوق نہیں پھینکتے مینگل سردار سے وعدے ایفاء نہیں ہو سکتے بلوچ قیدت کو پہاڑوں پر جانے والوں سے علیحدگی اختیار کرنا ہو گی،عسکری ادارے بندوق اٹھانے والوں کو کوئی رعایت دینے کو تیار نہیں،جب تک عسکری ادارے رعایت نہیں دیں گے سیاسی وعدے ایفاء نہیں ہوسکتے،بلوچ لیڈروں کو کھل کرصرف پاکستان کے لئے بولنا ہو گا ۔