طب کا پیشہ اور پاکستانی فلمیں!!

June 30, 2020

طب یا ڈاکٹری کے پیشے کو ہر سوسائٹی اور سماج میں عبادت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ڈاکٹر یا طبیب کو ’’مسیحا‘‘ اس لیے کہا جاتا ہے کہ اپنے مریض سے اس کا حُسنِ سلوک اور بھرپور توجہ کے مطابق علاج ایک طرف تو مریض کو روحانی طور پر آسودہ کرتا ہے، تو دوسری جانب اسے جسمانی بیماریوں سے چھٹکارے کا موجب ٹھہرتا ہے۔ آج کے کورونا زدہ ماحول میں دُنیا بھر کے ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل اسٹاف، حالت جنگ میں ہیں اور اپنی جان و زندگی کی پروا کیے بغیر کورونا کے خلاف کام کررہے ہیں۔ ’’’طبیب‘‘ کا مقدس پیشہ ہر عہد میں دُنیا بھر کی فلموں کا سبجیکٹ بھی بنتا رہا ہے۔ پاکستان میں مختلف اودار میں بننے والی فلموں میں بھی اس پیشے کے تقدس، افادیت اور عظمت کو طب کے نمائندہ کرداروں کے ذریعے موثر انداز میں اجاگر کیا گیا۔

1960ء میں ہدایت کار ایس۔ایم یوسف کی خُوب صورت سوشل فلم’’سہیلی‘‘ کی کہانی ایک ڈاکٹر (درپن) کے ایثار اور اپنے پروفیشن سے کمیٹڈ ہونے کے اثرانگیز واقعہ سے ہی اپنا آغاز پاتی ہے۔ ہوتا یُوں ہےکہ درپن جو ایک ڈاکٹر ہے، شمیم آرا سے عین شادی کے روز اسے اپنے ایک مریض کی جان بچانے کی غرض سے دُلہن کو عروسی جوڑے میں چھوڑ کر آئوٹ ڈور علاج کی غرض سے جانا ناگزیر ہوجاتا ہے اور جب وہ مریض کی حالت میں بہتری آجانے کے بعد واپس لوٹتا ہے ، تو روڈ ایکسیڈنٹ میں اس کی موت واقع ہوجاتی ہے۔

اس کے بعد ایک خُوب صورت کے ساتھ کہانی آگے بڑھتی ہے، لیکن مذکورہ بالا اسپیل میں کردار کی وساطت سے یہ پیغام دیا ہے کہ اپنے پیشے کو عبادت سمجھنے والا ڈاکٹر اپنی زندگی کے ان سنہری لمحوں کو بھی اپنے فرض پر قربان کر دیتا ہے، جس سے اس کی ان گنت قیمتی خواہشات، رنگ آمیز خواب اور آسودگی میں لپٹے ہوئے ارمان وابستہ ہوتے ہیں۔ 1967ء میں ریلیز ہونے والی نامور ہدایت کار شباب کیرانوی کی سوشل فلم ’’انسانیت‘‘ ڈاکٹر اجمل(وحید مراد) کی کہانی ہے، جو اپنی محبوبہ نورجہاں (زیبا) سے وعدہ کرکے بیرون ملک چلا گیا کہ ڈاکٹری کی اعلیٰ تعلیم کے حصول کے بعد وہ واپس لوٹتے ہی اپنی محبوبہ کو دلہن بنا لے گا، لیکن جب وہ واپس لوٹتا تو دنیا بدل چکی تھی۔ وقت کے پھیرے نے نورجہاں کو ایک کینسر زدہ شخص جہانگیر (طارق عزیز) کی دلہن بنا دیا۔

محبت کی دنیا لٹ جانے کے ستم پر ڈاکٹر اجمل نے گریباں چاک کیا اور نہ ہی صحرائوں کی خاک چھانی ، بلکہ ایک بڑا اسپتال قائم کرکے دُکھی انسانیت کی خدمت میں مشغول ہوگیا۔ کینسر زدہ جہانگیر بھی اس کے زیرعلاج آیا تو جذبہ رقابت کو ڈاکٹر اجمل فرض کی طاقت سے شکست دے کر جہانگیر کی صحت اور بحالی کے لیے پُوری تندہی اور کمٹمنٹ کے ساتھ اس کے علاج میں ڈٹ گیا۔ ایک فرض شناس ڈاکٹر کے کردار کو چاکلیٹی ہیرو وحید مراد نے اس خوبی اور مہارت سے ادا کیا کہ یہ کردار ان کی بہترین پرفارمنس کے حوالوں میں ایک خاص حوالہ ٹھہرا۔

یہ محض حُسنِ اتفاق ہے کہ ڈاکٹر یا وکیل کے یادگار نوعیت کے حامل کردار زیادہ تر مرد فن کاروں کے حصے میں آئے، لیکن جب جب ایسے کرداروں کی ادائیگی کا ٹاسک خواتین فن کارائوں کو ملا، انہوں نے اپنی بہترین کارکردگی کا اعتراف کروایا۔ پاکستانی سنیما کی حسین، پروقار اور باصلاحیت فن کارہ زیبا بیگم کو شباب کیرانوی نے فلم ’’افسانہ زندگی کا‘‘ میں نفسیات کی ڈاکٹر کا ایک مشکل کردار سونپا۔ یہ ایک فرض شناس لیڈی ڈاکٹر کی کہانی ہے، جسے محمد علی کی صورت میں ایک انتہائی پیچیدہ نفسیاتی مریض کے علاج کی ذمے داری سونپی گئی۔ لیڈی ڈاکٹر اپنے پیشے سے اس قدر مخلص اور کمیٹڈ تھی کہ محض مریض کی نارمل حالت میں بحالی کی خاطر اسی مریض سے شادی پر مجبور ہوگئیں۔

گردونواح کے بدلتے حالات کے زیراثر مریض کی باربار تبدیل ہوتی ذہنی کیفیات نے لیڈی ڈاکٹر کو باربار مشکل امتحانوں اور آزمائشوں سے دوچار کیا، لیکن وہ ہر حال میں ثابت قدم رہی اور اپنے پیشے کے تقدس اور عظمت کا علم بلند رکھا۔ زیبا بیگم جس قدر حسین و دل کش اور پروقار شخصیت کی حامل فن کارہ ہیں، اس سے کہیں بڑھ کر انہوں نے اس کردار کی ادائیگی کی اور اپنی اعلیٰ پرفارمنس دی۔ ’’افسانہ زندگی کا‘‘ اپنے وقت کی ایک کام یاب اور سپر ہٹ مووی تھی، جو 1972ء میں سلور اسکرین کی زینت بنی۔

1972ء میں ہدایت کار فرید احمد کی بندگی منظر عام پر آئی۔یہ فلم بھی طب کے پیشے کو پاکیزگی اور سربلندی کے ابلاغ کے تناظر میں تخلیق کی گئی۔ کہانی کے مطابق ڈاکٹر ناصر وحید مراد ایک لاابالی سا نوجوان ہے ، لیکن ایک حادثہ اس کی شخصیت کو بدل کر رکھ دیتا ہے کہ جب شبنم کے والد آغا طالش، ڈاکٹر ناصرکی مدہوش کار ڈرائیونگ کی زد میں آکر کچلے جاتے ہیں اور ان کی ہلاکت کے بعد ان کی بیٹی شبنم بھی اپنی بینائی کھو دیتی ہے۔ ڈاکٹر ناصر اس سارے معاملے میں خود کو بڑا مجرم سمجھتے ہوئے شبنم کی آنکھوں کا علاج کرتے ہیں کہ کم ازکم اس کی آنکھوں کی بینائی لوٹا کر اپنے جرم کی تھوڑی سی تلافی کرسکیں ، لیکن شبنم کے علاج کے دوران ڈاکٹر ناصر کا دماغ ایسی خطرناک شعاعوں کی زد میں آجاتا ہے کہ جس کے باعث وہ آہستہ آہستہ موت کی جانب بڑھنے لگتے ہیں، بالآخر شبنم کو بینائی مل جاتی ہے، لیکن ڈاکٹر ناصر فرض کی راہ میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کرکے اپنے پیشے کو سرخرو کرجاتے ہیں۔ ’’بندگی‘‘ کی کہانی ایڈپیٹڈ تھی، جسے موثر اسکرپٹ کی شکل علی سفیان آفاقی نے دی۔ فرید احمد نے اپنے عمدہ ٹریٹمنٹ کے ساتھ سلو لائیڈ پر منتقل کیا، جب کہ وحید مراد نے ایک ڈاکٹر کے رول کو بہت خُوب صورتی سے ادا کرکے یادگار بنا دیا۔ ہرچند کہ ’’بندگی‘‘ باکس آفس پر کام یابی سے محروم رہی۔ گویا عوام الناس کی توجہ حاصل نہ کرسکی لیکن ناقدین نے اسے ایک خاص معیار کی مثالی فلم قرار دیا، جب ذکر اس فلم کا کہ جس میں ’’ڈاکٹر‘‘ کے کردار کو ہماری فلمی تاریخ کے تمام ’’ڈاکٹر‘‘

پر غالب رہی۔ ہدایت کار پرویز ملک کی بہت اعلیٰ اور قابل دید تصویر ’’گمنام‘‘ جس میں فلم اور ٹی وی کے عظیم اور بے مثل فن کار طلعت حسین نے ایک ایسے ڈاکٹر کا کردار ادا کیا، جسے انسانی خدمت سے جنون کی حد تک پیار ہوتا ہے۔ وہ اپنے پروفیشن میں ماہر و یکتا ہے۔ ڈاکٹر جسے ایک بڑا سرمایہ دار شہر میں بہت بڑا اسپتال ہیڈ کرنے کی آفر بہت بھاری معاوضے کے ساتھ کرتا ہے، لیکن مال و زر سے نفرت اور حقیقی مسیحائی سے جنون کی حد تک محبت کرنے والا یہ ڈاکٹر، سرمایہ دار کی اس پرآسائش آفر کو ٹھکرا کر ایک قصبے میں اپنا چھوٹا سا کلینک قائم کرتا ہے اور قصبے کے غریب اور پسماندہ لوگوں کو نہایت کم معاوضے پر اپنی خدمات فراہم کرتا ہے۔

طلعت حسین نے اس کردار کو جس کمال فن کے ساتھ ادا کیا، اس کی مثال دور دور تک نہیں ملتی۔ اس کردار کی ادائیگی میں ان کی پرفارمنس کا کیلیبر انتھونی کوئن، رچرڈ برٹن، گریگوری پیک اور مارلن برانڈو کے متوازی نظر آیا، جن فلم بینوں نے ’’گمنام‘‘ دیکھی ہے، ان سے ہمارا یہ سوال ہے کہ آپ نے دنیا بھر کی فلمیں دیکھی ہوں گی، کیا کبھی کسی بھی فلم میں ڈاکٹر کا اتنا طاقت ور کردار اور اتنی فطری اور جانداری کردار نگاری دیکھنے کا اتفاق ہوا؟ اس سوال کا جواب اثبات میں ملنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ ’’گمنام’’ باکس آفس پر تہلکہ اس لیے نہ مچا سکی۔ دوسری فلموں سے یہ قدرمختلف اور مکمل بامقصد فلم تھی، لیکن ناقدین نے اسے خوب سراہا۔ طلعت حسین نے اس کردار کی عدیم النظیر ادائیگی پر 1983ء کے بہترین اداکار کا نیشنل ایوارڈ بھی حاصل کیا۔

ہم نے زیرنظر مضمون میں ’’طب‘‘ کے شعبے کے تناظر میں بنائی جانے والی چند بہترین اور نمائندہ اہمیت کی حامل فلموں کا ذکر کیا ہے، ورنہ یوں تو درجنوں فلمیں ایسی ہیں، جن میں کہیں نہ کہیں ڈاکٹر کا کردار موجود ہے۔ کہیں مثبت خدوخال کے ساتھ تو کہیں منفی رویوں کا مظہر…! لیکن ہم نے اپنی تحریر میں ان رول ماڈلز کا انتخاب کیا کہ جن کی وساطت سے اس پیشے کے تقدس، طہارت اور ضرورت کا پیغام ملتا ہے۔