ہر سردی کیساتھ چڑھنے والا بخار، ملیریا کی علامت نہیں

July 12, 2020

بخار ایک ایسی جسمانی کیفیت کا نام ہے، جس میں جسم کا درجۂ حرارت نارمل حد یعنی98 .6 فارن ہائیٹ ڈگری سے بڑھ جاتا ہے اورجوکسی نہ کسی مرض کی نشان دہی کر رہا ہوتاہے۔ ہمارے یہاں عمومی طور پر سردی اور کپکپی کے ساتھ چڑھنے والے بخارکو ملیریا ہی سمجھا جاتا ہے،حالاں کہ ایسا نہیں ہے۔ یاد رکھیے،سردی لگنا، ملیریا کے بخار کی ایک اہم علامت ضرورہے، لیکن بخار کی متعدّد اقسام ایسی ہیں، جن کی علامات بھی ملیریا سے ملتی جلتی ہیں۔

جیسا کہ سردی کے ساتھ چڑھنے والے بخار میں گلے اور حلق کا معائنہ بہت ضروری ہے، کیوں کہ اکثر دیکھا گیا ہے کہ گلے اور حلق کی سوزش کی وجہ سے بھی بہت تیز بخار ہوجاتا ہے اور مریض کو سردی لگتی ہے۔ یاد رکھیے، جب بخار کی شدّت بڑھ جاتی ہے، تواس کے نتیجے میں مریض کو سردی محسوس ہوتی ہے۔اگر بخار 102یااس سے زائد ڈگری تک بڑھ جائے، تو مریض کو ڈھانپنے کے لیے رضائی یا پھر کمبل کی بھی ضرورت پڑ سکتی ہے۔

چوں کہ ہمارے یہاں سیلف میڈی کیشن عام ہے، توزیادہ تر مریض بغیر معالج کے مشورے کے بھی ملیریا کی ا دویہ استعمال کرلیتے ہیں۔اور جب غلط ادویہ استعمال کی جائیں گی،تو مضر اثرات ہی مرتّب ہوں گے۔ ٹائیفائیڈ میں جب بخار103 یا 104 ڈگری ہوجائے، تو مریض کو سردی لگتی ہے اور بعض اوقات کپکپی بھی طاری ہوجاتی ہے۔

ٹائیفائیڈ کی تشخیص کے لیےWidalاور ملیریا کی تشخیص کے لیے ایم- پی ٹیسٹس تجویز کیے جاتے ہیں۔وایڈل ٹیسٹ کی رپورٹ مثبت آنے کی صُورت میں ٹائیفائیڈ کی،جب کہ ایم۔پی مثبت ہو، تو ملیریا کی دوا استعمال کروائی جاتی ہے۔ اگر دونوں ٹیسٹس کے نتائج منفی ہوں،تو صرف عام بخار کی دوا تجویز کی جاتی ہے، تاوقتیکہ مرض کی باقاعدہ تشخیص ہوجائے۔گُردوں کا ایک عارضہUrinary Tract Infection ہے۔

اس میں بھی سردی اور کپکپی کے ساتھ بخارہوجاتا ہے اور زیادہ تر افراد اسے ملیریا کی علامت سمجھ کر اپنے طور پردوا استعمال کرنے لگتے ہیں۔حالاں کہ یہ مرض گُردوں کا انفیکشن ہے، جس کی تشخیص کے لیے پیشاب اور خون کے ٹیسٹس ہونے چاہئیں،جب کہ الٹراسائونڈ کے ذریعے بھی معائنہ کیا جاتا ہے۔ اگر یہ انفیکشن معمولی نوعیت کا ہو، تو اینٹی بائیوٹکس کے استعمال سے گُردوں کی سوزش3سے5روز میں ٹھیک ہو جاتی ہے۔

واضح رہے کہ یہ انفیکشن صرف گُردوں تک محدود نہیں رہتا، بلکہ گُردوں سے نیچے جانے والی نالی(جسے طبّی اصطلاح میںureter کہا جاتا ہے) اورمثانےتک پھیل سکتا ہے۔ اس مرض میںپیشاب میں سوزش، جلن اور رکاوٹ وغیرہ کی بھی علامات ظاہر ہوتی ہیں،جب کہ ملیریا سےیہ تکالیف نہیں ہوتیں۔ پھیپھڑوں کی ٹی بی اور سینےکے انفیکشن میں بھی سردی کے ساتھ بخارچڑھتا ہے۔

تپِ دق کی تشخیص سینےکے ایکسرے کے ذریعے ممکن ہے، جب کہ خون اور بلغم کے ٹیسٹس بھی مستعمل ہیں۔ علاوہ ازیں، پھیپھڑوں کے کسی حصّے میں پانی بَھر جانے (Pleural Effusion) کی وجہ سے بھی مریض کوسردی محسوس ہوتی ہےاوروہ بخار میں مبتلا ہوجاتاہے۔ اس مرض کی تشخیص کے لیے عموماً سینے کا ایکسرے کروایا جاتا ہے یا پھر پھیپھڑوں سے پانی نکال کر ایک مخصوص طریقے سے اس کی جانچ کی جاتی ہے کہ آیا مریض کو ٹی بی کا عارضہ لاحق ہے یا پھر سرطان۔

جگر میں پھوڑا ہوجانے کی صُورت میں بھی ،جسےطبّی اصطلاح میںLiver Abscess کہا جاتا ہے،سردی لگنے کے ساتھ بخار ہوجاتاہے۔زیادہ تر مریضوں کو علم ہی نہیں ہوتا کہ ان کے جگر میں پیپ بَھری ہوئی ہے،لہٰذاوہ عام بخار یا ملیریا کی ادویہ استعمال کرتے ہیں، مگر جب کسی بھی طرح بخار نہیں اُترتا،تومعالج سے رابطہ کیا جاتا ہےاور پتا چلتا ہے کہ بخار کی اصل وجہ جگر کا پیپ سے بھراپھوڑا ہے۔ اگرپیپ کم مقدار میں ہو تو ادویہ تجویز کی جاتی ہیں،لیکن زائد مقدارکی صُورت میںبذریعہ سرجری یہ پیپ نکال دی جاتی ہے۔

بغل یا ران میں گلٹی یا پھر جسم کے کسی بھی حصّے میں پھوڑا ظاہر ہو، تب بھی مریض کو سردی لگنے کے ساتھ بخار ہوجاتاہے۔ بعض مریض گلٹی یا پھوڑے کو نظرانداز کرکےعام ادویہ استعمال کرتے ہیں، لیکن بخار نہیں اُترتا، کیوں کہ جب تک گلٹی دَب نہ جائے یاچیرا دے کرپھوڑے سے گندا مواد نکالا نہ جائے، بخار نہیںاُترے گا۔ ڈینگی اور چکن گونیا میں بھی سردی، کپکپی اور بخار کی علامات ظاہر ہوتی ہیں، لہٰذا بخار میں مبتلا ہونے کی صُورت میں اپنا معالج خود بننے کی بجائے فوری طور پر کسی مستند معالج سے رابطہ کیا جائے،تاکہ بروقت تشخیص کے نتیجے میں پیچیدگیوں اور علاج معالجے کی مَد میں ہونے والے اضافی اخراجات سے بچا جاسکے۔

(مضمون نگار، جنرل فزیشن ہیں اور حیدرآباد میں خدمات انجام دے رہے ہیں)