ڈپریشن اورکورونا کاتال میل

July 13, 2020

رابطہ…مریم فیصل


یہ بات بالکل درست ہے کہ کورونا وائرس نے انسانی نفسیات پر منفی اثرات مرتب کئے ہیں جو عرصے تک معاشرے میں محسوس کئے جاسکیں گے ۔بالکل ایسے ہی جیسے عالمی جنگوں کے بعد کے اثرات دنیا پر محسوس کئے جاتے تھے اور بالکل ایسے ہی جب ہیروشیما اورنا گا ساکھی پر مارے جانے والے ایٹم بم کے اثرات برسوں تک محسوس کئے گئے تھے ۔لیکن اس میں سمجھنے کا جونکتہ بہت اہم ہے وہ اس زمانے میں سوشل میڈیا کا نہ ہونا بھی تھا ۔ عالمی جنگوں اور ہیرو شیما واقعہ کے وقت سوشل میڈیا کا وجود نہیں تھا نہ اس زمانے میں ٹی وی چینلز اور اخبارات والی جرنلزم اتنی ایکٹیو اور ایڈوانس تھی کہ لمحہ بہ لمحہ کی خبریں دنیا کے ایک کونے سے آخری کونے تک پہنچ جاتی ۔ اگر ایسا ہوتا تو عالمی جنگوں کی تباہی کے علاوہ ایک اور تباہی بھی دنیا د یکھتی۔ یعنی انسانی ذہنوں کی تباہی ۔ اس کی مثال یوں لیجیے کہ جنگوں میں ہر سپاہی اپنے موبا ئل فون سے ایک ویڈیو بناتا اور دنیا کو بتاتا کہ ہم کتنی تکلیف اور مشکل میں جنگ لڑ رہے ہیں اور یہ ویڈیو نا صرف وائرل ہوتی بلکہ بریکنگ نیوز کے چکر مین ہر چینل اور اخبار بھی اسے شا ئع کرتا ۔ ہرو شیما میں ایٹم بم نے جو تباہی مچائی وہ ایک طرف لیکن اگر اس زمانے میں نرس اور ڈاکٹر یہ ویڈیو بنا کر وائرل کرتے کہ دیکھیں کتنی خراب حالت میں مریض آتے ہیں جن کی خدمت کرنے میں ہم خود بھی بیمار ہو رہے ہیں ۔ یہ ویڈیو بھی ہر اخبار اور چینل کے لئے اہم خبر بنتی ۔ ان سب خبروں سے ویڈیو بنانے والے کا کاروبار بھی خوب چلتا اور چینلز اور اخبار کا بھی لیکن ان سب کے پیچھے چھپی تباہی کسی کو نظر نہیں آتی جو انسانی نفسیات کی تباہی ہوتی ۔ انسانی ذہن ہے ہی کچھ ایسا صحیح ہے بالکل صحیح لیکن اگر پٹری سے اترا تو واپس ان ٹریک مشکل سے ہی ہوپاتا ہے ۔ میں نے کورونا وبا کے اس دور میں خود اپنے ارد گرد ایسے لوگوں کو پریشان ہوتے یامیڈیکل کی زبان میں کہیں تو ڈپریشن مین جاتے دیکھا ہے کہ جو نہ صرف مالی طور پر آسودہ تھے بلکہ فہم و فراست میں بھی ا علیٰ تھے ۔ جن کی پریشانی نہ مالی تھی نا گھریلو لیکن صرف گھروں میں چوبیس گھنٹے رہنا ان کو شدید ڈپریشن میں مبتلا کر رہا تھا اور یہ ڈپریشن کہاں سے پیدا ہو رہا تھا ہر پلیٹ فورم سے ملنے والی پریشان کن خبروں سے ۔ صبح اٹھتے ہی کہ آج کورونا سے کتنے متاثر ہوئے اور کتنے اس سے موت کے منہ میں چلے گئے یا کو ن سا قریبی عزیز اس کا شکار ہو کر اسپتال میں پڑا ہے۔ ِ اس کے علاوہ ہر دن کے نئے تبصرے جن کا موضوع صرف یہ کہ یہ وبا کبھی ختم نہیں ہوگی ہمیں اس کے ساتھ جینا ہوگا وغیرہ وغیرہ ۔ یہ سب پریشان کن خبریں ٹی وی کھولیں تب بھی ملے گی اور بند کریں تو ہاتھ میں پکڑے چھوٹے سے ڈیوائس سے بھی ملے گی ۔ یعنی پریشانی ہر طرف سے آپ کو گھیرے گی ہی۔ اتنی لمبی تمہید کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ سوشل میڈیا اور میڈیا کو بالکل ہی خیر باد کہے دیاجائے لیکن اتنا ضرور ہے کہ ڈپریشن سے بچنے کے لئے خاص کر وبا کے طور میں دماغ کو صحت مند اور ہر قسم کی پریشانی سے محفوظ رکھنے کے لئے صرف اس کی منفی خبروں پر نہیں معلوماتی اور انٹرٹینمنٹ والی خبروں پر بھی نظر ڈالتے رہیں ۔دماغ کو مختلف سرگرمیوں کے ذریعے متحرک رکھیں تاکہ ڈپریشن آپ سے دور رہے ۔