پیٹرول بحران

July 15, 2020

بعض وقت تدبیریں الٹی ہوجاتی ہیں۔ پیٹرول کی قیمتوں کے معاملے میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتیں کم بلکہ بہت کم ہوئیں تو حکومت نے عوام کو سستا پیٹرول مہیا کرنے کا ارادہ کیا لیکن تمام اچھی نیتوں کے باوجود یا تو پیٹرول نایاب ہوگیا یا الٹے مہنگے داموں بکنے لگا اور ایک بحران پیدا ہوگیا۔

تیل کی عالمی منڈی کئی برسوں سے پریشانیوں میں گھری ہوئی ہے اورجو تیل سو ڈالر فی بیرل کا بکتا تھا چالیس ڈالر پر آگیا تھا۔ اس صورتحال نے ایک نئی کروٹ اس وقت لی جب کوروناکی وبا چین سے ہوتی ہوئی یورپ اور امریکا جا پہنچی اور تمام کاروبار ٹھپ ہونے لگے۔ جب ٹرانسپورٹ نہ چل رہی ہو، لوگ گھروں میں بند ہوں، اکثر کارخانوں نے کام چھوڑ رکھا ہو تو تیل کا استعمال تو کم ہونا تھا لہٰذا قیمت مزید گری اور کئی دن تو ایسے بھی آئے جب کوئی مفت تیل کابھی خریدار نہیں تھا۔

ان حالات میں حکومت نے پیٹرول کی قیمت یکمشت پچیس روپے سے زیادہ کم کردی جب تیل کی قیمت میں اضافہ ہوتا تھا تو پیٹرول کی فروخت والی کمپنیاں راتوں رات بھاری منافع کمالیتی تھیں اب جب قیمتیں گھٹائی گئیں تو پیٹرول بیچنے والوں سے یہ کمی ہضم نہ ہوسکی اور بحران کھڑا ہوگیا لیکن یہاں ایک اور صورتحال بھی پیدا ہوگئی۔ ہوا یوں کہ کورونا کے باعث ملک میں بھی پیٹرول کااستعمال بہت کم ہوگیا تھا اور پاکستان کی ریفائنریوں میں پیٹرول وافر مقدار میںموجود تھا اس خیال کے پیش نظر کہ پہلے ملک میں موجود پیٹرول استعمال ہوجائے اس کی درآمد پر عارضی پابندی لگادی گئی۔

اب اگر پیٹرول کی تقسیم کار کمپنیوں سے پوچھا جائے تو وہ اس درآمدی پابندی کو پیٹرول کی نایابی کا سبب بتائیں گی لیکن انکوائری کمیٹی کے نزدیک ان کمپنیوں نے ذخیرہ اندوزی کا ارتکاب کیا تھا اور ان پرجرمانہ بھی عائد کیا گیا تھا۔ پھر حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں دوبارہ بڑھادیں، کمپنیاں پھر منافع میں آگئیں اور نقصان صرف عوام کا ہوا۔

یہ تو ایک مصنوعی اور غیر ضروری بحران تھا پاکستان تیل کے خریدار ملکوں میں سےہے۔ اصل بحران تو تیل پیدا کرنے والے ملکوں کے لیےہے جنہیں تیل کی وہ اونچی قیمت نہیں مل رہی جس کے وہ عادی تھے۔ ایک وقت تھا جب یہ سمجھا جاتا تھا کہ تیل دنیا میں ایک محدود مقدار میں ہے اور ہم اس کا بیدردی سے استعمال کررہے ہیں اس لئے زیادہ دن نہ چل سکے گا اور اسے سستے داموں نہیں بیچا جاسکتا۔ عرب اسرائیل جنگ کے دنوں میں اسے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا گیا اور مشرق وسطی کے ملکوں میں جہاں امریکی اور یورپی کمپنیاں تیل تلاش بھی کرتی تھیں اور خود بھی اسے خرید کر عالمی مارکیٹ میں انتہائی ارزاں داموں لے جاتی تھیں، بسا اوقات یہ قیمت دو ڈالر فی بیرل ہوتی تھی۔

عرب کے ریگستانوں کے باسیوں کے لیے یہ دام بھی بہت تھے لیکن ستر کی دہائی میں یہ قیمت پہلے 9؍ ڈالر فی بیرل ہوئی اورپھر 36؍ ڈالر تک جاپہنچی۔ یہ شاہ فیصل اور قذافی کادور تھا جنہوں نے تیل کی قدروقیمت کو پہچانا اور اپنے انتہائی پسماندہ ملکوں کو تیل کی آمدنی سے ترقی کی راہ پر رواں دواں کیا۔ ان دنوں یہ عام خیال تھا کہ تیل بیسویں صدی تک ہے۔ جب ہم اکیسویں صدی میں داخل ہوں گے تو تیل کے عالمی ذخائر اتنے کم ہوجائیں گے کہ ہمیں اس کا متبادل ڈھونڈنا اور استعمال کرنا پڑے گا۔

وقت کبھی ایک سا نہیں رہتا۔ ٹیکنالوجی نت نئی راہیں نکالتی رہتی ہے ۔دریافتیں ہوتی رہتی ہیں توانائی کے بہت سے متبادل آزمائے گئے اور کسی حد تک کامیاب بھی رہے لیکن تیل کی دنیاکو جس طرح شیل گیس (Shale gas) نے تلپٹ کیا اس کا کسی کو گمان بھی نہ تھا۔ تیل اور گیس کا خمیر اس حیوانی اور نباتاتی مواد سے اٹھتا ہے جو سمندروں کی تہوں میں لاکھوں سال جمع ہوتے رہتے ہیں اور دریائوں کی لائی ہوئی مٹی میں دفن ہوتے رہتے ہیں۔

یہ ایک طویل عمل ہے اور کئی مرحلوں سے گزرتا ہے۔پہلا مرحلہ تو اسی Source rock کے بننے کاہے جس کے اگلے مرحلےمیں ریت مٹی کی تہوں سے گیس اور تیل کا اخراج ہوتا ہے اور ان کے اوپر پڑی ہوئی مسام دار چٹانوں میں یہ جاکر جمع ہوتی ہیں جن کو Raservoir rocks کہتے ہیں۔ پھر ایک زمانہ گزرنے کے بعد زمین کی ٹکٹانک حرکت کے باعث چٹانوں میں ایسے ابھار بنتے ہیں جہاں تیل یا گیس کا ذخیرہ بن جائے۔ تیل اور گیس کی جب تلاش کاری شروع ہوتی ہے تو اس کی ابتدا انہی ابھاروں کا پتہ چلانے سے ہوتی ہے۔ سیسمک سروے اس معاملے میں سب سے کارآمد سمجھا جاتا ہے۔ زیر زمین یہ ابھار خشکی پر بھی ہوتے ہیں اور سمندروں میں بھی۔

جب ایسے ابھاروں کا پتہ چل جائے جنہیں Dome یا anticline کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے تو پھر ان کے لئے ڈرلنگ کی جاتی ہے۔ یہ ڈرلنگ کامیابی پر بھی ختم ہوسکتی ہے اور ناکامی پر بھی۔ یعنی یہ ابھار تیل یا گیس سے بھرے ہوں یا پھر ان میں صرف پانی ہو۔ ڈرلنگ ایک مہنگا سودا ہے اور اسے بڑی چھان پھٹک کے بعد ہی کیا جاتا ہے۔ پھر بھی کامیابی کے امکانات دس سے تیس فیصد تک ہی ہوتے ہیں۔

اگر آپ کو یاد ہو تو کراچی سے ڈھائی سو کلو میٹر دور گہرے پانیوں میں پچھلے سال ایک کنواں کھودا گیا جسے کیکڑا کا نام دیا گیا تھا لیکن یہ کنواں جب مطلوبہ گہرائی تک پہنچا تو مسام دار چٹانوں میں تیل یا گیس نہیں پائی گئی اور کافی مایوسی پھیلی۔ لیکن تیل کی تلاش کا کام اسی طرح آگے بڑھتا ہے۔ ناکامی کے باوجود ڈرلنگ سے گہری چٹانوں کی جو معلومات ملتی ہیں وہ آئندہ تلاش کے عمل کو بڑھانے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔

امریکا میں پائی جانے والی شیل گیس اس سے بالکل مختلف چیز ہےلیکن اس حد تک تو مشترک ہے کہ سمندر کی تہہ میں ریت مٹی کے ساتھ جو نامیاتی مادے دفن ہوتے ہیں اس چٹان کو Shale کہتے ہیں اور یہی چٹان گیس ذخیرہ کئے ہوئے ہے لیکن اس میں مسام اتنے باریک ہوتے ہیں کہ ان میں تیل ایک مسام سے دوسرے میں داخل نہیں ہوتا، اس لئے اسے چٹان سے نکالنا بہت مشکل ہوتا ہے۔

یہ ذخیرے ایک عرصے سے معلوم تھے لیکن ان سے تیل باہر نکالنا بہت مہنگا پڑتا تھا لیکن پھر دو ٹیکنالوجی میں ایسی ترقی ہوئی کہ انہوں نے یہ کام آسان کردیا۔ ایک تو ہائیڈرولک فریک چرنگ Hydraulic frackturing اور دوسرے Horizontal driling۔ امریکا میں شیل گیس کے ذخائر بڑی مقدار میںموجود ہیں اور یہ ٹیکنالوجی بھی انہی کے پاس ہے چنانچہ انہوں نے اتنی شیل گیس کی پیداوار بڑھالی کہ وہ مڈل ایسٹ کے تیل کے محتاج نہ رہے۔ اس کا اثر قیمتوں پر پڑنا تھا لیکن یہ ایک وجہ تھی۔

دوسری وجہ یہ تھی کہ ہندوستان اور چین نے اکیسویں صدی کے آغاز سے جو معاشی ترقی شروع کی اس نے تیل کی کھپت کو بہت بڑھادیا ،ساتھ ہی اس کی قیمت کو۔ لیکن دس پندرہ برسوں بعد جب اس تیز ترقی کی رفتار کچھ دھیمی پڑی تو تیل کی طلب میں بھی کمی واقع ہوئی۔ 2014ء کے لگ بھگ یہ دونوں معاملات یونی امریکی شیل گیس کی پیداوار میں اضافہ اور تیز ترقی والے ایشیائی ملکوں میں تیل کی طلب میں کمی ایک ساتھ وقوع پذیر ہوئے جس نے اوپیک ممالک کو ہلا کر رکھ دیا۔ تیل پیدا کرنے والے ممالک سے وینزویلا اور انڈونیشیا یا نائیجیریا تو براہ راست متاثر ہوئے لیکن سعودی عرب بھی نقصان دہ اثرات سے محفوظ نہ رہا اور ان ممالک کی آمدنی گھٹ کر نصف رہ گئی۔

پاکستان اس سارے منظر نامے سے دو طرح سے دوچار ہوا ایک طرف تو تیل کی درآمدی بل میں کمی آئی جو بڑی خوش آئند بات تھی مگر دوسری طرف پاکستانی محنت کشوں پر روزگار کے دروازے بند ہونے لگے آخری جھٹکا کورونا کے دنوں میں لگا جب ہزاروں بیروزگار پھنسے ہوئے پاکستانیوں کی ملک واپسی کا انتظام کرنا پڑا۔

وطن عزیز میں تیل کی تلاش اور دریافت کے عمل کو سو سال سے زائد ہوچکے ہیں۔ پہلا کامیاب کنواں پوٹھوار ک علاقے کھوڑ کے مقام پر 1915ء میں دریافت ہوا۔ 1951ء میں ایک بہت بڑی کامیابی سوئی کے مقام پر قدرتی گیس کی دریافت تھی۔ گیس کے اس ذخیرے نے کوئی پچاس سال ملک کی توانائی کی ضروریات کو سنبھالا دیئے رکھا۔ گیس کے چھوٹے چھوٹے ذخیرے ملک کے مختلف حصوں میں دریافت ہوتے رہے لیکن80 کی دہائی میں بدین میں تیل کی دریافت اور نئی صدی کے آغاز میں کوہاٹ بنوں کے علاقے میں تیل اور گیس کی دریافت اہم ہیں لیکن ان سب کے باوجود پاکستان اپنی ضرورتوں کا بمشکل پانچواں حصہ پیدا کرتا ہے اور اس کا انحصار تیل کی بھاری درآمدات پر ہے جو سعودی عرب، کویت اور ایران سے آتی ہیں۔ ایک لمبی مدت تک ہمیں گیس درآمد نہیں کرنا پڑتی تھی لیکن اب قطر سے LNG کی درآمد کے بغیر ہم بائیس کروڑ کی آبادی کے چولہےر وشن نہیں رکھ سکتے۔

پاکستان کی درآمدات میں پیٹرولیم مصنوعات کا بڑا حصہ ہے ۔ جب سے پچھلے پانچ برسوں میں تیل کی قیمتیں گری ہیں ملک کی تجارت کے توازن میں تھوڑی سی بہتری آئی ہے لیکن ہماری معیشت کی مجموعی کمزوری آڑے آتی ہے خصوصاً ہماری برآمدات بڑھنے نہیں پاتیں اور اس سےڈالر کے مقابلے میںروپیہ دبائو کا شکار رہتا ہے۔

خام تیل کی درآمد کوئی سادہ عمل نہیں۔ تیل سے لدے جہاز کا آرڈر دیا جائے تو وہ اپنے ملک سےسفر طے کرکے بندرگاہ پر لگے گا یہاں سے اتار کر ریفائنری لے جایا جائے گا۔ جہاں اس سے پیٹرولیم کی مختلف مصنوعات بنیں گی خام تیل سے جو سب سے ہلکا مائع کشید ہوگا اسے Gasolineکہتے ہیں لیکن ہمارے ہاں ، حرف عام میں پیٹرول کہلاتا ہے جو کاروں اور موٹر سائیکل میںاستعمال ہوتاہے۔ اس سے بھاری مائع ڈیزل ہے جو ٹرکوں اور بسوں کا ایندھن ہے۔

اس کے بعد فیول آئل جو بجلی گھروں میں بجلی بنانے کے کام آتا ہے اور سب سے بھاری حصہ کولتار، رہ جاتا ہے جس سے سڑکوں کی استرکاری ہوتی ہے۔ خام تیل اگر عالمی منڈی میں سستا ہوجائے تو اسے منگوانے سے لے کر ریفائنری سے گزار کر پیٹرول پمپ تک لانے میں 45؍ دن سے زائد لگ جاتے ہیں۔ تو جب عالمی منڈی میں قیمتیں تیزی سے بدل رہی ہوں تو تیل کی خریداری کی قیمت اور پیٹرول پمپ پر فروخت کی قیمت میں توازن رکھنا آسان کام نہیں ہوتا۔ پہلے قیمتیں گرائی گئیں پھر پیٹرول پمپ سے پیٹرول غائب ہوا اور پھر قیمت بڑھانا پڑ گئی۔

تیل کی درآمد میں پاکستان پچیسواں بڑا ملک ہے یہ کوئی اعزاز نہیں بلکہ ایک بڑی زحمت ہے اس کی درآمد پر جوزرمبادلہ خرچ ہوتاہے وہ ایک الگ معاملہ ہے پھر یہ نہ بھولیں کہ ہم آبادی کے اعتبار سے بھی دنیا کا چھٹا بڑا ملک ہیں تو اتنی بڑی آبادی کے استعمال کیلئے ہم کتنے دنوں کاذخیرہ رکھ سکتے ہیں۔ امریکا جیسا ملک بھی تین سے چھ ماہ تک سے زیادہ کاذخیرہ نہیں رکھ سکتا۔ پاکستان کیلئے تین ہفتوں کاذخیرہ سنبھالنا بھی آسان نہیں۔ درآمد کیا ہواخام تیل ملک کی سات ریفائنریوں میں جاتاہے جس میں نیشنل ریفائنری اور پاک ریفائنری دو بڑے تیل صاف کرنے کے کارخانے ہیں۔

ان کارخانوں سے پیٹرولیم مصنوعات یعنی پٹرول، ڈیزل،فیول آئل وغیرہ تقسیم کار کمپنیاں خریدلیتی ہیں۔ سب سے بڑی تقسیم کار کمپنی پاکستان اسٹیٹ آئل ہے جو ملک میں واقع ہر کونے تک پیٹرول اور ڈیزل پہنچاتی ہے اب ان میں سے ہر ایک کی پیٹرول رکھنے کی صلاحیت محدود ہے اس لئے اگر درآمد میں چند ہفتوں کی تاخیر ہوجائے تو قلت کا امکان فوراً پیدا ہوجاتا ہے۔ ایسا واقعہ پچھلی حکومت میں بھی پیش آچکا ہے اس لئے حالیہ بحران کو ہم نیا نہیں کہہ سکتے یہ تین سال کے اندر دوسری دفعہ ہواہے۔

سب باتیں اپنی جگہ پر مگر اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کا اس بحران میں ہاتھ بالکل صاف تھا ان کے پاس جتنا پیٹرول موجودتھا وہ انہیں پیٹرول پمپوں تک پہنچانا چاہئے تھا اور حکومت کی مقرر کردہ قیمتوں پر بیچنا چاہئےتھا خواہ اس میں انہیں کچھ نقصان اٹھاناپڑتا۔ نقصان تو خیر کیا ہوتا بس یہ کہ متوقع منافع میں کمی ہوجاتی۔

قطر سے جو ہم گیس درآمدکرتےہیں اس میں بھی آرڈر دینے سےلے کر CNG اسٹیشن تک یا گھروں کے میٹر تک پہنچانے میں انتظامی مہارت میںکوئی کمی بیشی نہ ہونے پائی۔ جو گیس ہم درآمد کرتے ہیں و ہ گیس کی شکل میں ہم تک نہیںآتی کیونکہ ہلکی ہونے کے سبب اس کا حجم اتنا ہوگا کہ وہ کسی بحری جہاز میں نہیں سماسکے گا۔ اس لئے اسے بے انتہاٹھنڈا کیا جاتا ہے اتنا کہ وہ گیس مائع بن جائے اسی لئے LNG یعنی Liquified Natural Gas کہتےہیں۔

یہ ایک ایسا خصوصی نوعیت کا جہاز ہوتا ہے جو برف کے نقطہ انجماد سے بھی ڈیڑھ سو ڈگری سنٹی گریڈ کم پر ہوتا ہے۔ پھر اس جہاز کو ایسی گودی پر ٹھہرایا جاتاہےجہاں اسی حالت میں اتارا جاسکے۔ اب یہ مائع گیس دوبارہ قدرتی گیس کی شکل میں لاکر سوئی گیس کی پائپ لائنوںمیں ڈالی جاتی ہے تب جاکر ہمارے آپ کے گھروں تک اس کی ترسیل ممکن ہوتی ہے۔

پاکستان چند گنے چنے ملکوں میں سےہے جس کی زمین کے نیچے 96000 کلومیٹر لمبی گیس کی پائپ لائنیں چاروں صوبوں کے قصبوں اور شہروں میں بچھی ہیں۔ یہ ایک بہت بڑا اثاثہ ہے اور اتنی بڑی آبادی کیلئے ایندھن کی فراہمی کا مربوط جال۔ ان پائپ لائنوں میں ملکی پیداوار اور درآمد کی ہوئی گیس کو رواں دواں رکھنا ایک بڑا چیلنج ہےجو ہماری دونوں گیس کمپنیاں یعنی سوئی سدرن اور سوئی ناردرن کامیابی سے سالہا سال سے انجام دے رہی ہیں۔ اگر بروقت درآمد میں ذرا بھی تاخیر ہو تو گیس کا بھی وہی بحران کھڑا ہوسکتاہے جوپیٹرول کا ہوا۔

عوام کو سہولتیں دینا حکومتوں کا بنیادی فریضہ ہے وہ آٹے چینی کی فراہمی ہو یا پیٹرول اور گیس کی دستیابی۔ مناسب قیمت پرعوام کو بغیر تعطل کے اشیائے ضرورت ملتی رہے تو یہی حکومت کی کامیابی ہے۔

پیٹرول کا بحران دراصل ایک پہلو ہے توانائی کے بحران کا

پاکستان کو ابتدا ہی سے توانائی کے مسائل کا سامنا رہا ہے۔ شروع کے دنوں میں نہ تو کوئلے کے بڑے ذخائر خطے میں موجود تھے جن پر نیا ملک مشتمل تھا تیل کے چند کنویں پوٹھوار کے خطہ میں تھے۔ گیس ابھی دریافت نہیں ہوئی تھی۔ نہ ہی پن بجلی پیدا کرنے کا کوئی بھی ڈیم تعمیر ہوا تھا۔ ہمارے پاس ریلوے کو چلانے کے لئے بھی کوئلہ دستیاب نہ تھا اسی لئے بہت جلد ہم ڈیزل سے چلنے والے انجنوں سے کام چلانے لگے۔ کارخانے اوّل تو تھے ہی گنے چنے اور ان کے لئے بھی ایندھن ایک مسئلہ بنا ہوا تھا وہ تو بھلا ہو سوئی گیس کی دریافت کا جس نے اکثر و بیشتر کارخانوں کو سہارا دیا اور ہماری سیمنٹ انڈسٹری اور ٹیکسٹائل انڈسٹری چل پڑی۔

سب سے سستی توانائی دریائوں پر بند باندھنے سے مل سکتی تھی۔ لیکن ہمارے لئے مشکل یہ تھی کہ ہمارے سارے دریا سرحد کے دُوسری طرف سے نکلتے تھے اور جب تک دریائوں میں پانی کی دستیابی کا تعین نہ ہو، بند کی تعمیر کا کام یا اس کی منصوبہ بندی ممکن نہ تھی۔ یہ صرف اس وقت ممکن ہوا جب ایوب خان کے دور میں ہندوستان سے سندھ طاس کا معاہدہ یعنی Indus Water Treaty تکمیل کو پہنچا۔ اس معاہدے کے تحت تین دریائوں یعنی دریائے سندھ، دریائے جہلم اور چناب کے پانی پر ہمارا حق تسلیم کر لیا گیا۔ اسی کے فوراً بعد ورلڈ بینک نے ہمیں دریائے جہلم پر منگلا ڈیم تعمیر کرنے میں مدد کی، ہمارا پہلا بڑا منصوبہ ہے کہ کثیرالمقاصد بند یعنی Multipurpose Dam بنانے کا۔

اس ڈیم سے ایک بڑی جھیل وجود میں آئی جس میں چھ ملین ایکڑ فٹ 6MAF پانی ذخیرہ کیا جا سکتا تھا اور اسی پانی کو بند میں شامل ٹربائن سے گزار کر دو ہزار میگاواٹ سے زائد بجلی بنائی جا سکتی تھی۔ اس پر یہ فائدہ مزید تھا کہ مون سون کی بارشوں میں جب سیلاب کا خطرہ ہو تو یہ بند اسے کنٹرول کرنے میں بھی مددگار تھا۔

دُوسرا بند جو توانائی کے بحران کو حل کرنے میں سب سے بڑا عامل ثابت ہوا وہ تربیلا بند تھا۔ اس کی تعمیر دریائے سندھ پر منگلا کے مکمل ہوتے ہی شروع کر دی گئی۔ مٹی اور ریت سے تعمیر ہونے والا بند اپنے وقت کا دُنیا کا سب سے بڑا بند تھا۔ اس کی جھیل منگلا سے ڈیڑھ گنا زیادہ پانی یعنی 9MAF ذخیرہ کر سکتی ہے اور یہ ساڑھے چار ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرتا۔

ان دونوں کے علاوہ ایک چھوٹا پن بجلی کا بند وارسک کے مقام پر پشاور کے قریب دریائے کابل پر تعمیر ہوا جو 900 میگاواٹ کی صلاحیت کا حامل تھا۔ ستّر کی دہائی میں جب یہ تینوں بند پوری آب و تاب سے کام کر رہے تھے ملک میں توانائی کا کوئی بحران نہ تھا۔ لوڈشیڈنگ کی اصطلاح سے عوام واقف بھی نہ تھے اور اگر بجلی جاتی تھی وہ صرف سپلائی میں فالٹ کے آنے کی وجہ سے۔ملکی صنعتی اور معاشی ترقّی کر رہا تھا لیکن آبادی بھی بڑھ رہی تھی اس لئے ہم توانائی کی سپلائی سے کبھی غافل نہ بیٹھ سکتے تھے۔ 1986ء میں جب کالا باغ ڈیم کی تعمیر کا وقت آیا تو ہماری راہ کھوٹی ہونا شروع ہوئی۔

ہم بحیثیت قوم منقسم ہوگئے اور ڈیم کی تعمیر میں تاخیر پر تاخیر شروع ہوگئی۔ صوبہ سندھ کو اعتراض تھا کہ اگر دریائے سندھ پر ایک اور ڈیم بنایا تو سندھ کے جنوبی حصوں میں اور سمندر تک دریا کا پانی نہیں پہنچ سکے گا۔ کچھ زمین سوکھ جائے گی اور کچھ ساحل سمندر کی کٹائی سے ضائع ہو جائے گی۔ صوبہ سرحد کو فکر تھی کہ کالا باغ ڈیم بننے کی صورت میں جو پانی روک کر جھیل وجود میں آئے گی اس کی سطح نوشہرہ سے بلند ہوگی اور شہر کے ڈُوبنے کا خطرہ ہوگا۔ورلڈ بینک بند کی تعمیر کیلئے فنڈ دینے کو تیار تھا لیکن ہم فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں نہ تھے اور کئی سال عملی اور بے عملی کی کش مکش میں گزر گئے اور آخر کار ملی یکجہتی کی خاطر اس کی تعمیر یکسر رُک گئی اور یہیں سے بحرانوں کا آغاز ہوا۔

سوئی گیس کی دریافت 1951ء میں ہوئی اور بیسویں صدی کے اختتام تک پچاس سال توانائی کی سپلائی کا بوجھ اُٹھاتے اُٹھاتے یہ ذخیرہ بھی کم ہوتا جا رہا تھا اور اب ہمیں ضرورت تھی کہ تیل کی طرح گیس بھی دُوسرے ممالک سے درآمد کریں۔ اس کے لئے ہمارے پاس کئی منصوبے تھے ایک ہمارا پڑوسی ایران جس کے پاس دُنیا کا دُوسرا بڑا گیس کا ذخیرہ ہے لیکن اس کے لئے پائپ لائن بچھانا ضروری تھی۔ ایران نے تو اپنے علاقے میں بلوچستان کے بارڈر تک لائن بچھا دی لیکن بلوچستان میں پائپ لائن ڈال کر کراچی یا لاہور لانے کا منصوبہ کبھی عملدرآمد کی منزل میں داخل نہ ہو سکا اور یہ منصوبہ اب ترک سمجھئے۔

دُوسرا منصوبہ ترکمانستان سے پائپ لائن بچھا کر لانے کا تھا لیکن درمیان میں افغانستان حائل تھا اور وہاں کبھی ایسی پائیدار حکومت قائم نہ ہو سکی جس سے معاہدہ کر کے ہم پاکستان گیس لا سکتے۔ ان دو ناکامیوں کے بعد ہم نے پائپ لائن کا پروگرام بھی منسوخ کر دیا اور قطر سے مائع گیس LNG بحری جہازوں پر لاد کر اپنی بندرگاہوں پر اُتارنے کا فیصلہ کیا۔ یہ عمل جاری ہے۔ جو ہمارا قطر سے ابتدائی معاہدہ تھا وہ ان دنوں کیا گیا تھا جب تیل کی قیمتیں بلند سطح پر تھیں۔ اس لئے LNG ہمیں مہنگی پڑ رہی ہے۔ وہ معاہدہ اب پورا ہونے کو ہے اور ہم نیا معاہدہ بہتر شرائط پر کر سکتے ہیں۔ جو بھی ہو کم سے کم گیس گھروں تک بھی پہنچ رہی ہے اور CNG اسٹیشن پر بھی دستیاب ہے جو پیٹرول کی سپلائی پر دبائو کو کم رکھتا ہے۔

کوئلے سے توانائی کے حصول کو بھی ہم نے کبھی نظرانداز نہیں کیا۔ تھرکے ریگستانوں سے چھ سو فٹ گہری ریت کے نیچے سے کوئلے کی تہہ کو نکالنا کوئی آسان کام نہ تھا لیکن اس کا بھی آغاز کیا گیا۔ ساتھ ہی بجلی گھر بھی وہیں تعمیر کئے۔ کہ جوں جوں کوئلہ نکلتا جائے اس سے بجلی بنا کرشہروں تک پہنچائی جائے۔ابھی کچھ عرصہ پہلے تک ملک میں صرف دو آئل ریفائنری تھیں لیکن اب ان کی تعداد سات ہے اوریہ خام تیل جو مشرق وسطیٰ سے درآمد ہوتا ہے پیٹرولیم مصنوعات میں ڈھل جاتا ہے اور پیٹرول پمپ تک پہنچایا جاتا ہے۔ لیکن بڑھتی ہوئی آبادی کے باعث تمام کوششیں اور توانائی کے ہر وسیلے کو بروئے کار لانے پر بھی بحرانوں سے کبھی نہ کبھی واسطہ پڑ جاتا ہے۔

کبھی قیمتوں کے اُتار چڑھاؤ کے سبب، کبھی بروقت فیصلہ نہ لینے کے باعث اور کبھی انتظامی دقتوں کا خمیازہ۔لیکن جو بات ہمارے لئے بڑی تشویش کا باعث ہے وہ ملکی تیل کی پیداوار جو ہماری ضرورتوں کا پندرہ فیصد بھی پورا نہیں کرتی۔ پاکستان کا بہت بڑا علاقہ ایسی چٹانوں پر مشتمل ہے جنہیں تیل کی آماجگاہ سمجھا جاتا ہے اور ہمارے ہاں تیل کی تلاش کی تاریخ بھی سو سال سے زیادہ کی ہے۔ سوئی گیس کی دریافت کے بعد دُنیا کی سات بڑی کمپنیوں نے پاکستان کا رُخ کیا اور ان میں ہر ایک نے کئی کنویں سندھ اور بلوچستان میں کھودے۔

ان میں کچھ کراچی کے ساحل اور کچھ مکران کے ساحل پر بھی کھودے گئے لیکن یا تو خشک نکلے یا اس میں سے گیس برآمد ہوئی۔ گیس کی دریافتیں آگے چل کر ہمارے کام آئیں لیکن تیل ایک محدود مقدار سے آگے نہ بڑھ سکا۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ تیل کی تلاش سندھ کے کیرتھر پہاڑوں اور اس کے دامن میں جاری ہے۔ اسی طرح کوہاٹ بنوں کے علاقوں میں کچھ کامیابیاں ملتی ہیں لیکن سب چھوٹے چھوٹے ذخیروں پر مشتمل ہوتی ہیں جو تلاش کار کمپنیوں کیلئے تو منافع بخش ہیں لیکن ایک بڑی آبادی والے ملک کی ضروریات کے حسابوں بالکل ناکافی۔

تیل کے کنویں کچھ تو پیداوار بڑھانے کیلئے کھودے جاتے ہیں جنہیں ڈیولپمنٹ ویل کہتےہیں لیکن جو نئے علاقوں میں نئے ذخیروں کی تلاش میں ڈرل کئے جائیں انہیں Exploratory Well کہتے ہیں۔ ہمارے ملک کا رقبہ جتنا بڑا ہے اس کے حساب سے ہم نے اتنے کنویں نہیں کھودے کہ ہم کسی نتیجے پر پہنچ سکیں۔ ڈرلنگ ایک مہنگا کام ہے اور سو ملین ڈالر کا کنواں ملکی وسائل سے کھودنا ممکن نہیں۔ اس لئے ہمیں غیرملکی کمپنیوں اور ان کی سرمایہ کاری پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ یہ کمپنیاں بھی طویل سروے کے بعد اوربڑے غور و خوض پر ایک یا دو کنویں کھودتی ہیں اور ہم ایک بڑے تیل کے ذخیرے کی دریافت کے ہنوز منتظر ہیں۔ جب تک ہماری اپنی ملکی پیداوار کم از کم اتنی ہو کہ ہم اپنی آدھی ضروریات پورا کرنے کے اہل ہوں تب تک پیٹرول کے توانائی کے بحران سر اُٹھاتے رہیں گے۔

لیکن جب سے عالمی منڈیوں میں تیل کی قیمت گری ہے اور اس بات کو اب پانچ سال ہو رہے ہیں اور اتنی گری ہے کہ نصف سے بھی کم رہ گئی ہے تو ہمارے لئے اس بات کا امکان پیدا ہوگیا ہے کہ دو یا اس سے زائد بڑی ریفائنری لگائیں۔ اس کے لئے گوادر اور پورٹ قاسم موزوں جگہیں ہیں۔ ایسی ریفائنری لگانے کا عندیہ سعودی عرب نے بھی دیا ہے اور سی پیک کے تحت بھی لگائی جا سکتی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ریفائنری ایک بالکل محفوظ سرمایہ کاری ہے۔ خام تیل ایک قیمت پر دستیاب ہوتا ہے اور اس کی مصنوعات ایک بڑھی ہوئی قیمت پر بکتی ہیں اور منافع دیتی ہیں۔

ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ غیرملکی سرمایہ کاروں کو راغب کیا جائے۔ پاکستان کی آبادی کو یہاں کی پیٹرول کی کھپت کو دیکھتے ہوئے کوئی بھی مستقبل پر نظر رکھنے والا سرمایہ کار اس موقع کو نظرانداز نہیں کرے گا۔ زیادہ ریفائنریوں کی موجودگی پیٹرول اور ڈیزل کی زیادہ مقدار ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کو بڑھائے گی اور پندرہ دن کے بجائے ہم ایک ماہ یا 45 دنوں کا ذخیرہ رکھ سکیں اور عوام کو آئندہ کے پیٹرول بحرانوں سے بچا سکیں گے۔