سید منور حسن سے یادگار ملاقات

July 19, 2020

آج سے 23 برس قبل جولائی 1997ء کی بات ہے جب منصورہ کے ’’دارالضیافہ‘‘ میں ہماری جماعت اسلامی کے رہنما سید منور حسن سے ایک طویل ملاقات ہوئی، اس وقت آپ جماعت کے قیم یعنی جنرل سیکرٹری تھے اور قاضی حسین احمد کے بعد امیر جماعت منتخب ہوئے ۔ ما قبل آپ اسلامی جمعیت طلبہ کے ناظم اعلیٰ رہ چکے تھے۔

زمانہ طالب علمی کے بعد آپ نے جماعت کی رکنیت اختیار کی اور کراچی جماعت کے جنرل سیکرٹری بن گئے۔ پروفیسر غفور احمد کراچی کی امارت سے مرکزی نائب امیر بنے تو منور صاحب ان کی جگہ کراچی جماعت کے امیر بنا دیئے گئے۔

1991 کے آخر میں قاضی صاحب نے انہیں جماعت کا مرکزی سیکرٹری بنا دیا تو وہ کراچی سے لاہور منتقل ہوگئے تاہم جماعت کی امارت سے دستبرداری کے بعد واپس کراچی چلے گئے۔

جماعت میں ایک روایت رہی ہے کہ اس کے اراکین پانچ سال کے لئے اپنا امیر منتخب کرتے ہیں تاوقتیکہ امیر جماعت خود چٹھی لکھ کر اپنے اراکین سے یہ درخواست نہ کردے کہ آئندہ کے لئے مجھے فارغ کرتے ہوئے کسی دوسرے کو امیر چن لیں۔

بانی جماعت مولانا مودودی نے بھی 1971ء کی انتخابی شکست کے بعد اپنی بیماری کو جواز بناتے ہوئے یہی اسلوب اپنایا تھا اور ان کے دیرینہ ساتھی بانی ارکان میں سے ایک میاں طفیل محمد کو، جو مودودی صاحب کی موجودگی میں 1944ءسے طویل عرصے تک جماعت کے سیکرٹری جنرل رہے تھے اور مغربی پاکستان کے امیر بھی، مولانا کا جانشین قرار دیتے ہوئے نومبر 1973 میں امیر جماعت منتخب کرلیا گیا، وہ پیہم امیر منتخب ہوتے رہے تاوقتیکہ 1987میں انہوں نے امیر اول کی طرح خرابی صحت کوجوازبناتے ہوئے اپنے اراکین جماعت کے نام یہ خط لکھا کہ اب مجھے میری ذمہ داری سے فارغ کردیا جائے اور آئندہ انتخاب میں میری بجائے کسی اور رکن کو امیر بنا لیا جائے۔

درویش نےان دنوں محترم میاں صاحب کو ایک خط میں لکھا تھا کہ آپ اس نوع کی دستبرداری نہ کریں جس کا مفصل و مدلل جواب بھی موصول ہوا تھا۔ بہر حال سید منور حسن کے ساتھ یہ خصوصی معاملہ ہوا کہ محض ایک ہی ٹرم کے بعد اراکین نے بغیر کسی ایسی درخواست کے انہیں سبکدوش کرتے ہوئے سراج الحق صاحب کو امیر چن لیا۔ اس سلسلے میں بہت سی باتیں یا چہ مگوئیاں ہوتی رہی ہیں کہ انہوں نے جب دہشت گردوں سے لڑنے والے فوجیوں کو شہید ماننے سے انکار کردیا اور القاعدہ و طالبان کے شدت پسندوں کو شہید منوانے پر اصرار کیا تو یہ ایک ایسا غیر منطقی و غیر اخلاقی استدلال تھا جس کی پاداش میں انہیں جماعت کی امارت سے ہٹا دیا گیا۔ جماعت میں چونکہ ایسی باتوںکو نجویٰ قرار دے دیا جاتا ہے اسلئے ہم بھی مزید کچھ عرض کرنے کی بجائے اگلی بات پر آتے ہیں۔

اپنی ملاقات میں، جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہے، جب درویش نے سید منور حسن صاحب کے ساتھ مولانا مودودی کے افکار و نظریات پر تنقیدی بحث کرنا چاہی تو فرمانے لگے چھوٹا منہ بڑی بات، کہاں آپ کہاں مولانا مودودی...؟

عرض کی سید صاحب ایسی کوئی بات نہیں آپ مولانا صاحب سے میرا فاصلہ ماپ لیں اور اس کے بعد مولانا کا سیدنا عثمانؓسے فاصلہ بھی ماپیں اس کے بعد خاکسار یہ کہہ سکے گا کہ کہاں مولانا مودودی اور کہاں سیدنا عثمان غنیؓ؟

اگر خلافت و ملوکیت میں مولانا، سیدنا عثمانؓ کی ذمہ داریوں اور فیصلوں کا تنقیدی جائزہ لے سکتے ہیں تو یہ خاکسار مولانا کے خیالات و نظریات کا تنقیدی جائزہ کیوں نہیں لے سکتا؟فوراً بولے بھائی اگر آپ نے مولانا جیسی بڑی شخصیت پر تنقیدی بحث کرنی ہے تو پہلے مولانا کی کچھ کتابیں تو پڑھ لیں۔

دراصل سید صاحب ناچیز کو ایک لبرل سیکولر کے طور پر دیکھ رہے تھے اور سمجھ رہے تھے کہ میں یونہی منہ اٹھا کر ان کے ساتھ ایک صحافی یا رپورٹر کی حیثیت سے حساس موضوعات پر مباحثہ کرنے آگیا ہوں حالانکہ ناچیز باضابطہ طور پر وقت طے کرکے گیا تھا اس لئے غرض کی کہ سید صاحب آپ سلاجفہ سے شروع ہو جائیں اور سیرت سرور عالمؐ تک چلے آئیں، تفہیمات، تنقیہات، خطبات، دینیات، الجہاد فی الاسلام تحدید و احیائے دین، پردہ، کشمکش بلکہ تفہیم القرآن سمیت مولانا کی جس کتاب پر چاہیں مباحثہ فرما لیں پوری تفصیل بیان کروں گا، اس پر وہ کچھ نرم ہوئے۔

لیکن چبھن وہی رہی جیسے کہ میں کوئی بے دین سا آدمی ان کے دین و ایمان کو چیلنج کرنے آگیا ہوں۔ ایک دو مواقع پر پھر انہوں نے خاصی چبھتی ہوئی سنائیں۔

ہمسائیگی کے اسلامی انقلاب اور طالبان کے اسلام پر بات کی کہ ہر دو مقامات پر جبر ہی ساتھ آیا ہے تو فرمانے لگے ان اسلامی تحریکوں کے مقابلے میں سیکولرازم آپ کو اچھا لگتا ہے مسلمانوں اور اسلامی تحریکوں پر جو ظلم ہو رہا ہے وہ آپ کو نظر نہیں آتا۔

اتاترک اور جدید ترکی کے بھی انہوں نے خوب لتے لئے البتہ اربکان کی شان بیان کرتے ہوئے کہا کہ وہ اتاترک کے ’’مقبرے‘‘ پر گئے وہاں تختی لگائی جس پر لکھا ’’کمال اتاترک ہمیں افسوس ہے کہ ترک قوم ابھی تک تمہیں نہیں پہچان سکی صرف ہم نے تمہیں پہچانا ہے، ہم جب پورے اقتدار اور اختیار کے ساتھ ملک میں حکمران ہوں گے تو تم کو تمہارا صحیح مقام دیں گے‘‘۔جب کہا کہ حضور یہ تو ’’منافقت‘‘ ہے بولے ’’ نہیں یہ ڈپلومیسی ہے‘‘۔

سوال کیا کہ سید صاحب اگر دنیا کے حالات کو دیکھا جائے تو لوگ آزادیاں چاہتے ہیں انسان کو فطری طور پر جبر سے نفرت ہے آنے والے دور کو آپ اسلام کا دور کہتے ہیں لیکن آپ کی اسلامی تحریکوں میں آزادیوں کی نسبت جبر زیادہ ہے؟ فرمانے لگے ’’آپ کے سارے سوالات سیکولر ذہن کی عکاسی کرتے ہیں یہ سب مغرب کی پھیلائی ہوئی باتیں ہیں جن کی جگالی ہمارے دانشور اور صحافی کرنے لگتے ہیں‘‘۔

کہنے کو تو اور بھی بہت کچھ ہے بالخصوص بن لادن کے حوالے سے مگر ان کی شان میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ ارکان جماعت نے جو اجتماعی فیصلہ کیا تھا ،وہ درست تھا۔