ایمیزون کی مٹی

July 20, 2020

اسامہ علی

سائنس دان تحقیقات کرکے اب تک متعدد چیزوں کے راز فاش کر چکے ہیں اورابھی بھی تحقیقات کرکے نت نئی چیزوں کے بارے میں لوگوں کو آگاہ کررہے ہیں ۔حال ہی میں ماہرین نے برازیل کے جنگلات ایمیزون کی مٹی میں زندگی کی کتنی اقسام ہوسکتی ہیں ؟ یہ جاننے کی کوشش کی ہے ۔تحقیق سے یہ جانناہے کہ اس میں 1800خرد بینی اقسام ہو سکتی ہیں۔جن میں 400 فنگس یا پھپھوندی کی ہوتی ہیں ۔ماہرین کا کہنا ہے کہ غیر مرئی اور زمین کے نیچے چھپی ہوئی اس خفیہ زندگی میں حیران کن خصوصیا ت پائی جاتی ہیں۔

جنہیں سائنس دان اب جاننا شروع کررہے ہیں ۔ایک اندازے کے مطابق پوری دنیا میں پھپھوندی کی 38 لا کھ اقسام موجو دہیں لیکن ابھی تک انہیں باقاعدہ طور پر مرتب نہیں کیا گیا ہے ۔ رائل بو ٹینک گارڈنز کے ڈائریکٹر آف سائنس پر وفیسر الیگز ینڈر اینٹو نیلی کی سر براہی میں کام کرنے والے محققین کے مطابق تیزی سے ختم ہوتے ہوئے ایمیزون کے جنگلات کو بچانے کے لیے پھپھوندی کے کردار کو سمجھنا بہت ضروری ہے ۔پر وفیسر الیگزینڈر کا کہنا ہے کہ ایمیزون کی ایک چمچہ مٹی میں ہزاروں یا سیکڑوں انواع نظر آئیں گی ۔پھپھوندی حیاتیاتی تنوع کی سائنس میں اگلا محاذ ہے ۔

پھپھوندی کو عموما ً حیاتیا تی تنوع کی بات کرتے ہوئے نظر انداز کردیا جاتاہے ۔شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ زمین کے نیچے چھپی ہوتی ہیں۔ قدرت کی تحفظ کی بین الاقوامی تنظیم (آئی یو سی این ) کی ریڈلسٹ میں شامل کرنے کے لیے پھپھوندی کی 100سے کم اقسام کو منتخب کیا گیا ہے،جب کہ اس فہرست میں 68ہزار جانور اور25ہزار پودے شامل ہیں ۔خا ص طور پر گرم ممالک کی مٹی میں پائی جانے والی پھپھوندی کو بیکار ہی سمجھا جا تا ہے ۔ایمیزون کی مٹی کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے لیے محققین نے چار خطوں سے مٹی اور پتوں کا کچرا جمع کیا ۔

سائنس دانوں کے مطابق جینیاتی تجزئیے میںپھپھوندی کی سیکڑوں اقسام سامنے آئیں ،جن میں لیچن ،پودوں کی جڑوں پر رہنے والی پھپھوندی اور بیماریاں پھیلانے والی پھپھوندی شامل ہیں جن میں سے زیادہ تر یا تو نا معلوم تھیں یا انتہائی نایاب ۔ان میں بہت ساری پر تحقیق کرکے ان کو نام دینا باقی ہے ۔قدرتی طور کھلے گھا س کے میدان جنہیں ’’کیمپیناس ‘‘ کہا جا تا ہے، ان میں سب سے زیادہ پھپھوندی پھلتی پھولتی پائی جا تی ہے ،یہ مٹی کو معدنیات جذب کرنے میں مدد دیتے ہیں ۔ جرمنی میں قائم یونیو رسٹی آف ڈوئسبرگ ،ایسین کی ڈاکٹر کیمیلا ریٹر کا کہنا ہے کہ ایک بدلتی ہوئی دنیا میں سب سےزیادہ متنوع جنگل کو بچانے کے لیے مٹی میں موجود تنوع کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔

لیکن ا س کے لیے ہمیں جنگلات کے تحفظ کے اگلے منصوبوں میں زیر زمین زندگی کو بھی اپنے ایجنڈا میں شامل کرنا ہوگا ۔پھپھوندی معدنیات کو دوبارہ قابل استعمال بنانے اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کی سطح کومنضبط رکھنے کے لیےضروری ہوتی ہے۔علاوہ ازیں یہ خوراک اور دوائوں کا بھی ایک ذریعہ ہے ،مگر اس کی کچھ انواع خطر ناک بھی ہو سکتی ہیں اور یہ درختوں ، کھیتوں اور زمین پر موجود دیگر پودوں کو برباد کر سکتی ہیں، جب کہ کچھ ٹھنڈے خون والے جانوروں کو بھی ختم کرسکتی ہیں۔