لارڈا لطاف نے ڈیلی میل کے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ جیت لیا

August 05, 2020

لندن (مرتضیٰ علی شاہ) کنزرویٹو پارٹی کے سینئر مسلمان سیاستداں محمد الطاف شیخ نے اگست 2018میں شائع ہونے والے ایک آرٹیکل پر، جس میں ان پر تیونس میں ہونے والی ایک نفرت انگیز کانفرنس میں لیبر پارٹی کے سابق قائد جیرمی کوربن کے ساتھ شرکت کرنے اور ایک معروف پاکستانی مذہبی رہنما محمد حسام حصیب الرحمان کو ہائوس آف لارڈز میں دعوت دینے کا الزام عائد کیا گیا تھا، ڈیلی میل اور میل آن لائن کے پبلشر ایسوسی ایٹڈ نیوز پیپزر لمیٹڈکے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ جیت لیا۔ ڈیلی میل میں شائع ہونے والے اس آرٹیکل میں محمد الطاف شیخ پر انتہاپسندوں، ہولوکاسٹ کے منکروں اورنفرت کاپرچار کرنے والوں کے ساتھ ملنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ آرٹیکل میں اس حوالے سے تیونس میں 2014 میں ہونے والی ایک کانفرنس میں شرکت کا حوالہ دیا گیا تھا، جس میں لیبر پارٹی کے سابق قائد جیرمی کوربن نے پھولوں کی چادر چڑھانے کی ایک تقریب میں شرکت کی تھی۔ اس آرٹیکل کے ساتھ جہادی جون کی ایک تصویر بھی شائع کی گئی تھی، جس میں وہ نقاب پہنے ہوئے اور ایک چاقو سے کیمرے کی جانب اشارہ کرتانظر آرہا تھا۔ میل آن لائن نے اس آرٹیکل میں لارڈ الطاف شیخ کی جانب سے پاکستان کے معروف سنی مذہبی رہنما محمد حسام حصیب الرحمان کو ہائوس آف لارڈ میں دعوت دینے کا ذکر بھی کیا تھا، یہ ایک بین المذاہب کانفرنس تھی، جس کا مقصد مذہبی آہنگی کو فروغ دینا تھا اور اس میں برمنگھم کے بشپ، لندن میں امریکی سفارتخانے کے فرسٹ سیکرٹری، معروف کونسلرز اور دیگر معروف شخصیات نے بھی شرکت کی تھی۔ لارڈ شیخ نے آرٹیکل شائع ہوتے ہی ایسوسی ایٹڈ نیوز پیپرز کے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ دائر کردیا تھا، عدالت میں مقدمے کی سماعت کے دوران لارڈ شیخ کے وکیل نے عدالت کوبتایا کہ لارڈ شیخ کو اسرائیل اور غزہ کے درمیان جھڑپوں کے فوری بعد، جس میں 2,000 افراد ہلاک ہوئے تھے، تیونس میں ہونے والی اس کانفرنس میں اظہار خیال کی دعوت دی گئی تھی اور لارڈ شیخ نے اس کانفرنس میں جن خیالات کا اظہار کیا، وہ اسرائیلی ریاست کو تحفظ دینے اور فلسطینی عوام کے حقوق کا احترام کرنے کیلئے دوملکی حل کے ذریعے پائیدار امن کے قیام کے حوالے سےبرطانوی حکومت کی پالیسی کے عین مطابق تھے۔ لندن کے رائل کورٹ آف جسٹس نے یہ فیصلہ دیا کہ میل آن لائن میں شائع ہونے والا مضمون انتہائی ہتک آمیز تھا، ایسوسی ایٹڈ نیوزپیپرز لمیٹڈ نے ابتدا میں ہتک آمیز مضمون میں شائع ہونے دعوئوں کا دفاع کیا تھا لیکن رواں ہفتے یہ تسلیم کیا کہ شائع ہونے والے سنگین الزامات درست نہیں ہیں اور ان کو دوبارہ شائع نہ کرنے اور لارڈ شیخ کو مقدمے کے اخراجات کے طور پر معقول رقم ادا کرنے پر تیار ہوگیا۔ ایسوسی ایٹڈ نیوز پیپرز کی جانب سے پیش ہونے والے بیرسٹر نے عدالت میں اعتراف کیا کہ آرٹیکل میں لگائے الزامات میں کوئی صداقت نہیں ہے اور وہ ریکارڈ کو درست رکھنے اور دعویدار سے معافی مانگنے پر خوشی محسوس کرتے ہیں۔ مقدمے کے فیصلے کے بعد جنگ اور جیو سے بات کرتے ہوئے لارڈ شیخ نے، جنھیں 2006 میں تاعمر لارڈ مقرر کیا گیا ہے، مقدمے کے فیصلے پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ رقم جیتنا کبھی ان کامطمع نظر نہیں رہا، ہائوس آف لارڈ میں شریک ہونے اور اس سے قبل بھی میں نے ہمیشہ بین المذاہب مفاہمت، تحمل و برداشت اوراحترام کو فروغ دینے کی مسلسل کوششیں کی ہیں۔ ایک اخبار کی جانب سے مجھ پر ایسے الزامات عائد کئے جانے سے، جن کی میں نے ہمیشہ مخالفت کی، انتہائی تکلیف دہ بات تھی۔ ان بے بنیاد اور لغو الزامات سے خود کو بری الذمہ قرار دلوانے میں کامیابی پر مجھے بہت خوشی ہے اور میں اس مشکل وقت میں میری مکمل سپورٹ پر میں اپنی لیگل ٹیم کا شکرگزار ہوں، اس دعوے کا مقصد رقم کا حصول نہیں بلکہ ریکارڈ درست کرنا تھا۔ لارڈ شیخ نے کہا کہ وہ حصیب الرحمان کو جانتے ہیں اورتعلیم، لوگوں کی بہبود اور بین المذاہب مذاکرات کو فروغ دینے کے حوالے سے ان کی کوششوں پر ان کا احترام کرتے ہیں۔ لارڈ شیخ نے کہا کہ وہ ہمیشہ صیہونیت اور انتہا پسندی کے خلاف بولتے رہتے ہیں اور یہ باتیں اخبارات میں شائع ہوتی رہی ہیں لیکن اس اخبار نے مجھے نشانہ بنایا۔ ہتک آمیز مضمون میں لکھا گیا تھا کہ کنزرویٹو پارٹی کے دو ارکان پارلیمنٹ رابرٹ ہالفن اور زیک گولڈ اسمتھ نے نفرت انگیز ایونٹ میں لارڈ شیخ کی موجودگی کی تحقیقات کرانے کامطالبہ کیاہے۔ لارڈ شیخ کے وکیل نے جج واربائی کو بتایا کہ رابرٹ ہالفن اور زیک گولڈ اسمتھ نے کنزرویٹو میں شکایت کی تھی لیکن نومبر 2018 میں پارٹی کے کوڈ آف کنڈکٹ پینل نے اسے مسترد کردیا تھا لیکن اخبار نے نہ تو اپنی ویب سائیٹ سے یہ مضمون ہٹایا اور نہ ہی اپنے قارئین کو بتایا کہ لارڈ شیخ کو ان کی اپنی پارٹی کے ارکان پارلیمنٹ کی جانب سے کی گئی شکایت پر کلیئر کردیا گیا ہے۔ ڈیلی میل نے اپنے وکلا کے ذریعے لارڈ شیخ کو بتایا ہے کہ ہتک آمیز مضمون ہٹایا جارہا ہے۔ اخبار نے اس میں تصحیح کرنے اور معافی مانگنے کے علاوہ دعویدار کو ہرجانہ ادا کرنے کی بھی پیشکش کی ہے۔