’’سحر‘‘ محت اور محدود سپیس …؟

August 13, 2020

فکر فردا … راجہ اکبردادخان
اسے جنون کہہ لیجیئے یا ’’سحر‘‘ دونوں اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی گئی صفات ہیں جو لوگوں کو ایک فرد یا کسی نظریہ کے ساتھ جوڑ دیتی ہیں۔قوم کا ایک بڑا حصہ یہ تسلیم کرتا ہے کہ عمران خان پی ٹی آئی اور ملک کیلئے فیصل آباد کے گھنٹہ گھر کی حیثیت رکھتے ہیں، جن کی سیاست سے پہلی زندگی بھی انتہائی سحر انگیز تھی کہ جو ان کے ساتھ شوکت خا نم یاکرکٹ کارکردگی کی بنیاد پرایک دفعہ جڑگیا تو جڑارہا ان لوگوں کی بڑی تعداد آج بھی ان کیلئے مخلصانہ جذبات رکھتی ہے، پچھلے چالیس برسوں میں جب ان کی اٹھان شروع ہوئی، کئی درجن کرکٹرز، فلم سٹار اور سیاستدان بھی میدان میں اترے، تھوڑے وقت کیلئے ہیڈ لائینز بنائیں اور چلتے بنے، 1992ء ورلڈ کپ کی جیت کو ہی لے لیجئے، نہ ہی ان کا کوئی ٹیم ساتھی یا اس وقت کی سیاسی اور سماجی اشرافیہ میں سے کوئی ہے، جو وزیراعظم کی مقبولیت کا مقابلہ کرسکتا ہو، یقینناً چندسیاست دان ایسا دعویٰ کرسکتے ہیں۔ فرق یہاں یہ ہے کہ کئی خاندان بہت پہلے سے سیاست میں اعلیٰ مقام بناچکے تھے اور عمران خان صرف کرکٹ کھلاڑی تھے اور ورلڈ کپ جیتنے کے وقت ان کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ انہوں نے کبھی سیاستدان بننا ہے، عمران خان کی ورلڈ کپ سے پہلے کی بھی زندگی ہے جس میں ان کی آل رائونڈ رصلاحیتوں اور ان کے اسپتال بنانے کیلئے رضا کارانہ خدمات کی وجہ سے لوگوں کے اندر ایک پائیدار محبت کا ایک ذخیرہ اکٹھا ہوچکا تھا، پاکستانی اور بین الاقوامی لوگوں سے ان کا یہ تعلق طویل عرصہ پر پھیلے رہنا اہم مبصرین کیلئے آج بھی اسی طرح ایک معمہ ہے، جس طرح آج سے کئی سال قبل تھا۔بحیثیت محلاتی سیاستدان وزیراعظم اپنے ہم عصروں سے بہت پیچھے ہیں، اکثر اوقات وہ سیاسی طور پر الفاظ کا چنائو بھی درست نہیں کرپاتے یہی وجہ ہے کہ ان کے پیغامات اصل حقیقت میں لوگوں تک نہیں پہنچ پا رہے، کرپشن کے خاتمہ کیلئے نظر آنے والے اقدامات سول سروس کو اس کی نیوٹرل بنیادوں پر ایک بار پھر کھڑا کرنا، عام آدمی کی زندگی بہتر بنانے کیلئے حکومتی اقدامات ہوتے دیکھنا اور سیاست کو ایک ایوریج افراد کیلئے کھولنا وزیراعظم کامائنڈ سیٹ ہے، جسے آگے بڑھانے میں انہیں نہ ہی بیورو کریسی اور نہ ہی دیگر اہم ریاستی اداروں سے تعاون مل رہا ہے، حکومت ’’سٹیٹس کو‘‘ کا ایک گورکھ دھندہ ہے، جہاں قومی امور پرزیادہ پلاننگ اور سوچ و بچار کے بغیر فیصلے کئے جا رہے ہیں، مثال کے طور پرپاکستان کا نئے سیاسی نقشہ میں پورے جموں وکشمیر، گلگت بلتستان اور لداخ کو پاکستان کا حصہ دکھانا ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ اس سال یو این اسمبلی اجلاس کے دوران یا اس کے اردگرد پاکستان کو ایک بڑے انیشیٹو کا اعلان کرنا ہے، نقشہ میں تبدیلی یقینی طور پر ایک مورال بوسٹنگ اعلان ہے، جس سے زمینی حقائق میں مستقبل قریب میں کوئی بڑی تبدیلی آنے کی توقع نہیں کرنی چاہئے، جنرل اسمبلی اجلاس کو ابھی کچھ وقت باقی ہے، وزیراعظم کی گزشتہ دنوں بڑی تقریر کے بعد اس موقع پر ایک نئے موقف کے سامنے آنے کی ضرورت ہے جس میں بھارت کی جانب سے 370 اور35A ختم ہونے کے بعد کشمیریوں کیلئے بڑھتی مشکلات کا ذکر ہونا چاہئے۔پاکستان اگر کسی غیر اعلانیہ ایجنڈے کو آگے نہیں بڑھا رہا تو اسے ایل او سی کے اس طرف مہاراجہ کی جانشین حکومت کے اعلان کو سپورٹ کرنے کی مہم کا حصہ بننا چاہئے، اس اہم اعلان کے بعد خاموشی کوئی آپشن نہیں ہے۔کشمیر مسئلہ کا منصفانہ حل پاکستانی اور کشمیر عوام کی رگوں میں بسا ہوا ہے، ملک اور قوم نے جب اس ایشو کے ساتھ اپنا مستقبل جوڑ لیا ہے، تو نہ ہی نمائشی اعلانات سے ایشو کو دنیا میں اٹھان مل سکتی ہے اور نہ ہی عوام کے دل بھر پائیں گے؟ اس مسئلہ کے حل میں ہمارے پاس قومی اور حکومتی ’’جنون‘‘ بشکل وزیراعظم موجود ہے، جن کے بارے میں مسلم لیگ (ن) کے ایک اہم قائد احسن اقبال ایم این اے یہ کہتے نہیں تھکتے کہ کاش پاکستانی قوم عمران خان ’’سحر ‘‘ سے باہرنکل آئے۔زمینی حقائق بھی یہی ہیں کہ خان صاحب کو ان کی مرضی کے مطابق چلنے نہیں دیا جارہا اور ان کی ’’کچھ کرنے‘‘ کی صلاحیتوں سے فائدہ نہیں اٹھایا جارہا، بڑے فورمز پر مسئلہ کو ایک حد تک ہی جذباتی انداز میں پیش کیا جاسکتا ہے، اس لئے ایسے اعلانات سے قبل (بالخصوص کشمیر اور دہشت گردی پر) مغربی یورپ اور امریکا میں سازگار ماحول پیدا کرنے کیلئے وزیراعظم کے دورے کروائے جانے چا ہئیں ۔آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، جرمنی اور پولینڈ ایسے ممالک ہیں جہاں عمران خان کیلئے بالخصوص اور ریاست پاکستان کیلئے بالعموم اچھے جذبات موجود ہیں، ان ممالک کے قانون سازوں اور میڈیا سے انٹرایکشن کشمیر پر اچھی پیش رفت کی وجہ بن سکتا ہے، عمران خان اپنی ’’سحر انگیز‘‘ زندگی کے آخری دورانیہ میں اچھا ہے کہ ہم انرجی اور پاکستان سے بھرپور محبت کے اس بڑے فرد سے ملک کیلئے کچھ حاصل کرلیں جو شاید ہی کوئی اور سیاستدان دے سکے، کیا قوم وہ کچھ عمران خان سے حاصل کر رہی ہے جو اکثر کی نظر میں وہ ڈیلیور کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں؟ اس ہمہ جہت سوال کا جوال ’’ناں‘‘ میں ہے، حکومت اپنے دو سال مکمل کر رہی ہے لیکن وزیراعظم تو ایک طرف کوئی ایک منسٹر بھی ایسا نہیں جو یہ کہہ پانے کی پوزیشن میں ہے کہ وہ حکومتی کار کرگی سے مطمئن ہے، خان صاحب کو بین الاقوامی سطح پر پاکستان کو اوپر اٹھانے کیلئے زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے اور یہ کام اسی صورت میں احسن طریقہ سے نمٹایا جا سکتا ہے جب دنیا ایک خوشحال پاکستان جو عمران خان کے آئیڈیلز مثلاً پرامن پاکستان اور باوقار پاکستان کی جھلک پیش کرتا ہو سے انگیج ہونے کا ماحول فراہم کرے۔خان صاحب کوششوں کے باوجود تاحال ایسا ماحول پیدا نہیں کرپائے حکومت اور مقتدر حلقوں کو اپنے سفارتی انڈے ایک باسکٹ میں نہیں ڈال دینے چا ہئیں، بھارت کے ساتھ ہمارے شدید اختلافات کے باوجود ایسا کیس نہیں بنتا کہ ہم اپنی تمام توانائیاں ANTI-BHARAT بیانیوں میں خرچ کرتے رہیں، دیگر ہمسایہ ممالک اور اسلامی ممالک کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کیلئے ریاست پاکستان اپنے اس UNCUT DIAMOND کو زیادہ سے زیادہ درمیان میں لاکر پاکستان کیلئے بہتری کے اسباب پیدا کرے۔ عمران خان کی شخصیت کے ساتھ لوگوں کے نہ مٹنے والے رشتے اپنی جگہ لیکن قبل اس کے کہ سورج غروب ہونے کی طرف روانہ ہو چلے، قوم اس میگا سیاسی شخصیت سے تاریخی نوعیت کے کچھ کام کروالے، اللہ ہم سب پرمہربان رہے۔