یوم آزادی پاکستان

August 13, 2020

تحریر:وقار ملک۔۔۔کوونٹری


ہفتۂ جشن آزادی کے حوالے سے ملک بھر اور دیار غیر میں سیمینارز‘ کانفرنسز‘ تقریری مقابلوں‘ قرأت اور نعت خوانی کے مقابلوں‘ مشاعروں اور دوسری خصوصی تقریبات کا سلسلہ جاری ہے ۔کورونا وبامیں احتیاطی تدابیر کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے وطن کے دیوانوں نے محفلیں سجا رکھیں ہیں جس کا مقصد جدوجہد آزادی اور نظریۂ پاکستان کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ تحریک پاکستان کے قائدین اور کارکنوں کی بے مثال قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کرنا اور نوجوان نسل کو بانیٔ پاکستان قائداعظم کی شخصیت کے مختلف پہلوئوں اور قیام پاکستان کیلئے ان کی غیرمتزلزل جدوجہد سے روشناس کرانا ہے۔ یہ حقیقت تاریخ کے صفحات میں محفوظ ہو چکی ہے کہ متعصب ہندو اکثریت نے مسلم دشمنی کے باعث برصغیر کے مسلمانوں کا عرصۂ حیات تنگ کرکے اور انہیں اپنے سے کمتر انسان کا درجہ دیکر خود دو قومی نظریے کی بنیاد رکھی تھی جو تحریک پاکستان کی بھی بنیاد بنی اور بالآخر قیام پاکستان پر منتج ہوئی‘ جس میں قائداعظمؒ کی بے بدل قیادت میں ایک ایسے جدید اسلامی فلاحی جمہوری معاشرے کی تشکیل اور اس آزاد و خودمختار پاکستان کا تصور متعین ہوا‘ جس میں مسلمانوں کو نہ صرف مکمل مذہبی آزادی حاصل ہو گی بلکہ انہیں اقتصادی غلامی کے شکنجے میں جکڑنے والی ہندو بنیاء ذہنیت اور انگریز کے ٹوڈی جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے استحصال سے بھی نجات ملے گی اور اس خطہ کے مغلوب مسلمانوں کی جمہوری جدوجہد کے نتیجہ میں قائم ہونیوالی اس مملکت خداداد میں خلقِ خدا کے راج کا تصور بھی عملی قالب میں ڈھل جائیگا۔ قیام پاکستان کے مقاصد‘ اسکے نظریہ اور نظام کے حوالے سے قائداعظم کے ذہن میں کوئی ابہام نہیں تھا چنانچہ وہ قیام پاکستان کی جدوجہد کے دوران ہر مرحلے پر مسلمانانِ برصغیر اور دنیا کو قیام پاکستان کے مقاصد سے آگاہ کرتے رہےجو دانشور حلقے نظریۂ پاکستان اور قیام پاکستان کے مقاصد کے حوالے سے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت حقائق کو مسخ کرکے پیش کر رہے ہیں‘ انہیں اسلامیہ کالج پشاور میں قائداعظم کی 13؍ جنوری 1948ء کی تقریر کے یہ الفاظ ذہن نشین کرلینے چاہئیں کہ ’’ہم نے پاکستان کا مطالبہ ایک زمین کا ٹکڑا حاصل کرنے کیلئے نہیں لیا تھا‘ بلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے‘ جہاں ہم اسلام کے اصولوں کو آزما سکیں لیکن افسوس آج تک ان مقاصد کے حصول کے لیے کاؤشیں نہیں کی گئیں بلکہ اپنے اپنے مفادات ہی کو ترجیح دی گئی آج تک ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچی گئیں اور کسی کو کام نہ کرنے دیا گیا ۔نیب کی تلوار لٹکا کر بلیک میل کیا گیا اور میر شکیل رحمن جیسی شخصیت کو بھی بلاوجہ پابند سلاسل کر دیا گیا یہی وجہ ہے کہ انٹرنیشنل ہیومن رائٹس کو بھی نیب پر تنقید کرنا پڑی ، وطن عزیز اسلامی جمہوریہ پاکستان کے 73 یوم آزادی کا سورج آج نئے پاکستان کی امنگوں کے ساتھ ابھر رہا ہے۔ پاکستانی قوم آج یوم آزادی منفرد انداز میں منا رہی ہے کیونکہ پاکستان نے کشمیر کو نئے نقشے میں شامل کر کے پاکستان کا حصہ بنا دیا جس سے بھارت کی نسلوں کو آگ لگ گئی اور تڑپ رہی ہیں بھارت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت اپنے آئین سے آرٹیکل 370 اور اس کی ذیلی شق 35 اے نکال کر ختم کر دی تھی آج پاکستان کے یوم آزادی پر کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی بھی کیا جائے گا اور نئے نقشے پر دھمال بھی ڈالا جائے گا جب کہ 15 اگست کو بھارت کے یوم آزادی کو یوم سیاہ کے طور پر منانے کا حکومت کی طرف سے فیصلہ کیا گیا ہے اور پوری قوت کے ساتھ دنیا کو نئے نقشے سے جہاں آگاہ کیا جائے گا وہاں منفرد انداز میں لابنگ بھی کی جائے گی۔یوم آزادی بابائے قوم قائداعظم محمدعلی جناح کے ویژن کے مطابق مادر وطن کو امن‘ ترقی اور خوشحالی کا گہوارہ بنانے کے پختہ عزم کی تجدید کے ساتھ قومی و ملی جوش و جذبے سے منایا جارہا ہے۔ اس سلسلہ میں پاکستان بھر میں عام تعطیل ہے بیرون ممالک میں پاکستانی اپنے اپنے انداز میں جشن منا رہے ہیں پرنٹ میڈیا نے جشن آزادی کے حوالے سے خصوصی اشاعتوں کا اہتمام کیا ہے جب کہ سرکاری اور نجی الیکٹرانک میڈیا کی جانب سے وطن سے محبت کے جذبے کو اجاگر کرنیوالی خصوصی نشریات کا اہتمام کیا گیاہے۔ آج دن کا آغاز ملک بھر کی مساجد میں نماز فجر کے بعد ملکی ترقی‘ قومی یکجہتی‘ امن اور خوشحالی کے ساتھ ساتھ کشمیری عوام کی طویل جدوجہد کی کامیابی کیلئے خصوصی دعائوں کے ساتھ ہوگا۔ آج دن کے آغاز پر وفاقی دارالحکومت میں اور صوبائی دارالحکومتوں میں توپوں کی سلامی دی جائے گی آج پاکستانی پرچم کے ساتھ کشمیر کا پرچم بھی لہرایا جائے گا جب کہ پاکستان کو طویل عرصہ دہشت گردی کے ناسور کا سامنا رہا جسے پاک فوج نے جڑ سے اکھاڑ پھینکنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور قربانیاں بھی دیں مگر وہ دہشت گرد اب بھی اپنے آقائوں کے احکامات کی بجاآوری میں خال خال دہشت گردی کے واقعات کا ارتکاب کرتے ہیں۔ ان کا پشتیبان بلاشبہ بھارت ہے۔ دشمن کی سازشوں کو ٹھوس حکمت عملی اور دہشت گردوں کے سہولت کاروں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹ کر ناکام بنایا جا سکتا ہے۔ اس وقت ہمارے دیرینہ مکار دشمن بھارت میں پاکستان دشمن ہندو انتہا پسندوں کی نمائندہ جماعت بی جے پی کی حکومت کی جانب سے پاکستان کی سلامتی کیخلاف جو گھنائونی سازشیں کی جا رہی ہیں شہ رگ پاکستان کشمیر کو مستقل طور پر ہڑپ کرنے کیلئے بھارتی فوجوں اور پیراملٹری فورسز نے جس وحشیانہ انداز میں کشمیریوں کا عرصۂ حیات تنگ کرکے بالخصوص کشمیری نوجوانوں کو شہید اور مستقل اپاہج کرنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے‘ اس کے پیش نظر آج یوم آزادی کے موقع پرقوم اور حکومت کی جانب سے کشمیری عوام کو ان کی جدوجہد کے ساتھ یکجہتی کا پیغام دینا اور ملک کی سلامتی‘ خودمختاری کے تحفظ کیلئے بھی پوری قوم کا متحد ہونا اور اس کے ساتھ ساتھ قیام پاکستان کے مقاصد سے بالخصوص نئی نسل کو آگاہ رکھنا اور بھی ضروری ہو گیا ہے۔ کشمیر ی عوام کل بھارت کا یوم آزادی یوم سیاہ کے طور پر منائیں گے۔ بھارت نے اپنے آئین کے آرٹیکل 370 اور اس کی شق 35 اے نکال کر کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے کشمیر پر شب خون مارا ۔ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد کشمیری شعلہ جوالہ بن گئے‘ ان کو گھروں میں بند رکھنے کیلئے وادی میں کرفیو لگا دیا گیا۔ آج کرفیو کو ایک سال گزر گیا جنگ کے دوران بھی مریضوں کو ادویات اور عام شہریوں کو خوراک کے حصول کی اجازت ہوتی ہے مگر بھارتی ساڑھے سات لاکھ سفاک سپاہ نے کشمیریوں کے تمام انسانی حقوق کی بری طرح پائمالی کی۔ مواصلات کا نظام مکمل طور پر بند ہے‘ انٹرنیٹ اور فون سروس بند ہونے سے کشمیری دنیا سے کٹ کر رہ گئے۔ بھارت کی قومی سلامتی کے مشیر مقبوضہ کشمیر میں دنیا کو ’’سب اچھا‘‘ کی رپورٹ دینے کیلئے وہاں ڈیرہ جمائے ہوئے ہیں‘ ان کی وہاں موجودگی و عدم موجودگی سے فرق نہیں پڑتا‘ آزاد عالمی میڈیا کشمیریوں پر ڈھائے جانیوالے بھارتی مظالم کی رپورٹیں مسلسل نشر کررہا ہے۔ اس کا عالمی برادری کے ضمیر پر کتنا اثر ہوتا ہے‘ یہ سوالیہ نشان ہے لیکن دنیا کرونا وائرس سے اس لاک ڈاؤن سے تنگ آ چکی ہے جس میں آزادی بھی ہے اور سہولیات بھی جبکہ دوسری طرف پائلٹ گنز کے سائے تلے محاصرہ لیکن انصاف اور انسانیت کا درس دینے والے خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہیں خوشی اس بات کی ہے کہ کشمیر کاز پر سیاسی اختلافات کے باوجود تمام سیاسی جماعتیں اور قائدین متفق ہیں۔ ہر پاکستانی کا نقطہ نظر بھی یہی ہے۔ پارلیمنٹ کے اجلاس کے متعدد سیشن ہوئے جن میں صرف اور صرف کشمیر کاز ہی زیربحث آنا چاہیے تھا۔ وزیراعظم عمران خان آزاد کشمیر اسمبلی سے خطاب کے دوران اپنی طرف سے مکمل تعاون کا یقین دلایا یہ کشمیر کے ساتھ یکجہتی کی عمدہ مثال ہے۔ چین کھل کر پاکستان کی حمایت کررہا ہے۔ اپوزیشن رہنماشہباز شریف نے آزاد کشمیر کا کامیاب دورہ کیا جس سے کشمیریوں کی حوصلہ افزائی ہوئی۔ پاکستان اور چین کی کاؤشوں اور بین الاقوامی تنظیم OKC کے تعاون اور لابنگ سے بھارت کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کا بہیمانہ اقدام واپس لینے پر مجبور ہو سکتا ہے۔ مودی سرکار سبکی سے بچنے کیلئے اپنا فیصلہ تو واپس نہیں لے گی البتہ سپریم کورٹ کے ذریعے ایسا کرنے کا اس کیلئے راستہ کھلا ہوا ہے حکومت پاکستان کو چاہیے کہ مسلۂ کشمیر جو اس وقت آگ بگولہ ہے اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بین الاقوامی سطح پر لابنگ کا آغاز بہتر اور ٹھوس انداز میں کرے تاکہ بھارت کو دنیا میں بے نقاب کیا جائے۔یاد رکھیے آج کا دن تجدید عہد کا دن ہے آج ہمیں احتساب بھی کرنا ہو گا کہ بحیثیت پاکستانی ہم نے اپنے ملک کو کیا دیا ہم اپنے ملک پاکستان کے لیے کیا کرتے ہیں۔