قرآن و حدیث کو پڑھانے پر اعتراض کرنے والے

August 14, 2020

ایک قومی نصابِ تعلیم کے نظام پر جب موجودہ حکومت نے کام شروع کیا تو ایک میٹنگ کے دوران وزیراعظم عمران خان کو Presentationدی گئی جس میں کہا گیا کہ قومی نصاب کی بنیاد آئینِ پاکستان ہوگی جس پر وزیراعظم عمران خان نے پریزنٹیشن دینے والے کو فوراً ٹوکا اور کہا کہ قومی نصابِ تعلیم کی بنیاد قرآن و سنت ہوگی۔

وزارتِ تعلیم کا قلم دان شفقت محمود کو سونپا گیا تو بہت سے لوگوں کے دل و دماغ میں سوال پیدا ہوا کہ ایک شخص جو ساری زندگی سیکولر رہا اور سیکولر ازم کی پرچار کرتا رہا اُس سے کیسے یہ توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ ایک ایسے قومی نصاب کے لیے کام کرے گا جس کی بنیاد قرآن و سنت ہوگی۔

حال ہی میں ایک سرکاری میٹنگ کے دوران ایک صاحب نے اعتراض کیا کہ تعلیمی نصاب میں اسلام کو بہت زیادہ شامل کر دیا گیا ہے جس پر وہاں موجود شفقت محمود نے کہا کہ اسلام کے نام پر قائم ہونے والے ملک میں جہاں مسلمانوں کی واضح اکثریت ہے وہاں مسلمان طلبا و طلبات کو اسلام نہیں پڑھایا جائے گا تو کیا کوئی دوسرا مذہب پڑھایا جائے گا؟ حال ہی میں ایک انگریزی اخبار میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی طرف سے متفقہ طور پر مرتب کیے جانے والے تعلیمی نصاب کے خلاف ایک مضمون شائع ہوا جس میں اس بات پر تنقید کی گئی کہ نصاب میں اسلام کو کیوں زیادہ شامل کیا گیا ہے۔

مضمون لکھنے والا اپنے اسلام مخالف نظریات کی وجہ سے مشہور ہے۔ اس مضمون کے متعلق میری شفقت محمود سے بات ہوئی تو اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ایک طبقہ ہے جس کی تعداد بہت کم ہے لیکن جب بھی اسلام کا نام آتا ہے تو وہ چڑ جاتا ہے۔

تحریک انصاف کی حکومت میں شامل چند آزاد خیال وزیر مشیر اگرچہ وزیراعظم عمران خان کا تو اس مسئلہ میں سامنا نہیں کر سکتے لیکن وہ شفقت محمود کو طعنے ضرور دیتے ہیں کہ تم تو سیکولر تھے، تم کیسے ایسا نصاب بنا سکتے ہو جس کی بنیاد قرآن و سنت ہو۔

یاد رہے کہ تنقید کرنے والوں کو ماسوائے اسلامیات کے کسی دوسرے مضمون کے نصاب پر اعتراض نہیں۔ اعتراض کیا جا رہا ہے کہ مسلمان طلباوطالبات کو قرآن پاک ترجمہ کے ساتھ پڑھانا کیوں لازم کیا گیا ہے، اعتراض کیا جا رہا ہے کہ احادیث کو پڑھنا کیوں لازم کیا جا رہا ہے۔ سب سے پہلے اعتراض اٹھانے والے کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف کی حکومت جس طرح قومی نصاب کو اسلامی کر رہی ہے وہ تو ضیاء الحق دور سے بھی زیادہ ہے۔ اس اعتراض اٹھانے والے نام نہاد فلاسفر کی اپنی حقیقت کیا ہے، وہ اقبال احمد کی زندگی پر لکھی کتاب "Eqbal Ahmad"میں پڑھی جا سکتی ہے۔

جب اقبال احمد بہت بیمار تھے تو اُن کے پاس قرآن پاک کی تلاوت کی جانے لگی تو وہاں موجود اس نام نہاد فلاسفر نے اقبال احمد کو کہا کہ تلاوتِ کلام پاک کو روکو جس پر اقبال احمد نے جواب میں اُس سے کہا ’’میں ایک مسلمان ہوں‘‘۔

مجھے تعلیمی نظام کے تکنیکی معاملات کا تو علم نہیں لیکن اسلام سے متعلق جو کچھ نصاب میں شامل کیا جا رہا ہے وہ ایک ایسا تاریخی قدم ہے جو ہمیں اچھا مسلمان اور اچھا انسان بنانے کی بنیاد ہوگا۔ ان شاء اللہ۔ یہ تحریک انصاف حکومت کا سب سے بڑا کارنامہ ہوگا اور اُس خواب کی تعبیر ہوگی جو علامہ اقبالؒ نے دیکھا تھا اور اُس مقصد کا حصول ہوگا جس کی بنیاد پر قائداعظم نے مسلمانوں کے لئے اس ملک کو حاصل کیا۔

کوئی جج بنے، جنرنیل بنے، سیاستدان، صحافی، سائنسدان، بزنس مین، وزیر مشیر یا کچھ اور، جب اسلام پڑھا ہوگا تو اپنے معاملات، فیصلوں، معاشرتی رویوں میں اُن احکامات، اصولوں اور ہدایات کا خیال رکھے گا جس کی تعلیم اسلام دیتا ہے تاکہ ہم اچھے مسلمان اور بہتر انسان بنیں۔

ایک ایسا معاشرہ قائم کر سکیں جو ناانصافی، بےایمانی، ظلم و زیادتی کے خلاف ہو۔ جہاں جھوٹ، فراڈ، دھوکہ دہی سے نفرت کی جائے۔ رشتہ داروں، عزیر و اقارب، ہمسایوں، بچوں، خواتین، اقلیتوں سے حسنِ سلوک روا رکھا جائے۔ ہمارے تعلیمی نظام میں تربیت کی کمی کی وجہ سے معاشرہ میں بہت بگاڑ آ گئے ہیں۔

اِن بگاڑ اور خرابیوں کو دور کرنے کے لیے اسلامی اصولوں کے مطابق اور اسلامی رول ماڈلز کو سامنے رکھ کر اس معاشرہ کی ازسرنو تعمیر کی ضرورت ہے جس کے لیے قرآن و حدیث سے رہنمائی لینا لازم ہے۔

قرآن پاک کو لازم پڑھانے کے بارے میں قانون (ن) لیگ کی گزشتہ حکومت کے دور میں پاس کیا گیا۔ نئے تعلیمی نصاب کے متعلق وفاق اور صوبوں کے درمیان مکمل اتفاق بھی ہے۔

گویا یہ تمام سیاسی جماعتوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر اُس مخصوص سیکولر طبقہ کی سازشوں کو ناکام بنائیں جن کا اصل اعتراض یہ ہے کہ قرآن و حدیث کو کیوں نصاب میں لازم کیا جا رہا ہے۔

(کالم نگار کے نام کے ساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں 00923004647998)