حسنین کریمین ؓ

August 30, 2020

مولانامحمد امجد خان

دس محرم الحرام تاریخ اسلام میں ایک منفرد عظمت اور مقام رکھتی ہے ،دس محرم کو جو واقعات رونما ہوئے ہیں ،مورخین نے اس حوالے سے بہت کچھ لکھا ہے، اللہ تعالیٰ نے اسی دن سے کائنات بنانے کی ابتداء فرمائی آسمانوں زمینوں اور پہاڑوں کو پیدا فرمایا، حتیٰ کہ لوح وقلم اسی دن وجود میں آئے اور زمین پر پہلی بارش اسی دن ہوئی۔ حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ اسی دن قبول ہوئی ۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام پر آگ اسی دن گلزار ہوئی ۔ حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی اسی دن جودی پہاڑی پر ٹھہری ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم کو اسی دن نجات نصیب ہوئی ۔ حضرت ایوب علیہ السلام کی بیماری اسی دن ختم ہوئی ۔ حضرت یونس علیہ السلام اسی دن مچھلی کے پیٹ سے باہر تشریف لائے۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش بھی اسی دن ہوئی اور قیامت بھی اسی دن قائم ہوگی ۔ جس دن حضرت آدم علیہ السلام کوخلیفہ بنا کر زمین پر اتارا گیا تو وہ دن بھی یوم عاشورکا تھا ۔ نبوت و انسانیت کی ابتداء روئے زمین پر اسی دن ہوئی اور یہی وہ دن ہے جس دن نظام کائنات کو لپیٹ دیا جائے گا اور قیامت قائم ہوجائے گی ۔

گویا نسل انسانیت کی ابتداء بھی اسی دن ہے اور انتہا بھی اسی دن ہے، احادیث کی کتب میں صراحۃً موجودہے کہ دسویں محرم جمعۃ المبارک کے دن قیامت قائم ہوگی ۔ نواسۂ پیغمبر، جگر گوشہ ٔبتول، فرزند حیدر ، سردار نوجوانانِ جنت حضرت حسینؓ کی فضیلت کے لئے صرف یہی بات کافی ہے کہ وہ حضور نبی کریم ﷺ کی اولاد میں سے ہیں ۔

آپ نے صرف یہی فضیلت ہی نہیں پائی، بلکہ آپ ﷺ کا مبارک دور بھی پایا اور آپ ﷺ کی شفقت بھری سرپرستی میں بچپن گزارا اور تربیت حاصل کی ۔ آپ جب پیدا ہوئے توآپ کے منہ میں گھٹی بھی آپ ﷺ نے ڈالی اور وہ گھٹی بھی کوئی عام چیز نہ تھی، بلکہ آپ ﷺ کا مبارک لعاب دہن تھا ۔ شہزادہ جنت کی پہلی غذا آپ ﷺ کا لعاب مبارک تھا جس کی پہلی غذا وہ عظیم نعمت ہو،ان کے باطن کی نورانیت کا کیا مقام ہو گا۔پھر آپ کے کان مبارک میں اذان بھی آپ ﷺ نے دی جس کی برکت کا یہ عالم ہے شہید ہوتے وقت بھی سر سجدے کی حالت میں ہے اور زبان مبار ک پر رب العالمین کا مبارک نام جاری ہے ۔ساتویں دن عقیقہ ہوا اور آپ ﷺ نے حسین نام رکھا ۔

آپ ﷺ دونوں شہزادوں حضرت حسینؓ اور حضرت حسنؓ سے ملنے اپنی بیٹی سیدہ فاطمۃ الزہرہ ؓکے گھر تشریف لاتے اور پیار فرماتے اور دونوں صاحب زادوں کے لیے دعا فر ماتے۔ ترمذی شریف میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت حسنؓ و حضرت حسین ؓکا ہاتھ پکڑ کر فرمایا جس نے مجھے محبوب رکھا اور ان دونو ں کو ان کے ماں باپ کو محبو ب رکھا، وہ جنت میں میرے ساتھ ہو گا ۔حضرت ابوہریرہ ؓسے مروی ہے کہ حضور نبی کریم ﷺہمارے پاس اس حالت میں تشریف لائے کہ ایک کندھے پر حضرت حسنؓ اور دوسرے کندھے پر حضرت حسین ؓسوار تھے ۔ آپ ﷺ کبھی حضرت حسنؓ اور کبھی حضرت حسین ؓکو چومتے، کسی نے پوچھا،یارسول اللہ ﷺ کیا یہ دونوں نواسے آپ ﷺ کو بہت محبوب ہیں تو آپﷺ نے فرمایا، یہ مجھے بہت محبوب ہیں اور جس نے ان سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی جس نے ان سے بغض کیا، در حقیقت اس نے مجھ سے بغض کیا ۔(البدایہ و النہایہ)حضرت سعد بن مالکؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ حسنؓ و حسین ؓمیری دنیا کے دو پھول ہیں ۔ (کنزالعمال)حضرت ابوہریرہ ؓ فرماتے ہیں کہ میں دیکھا حضرت حسین ؓ آپ ﷺ کے لعاب کو اس طرح چوستے تھے جس طرح آدمی کھجور کو چوستا ہے۔(نور الابصار)حضرت زید بن ابی زیادؓ فرماتے ہیں ایک بار رسول اللہ ﷺ اپنی بیٹی سیدہ فاطمہ ؓ کے گھر کے دروازے سے گزرے تو حضرت حسین ؓ کے رونے کی آواز سنی تو سیدھا اپنی بیٹی کے گھر تشریف لے گئے اور فرمایا، بیٹی اسے رونے نہ دیا کرو،اس کے رونے سے مجھے تکلیف ہوتی ہے ۔ (کنز العمال)حضرت اسامہ بن زید ؓ سے مروی ہے کہ ایک بار میں کسی کام کے سلسلے میں آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ ﷺ اس حالت میں باہر تشریف لائے کہ کوئی چیز چادر مبارک میں لپٹی ہوئی تھی، میں نے عرض کی کہ اللہ کے رسول ﷺ یہ کیا ہے تو آپ ﷺ نے کپڑا اٹھایا تو وہ حضرت حسن ؓاور حضرت حسین ؓتھے، فرمایایہ دونوں میرے اور میری بیٹی کے بیٹے ہیں ،اے اللہ میں انہیں محبوب رکھتا ہوں تو بھی انہیں محبوب رکھ اور جو انہیں محبوب رکھے تو اسے بھی محبوب رکھ۔(کنزالعمال)حضرت سلمان فار سیؓ فر ماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا، سیدنا حضرت حسنؓ ;اور سیدنا حضرت حسینؓ میرے بیٹے ہیں اور جس نے مجھے محبوب رکھا، اس نے اللہ کو محبوب رکھا اور جس نے اللہ کو محبوب رکھا، اللہ پاک نے اسے جنت میں داخل کیا اور جس نے ان دونوں سے بغض رکھا، اس نے مجھ سے بغض رکھا اور جس نے مجھ سے بغض رکھا، اس نے اللہ سے بغض رکھا اور جس نے اللہ پاک سے بغض رکھا، اللہ پاک اسے دوزخ میں داخل کرے گا ۔ (زرقانی)حضرت عبدللہ ؓ سے مروی ہے کہ ایک بار سیدنا محمد رسولﷺ نماز پڑھ رہے تھے تو سیدنا حضرت حسنؓ و سیدنا حضرت حسینؓ آئے اور جب آپ ﷺ سجدے میں گئے تو دونوں آپ ﷺ کی پُشت مبارک پر سوار ہوگئے ،لوگوں نے چاہا کہ منع کردیں ،جب آپ ﷺ نے سلام پھیرا تو فرمایا کہ دونوں میرے بیٹے ہیں، جس نے ان دونوں کو محبوب رکھا، اس نے مجھے محبوب رکھا ۔(اسد الغابہ)حضرت جابر ؓفرماتے ہیں کہ میں آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا۔ آپ ﷺ نے حضرت حسنؓ و حضرت حسین ؓ کو اپنی پشت مبارک پر بٹھایا ہوا تھا اور آپ ﷺ دونوں ہاتھوں اور دونوں گھٹنوں پر چل رہے تھے ۔ میں نے کہا ،سواری کتنی اچھی ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا سوار کتنے اچھے ہیں۔ (کنزالعمال)

سبحان اللہ وہ نبی مکرم رسول معظم شفیع اعظم خاتم النبیین رحمۃ اللعالمین ﷺ جن کے لئے یہ ساری کائنات بنی ،جن کے لئے دن اور رات کانظام وجود میں آیا، معراج جن کا سفر کہلایا ،سدرہ المنتہیٰ جن کی راہ گزر ٹھہری، عرش عظیم جن کے لئے فرش بنا، دیدار الٰہی جن کا اعزاز ٹھہرا، وہ نبی علیہ الصلوٰۃ و السلام اپنی مبارک پشت پر دونوں شہزادوں کو سوار کیے ہوئے ہیں اور ساتھ فرما رہے ہیںکہ اگر سواری عمدہ ہے تو سوار کتنے اچھے ہیں۔ حضرات حسنین کریمین ؓکے لئے اس سے بڑھ کر اعزاز کی بات کیا ہو سکتی ہے ؟ حضرت علی ؓ فرماتے ہیں کہ ایک بار حضور نبی کریم ﷺ نے حضرت فاطمہ ؓسے فرمایا ،کیا تم اس پر راضی نہیں ہو کہ تم جنت کی عورتوں کی سردار ہو اور تمہارے بیٹے جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں۔ (کنزالعمال)حضرت یحییٰ بن مُرّہ ؓسے مروی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا، حسین مجھ سے اور میں حسین ؓ سے ہوں اور جو حسین ؓ کو محبوب رکھتا ہے ،وہ اللہ پاک کو محبو ب رکھتا ہے ۔ (ترمذی)امیر المو منین حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں کہ حسنؓ سر سے سینے تک نبی کریم ﷺ سے مشابہہ تھے اور حسین ؓ سینے سے قدموں تک آپ ﷺ کے ساتھ مشابہت رکھتے تھے ۔ (ترمذی)رسول کریم ﷺ ان دونوں شہزادوں سے بے حد محبت فرماتے ، یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺ نے ان دونوں شہزادوں کے لئے ایک بار دعا فرماتے ہوئے اللہ کی بارگاہ میں عرض کیا، اے اللہ میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان دونوں سے محبت فرما ۔(ابن ماجہ)

حضرت حسین ؓ اور دیگر اہل بیتؓ و صحابۂ کرامؓکی محبت ہمارے ایمان کا حصہ ہے اور کیوں نہ ہو،ان ہی حضرات کے ذریعے دین ہم تک پہنچا ۔آج جو ہم مسلمان کہلاتے ہیں ،یہ محض اللہ رب العزت کا فضل حضور نبی کریم ﷺ کی دعاؤں کی برکت اور ان قدسی صفت حضرات کی محنت کا نتیجہ ہے، لہٰذا ہم پر لازم ہوتا ہے کہ اپنی دعاؤ ں کے اندر ایمان کی عظیم نعمت پر جہاں خدا کا شکر ادا کریں اور آپ ﷺ پر درود و سلام بھیجیں وہیں، ان حضرات کے لئے درجات کی بلندی کی دعا بھی کریں، ہم ان کے احسانات کا بدلہ تو نہیں چکا سکتے، لیکن اس رب کے حضور ان حضرات کے لئے دعا تو کر سکتے ہیں جو ایک نیکی کا اجردس سے شروع کرتاہے اور پھر اس کی کوئی انتہا نہیں ہے، اللہ تعالیٰ حضرات اہل بیتؓ و صحابۂ کرام ؓ اجمعین پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے اور ہم سب کو ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے۔(آمین)