نواز شریف کو سرینڈر ہونے کا حکم

September 01, 2020


اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایون فیلڈ، العزیزیہ ملز، فلیگ شپ ریفرنس کے فیصلوں کے خلاف اپیلوں پر سماعت کرتے ہوئے سابق وزیرِ اعظم میاں نواز شریف کو سرینڈر ہونے کا حکم دے دیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایون فیلڈ اپارٹمنٹس اور العزیزیہ ریفرنسز میں نواز شریف کی احتساب عدالت سے سزا کے خلاف اپیل پر جسٹس عامر فاروق اور جسٹس محسن اختر کیانی نے سماعت کی۔

اس موقع پر وکلاء نے عدالت کو بتایا کہ سڑکیں بلاک ہیں جس کی وجہ سے ہمیں عدالت پہنچنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ہمیں بھی اس بات کا احساس ہے، ایسا نہیں ہونا چاہیے، عدالت میں جو رش ہے اگر خداناخواستہ کسی کو کورونا ہو گیا تو کون ذمے دار ہے؟

نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے روسٹرم پر آ کر کہا کہ ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف کی سزا معطلی کے بعد ضمانت منظور ہوئی، جبکہ العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کو مشروط ضمانت ملی۔

انہوں نے کہا کہ نواز شریف کا موجودہ اسٹیٹس یہ ہے کہ وہ اس وقت ضمانت پر نہیں ہیں، یہ لیگل پوزیشن ہے کہ وہ ضمانت پر نہیں، وہ علاج کے لیے ملک سے باہر ہیں، واپس نہ آنے کی وجوہات درخواست میں لکھی ہیں۔

عدالت نے استفسار کیا کہ کیا ضمانت ختم ہونے کے بعد نواز شریف کو عدالت میں سرینڈر نہیں کرنا چاہیے تھا؟

خواجہ حارث نے کہا کہ نواز شریف کا کیس منفرد ہے، عدالت کو سرینڈر نہ کرنے پر تفصیلی آگاہ کروں گا، نواز شریف کو جو بیماریاں تھیں ان کا علاج پاکستان میں نہیں ہے۔

انہوں نے عدالت کو بتایا کہ نواز شریف کا نام ای سی ایل سے نکالنے کے لیے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا، بیانِ حلفی دیا گیا ہے کہ صحت یابی کے بعد ڈاکٹرز نے اجازت دی تو نواز شریف پاکستان واپس آ جائیں گے، نواز شریف کو طبی بنیادوں پر علاج کے لیے ایک مرتبہ بیرونِ ملک جانے کی اجازت ملی۔

جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ نواز شریف کی ضمانت مشروط اور ایک مخصوص وقت کے لیے تھی۔

خواجہ حارث نے کہا کہ نواز شریف کی میڈیکل رپورٹس جمع کرائی گئیں کہ ان کی طبیعت ٹھیک نہیں، طبیعت ٹھیک نہیں پھر بھی نواز شریف کی ضمانت میں توسیع کی درخواست مسترد کر دی گئی۔

عدالت نے سوال کیا کہ پنجاب حکومت نے ضمانت میں توسیع کی درخواست کب مسترد کی؟

خواجہ حارث نے جواب دیا کہ 27 فروری کو پنجاب حکومت نے ضمانت میں توسیع کی درخواست مسترد کی۔

عدالت نے استفسار کیا کہ اگر لاہور ہائی کورٹ نے نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم دیا تو العزیزیہ ریفرنس کی سزا ختم ہو گئی؟ اسلام آباد ہائی کورٹ نے العزیزیہ کی سزا مختصر مدت کے لیے معطل کی تھی، کیا لاہور ہائی کورٹ کے حکم کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کے آرڈر کو سپر سیڈ کیا جا سکتا ہے؟

ایڈیشنل پراسیکیوٹر جنرل نیب جہانزیب بھروانہ نے عدالت میں دلائل دیتے ہوئے نوازشریف کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواستوں کی مخالفت کی۔

نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ نواز شریف کی حاضری سے استثنیٰ کی دونوں درخواستیں ناقابلِ سماعت ہیں، درخواستوں کے ساتھ تفصیلی بیانِ حلفی لف نہیں۔

انہوں نے کہا کہ آج ایون فیلڈ اور العزیزیہ ریفرنس میں سزا کے خلاف دونوں اپیلیں سماعت کے لیے مقرر ہیں، نواز شریف کا پیش نہ ہونا عدالتی کارروائی سے فرار ہے، نواز شریف جان بوجھ کر مفرور ہیں۔

جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ اگر آپ کی بات مان لی جائے تو پھر دونوں اپیلوں کا کیا ہو گا؟

یہ بھی پڑھیئے: العزیزیہ ریفرنس، نواز شریف کی اپیل سماعت کے لیے مقرر

نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ جج ارشد ملک کی ویڈیو کا معاملہ بھی عدالت کے سامنے ہے۔

عدالت نے انہیں ہدایت کی کہ ابھی جج ارشد ملک کی ویڈیو پر دلائل نہ دیں، پہلے حاضری سے استثنیٰ پر ہی دلائل دیں۔

اس موقع پر خواجہ حارث ایڈووکیٹ نے کہا کہ نواز شریف جان بوجھ کر مفرور تو نہیں؟ اس کا جائزہ وفاقی حکومت لے سکتی ہے۔

جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ کیا نواز شریف نمائندے کے ذریعے اپیلوں کی پیروی کر سکتے ہیں۔

نیب پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ اگر نواز شریف مفرور ہو گئے تو عدالت نمائندہ مقرر کر سکتی ہے، ان کے مفرور ہونے پر عدالت نیب کو سن کر اپیلوں پر میرٹ پر فیصلہ کر سکتی ہے، پنجاب حکومت کا نواز شریف کی ضمانت مسترد کرنے کا حکم نامہ کہیں چیلنج نہیں ہوا۔

جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ہم ایک تاریخ دیں گے جس پر نواز شریف سرینڈر کریں، ابھی ہم نواز شریف کو مفرور قرار نہیں دے رہے، ہم انہیں سرینڈر کرنے کے لیے ایک موقع فراہم کر رہے ہیں۔

اس موقع پر نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ پھر تو آپ نے فیصلہ کر دیا کہ نواز شریف ہر صورت واپس آئیں۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے استفسار کیا کہ کیا آپ کو خدشہ ہے کہ نواز شریف کو ایئر پورٹ پر گرفتار کر لیا جائے گا؟ اگر ایسی بات ہے تو ہمیں بتائیں۔

خواجہ حارث نے کہا کہ اگر ایسا خدشہ ہوا تو میں عدالت سے رجوع کر لوں گا۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے سوال کیا کہ کیا پنجاب حکومت کو تمام دستاویزات فراہم کی ہیں؟

خواجہ حارث نے جواب دیا کہ ہم نے اس سے متعلق رجسٹرار ہائی کورٹ کے پاس رپورٹ جمع کرائی ہے، وفاقی حکومت کے کسی نمائندے یا ہائی کمیشن نے نواز شریف کی صحت کا جائزہ نہیں لیا۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے استفسار کیا کہ آپ یہ بتا دیں کہ کیا نواز شریف اسپتال میں داخل ہیں؟

خواجہ حارث نے عدالت کو بتایا کہ ایک آرڈر پاس ہوا کہ ڈاکٹرز نے سفر کی اجازت دی تو وہ واپس آنے کے پابند ہوں گے، اسپتال میں داخل نہ ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ لندن میں زیرِعلاج نہیں، انہیں کوویڈ کی صورتِ حال کا بھی سامنا تھا۔

جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ہمیں تشویش ضمانت سے متعلق ہے، لاہور ہائی کورٹ میں ای سی ایل کا معاملہ ہے، ہم صرف سزا معطلی اور ضمانت کا معاملہ دیکھ رہے ہیں، اس آرڈر کے اثرات لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے پر بھی آئیں گے۔

خواجہ حارث نے بتایا کہ نواز شریف کی تازہ میڈیکل رپورٹ بھی ملی ہے جو فارن آفس سے تصدیق کے بعد دی جائے گی۔

جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ وہ رپورٹ ابھی ہمارے سامنے نہیں ہے، ہمیں جون کی میڈیکل رپورٹ دی گئی۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے کہا کہ نواز شریف پیش ہوں گے تو اپیل پر سماعت آگے بڑھے گی، آپ کہہ رہے ہیں کہ غیر موجودگی میں بذریعہ نمائندہ اپیل پر سماعت کر لی جائے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ نے نواز شریف کو سرینڈر ہونے کا حکم دیتے ہوئے کیس کی سماعت 10 ستمبر تک ملتوی کر دی۔