دیوار پہ لکھا ہوا حرف ِ خوشامد

September 04, 2020

ایک حضرت ِصحافی نے اپنے کالم میں فرمایا ہے کہ میں عمران وعثمان کا خوشامدی ہوں۔’سرِ تسلیم ِ خم ہے جو مزاجِ یار میں آئے ‘۔لیکن اتنی سی التماس ہے کہ اگر میں نے اپنے کالم میں کچھ غلط لکھا تھاتو اس کی نشاندہی بھی کی جاتی ۔

پتہ چلتا کہ میں نےفلاں فلاں بات غلط لکھی ہے ۔خوشامد کے حوالے سے ایک اور بات واضح کردوں کہ موجودہ حکمران نواز و شہباز نہیں جن کے بارے میں ان کے دور کے شاعر نے کہا تھا

بینر پہ لکھے حرفِ خوشامد پہ جو خوش ہے

دیوار پہ لکھی ہوئی تحریر بھی دیکھے

عثمان بزدار کی حکومت نے تو پچھلے چوبیس ماہ میں چوبیس بار دیوار پہ رقم شدہ تحریر پڑھی ہے یعنی امتحانوں سے گزری ہے۔ اگرچہ وفاق کی کارکردگی پر صوبائی اسکور اثر انداز نہیں ہوا کرتامگر پنجاب کےمیدانوں میں میانوالی سے لاہور تک عثمان بزدار نے جو معرکہ لڑا ہے اس نےعمران خان کو مضبوط تر کیا ہے۔

بے شک وزیر اعلیٰ بننے سے قبل وہ انتظامی امور سے بھرپور واقفیت نہیں رکھتے تھے مگروہ ایک ایسے شخص کے فرزند تھے جو لیڈربھی تھا اور ورکر بھی ۔جس نے گراس روٹ لیول سے اپنے حلقے کی بہتری کیلئے بے تحاشاکام کیا تھا۔یہ سچ ہے کہ ان کی پرورش سیاسی ایوانوں یا پاور کاریڈورز میں نہیں ہوئی۔ جیسے کراچی میں بلاول ،جیسے لاہور میں مریم نواز ۔

اس کے باوجود وہ اپنی سیاسی بصیرت کی بدولت سب پرحاوی ہوچکے ہیں۔ اپنے دو سالہ طرز حکمرانی سے وڈیروں اور جاگیرداروں اور مافیا ز کوواضح پیغام پہنچا چکے ہیں کہ اب حکمرانی صرف عوام کی ہوگی۔ یونہی تو پچھلے 24 مہینوں میں چوبیس سازشیں ناکام نہیں ہوئیں۔شہباز شریف کے خلاف اگر اتنی سازشیں ہوتیں تو شایدخادم اعلیٰ گھر جا چکے ہوتے۔

عثمان بزدارمیں بہت سی خوبیاں ہیں وہ دشمنوں کو بھی دوست بناناجانتے ہیں۔ آغازِحکومت میں کہا گیا کہ وزیر اعلیٰ کیلئے اتحادی کسی چیلنج سےکم نہیں ہونگے، آج وہی اسپیکر پنجاب اسمبلی ان کی اسٹرنتھ کا حصہ ہیں۔وہ تحریک انصاف کے نمائندوں سے بھی رابطے میں ہیں اوراپوزیشن رہنما بھی ان کے پاس آتے رہتے ہیں۔

انہوں نے پنجاب میں تحریک انصاف کی جڑیں مضبوط کر دی ہیں ۔ وہ بردبارآدمی ہیں ۔جس طرح وزیر اعلیٰ ہوتے ہوئے انہوں نے نیب کے دفتر جا کر اپنا بیان ریکارڈ کرایا ۔اس کی کوئی مثال پہلے نہیں ملتی مگر سازشیں ناکام ہونے کا تعلق اُن کی کارکردگی سے ہے ۔

جو کام پچھلی سات دہائیوں سے نہیں ہوئے اب پنجاب میں ہورہے ہیں ۔ قیام پاکستان سے اب تک صرف 3 اکنامک زون بنائے گئے تھے۔بزدار حکومت نے 13اکنامک زونزکی منظوری دی ہے اور ان پرتیزی سے کام جاری ہے۔ 12 نئے جدید طرز کے ہسپتال تعمیر کے مراحل میں ہیں ۔

میانوالی، لیہ، اٹک، بہاولنگر، بھکر اور گجرات میں 2سو بستروں کے مدر اینڈ چائلڈ ہسپتال کے علاوہ لاہور میں 600بستروں پر مشتمل مدر اینڈ چائلڈ ہسپتال بنایا جارہا ہے۔ اگر کسی کو شک ہے تو پنجاب کے ماڈرن شہر لاہور میں گنگارام ہسپتال کاابھی وزٹ کرے اور 10منزلہ عمارت پر جاری کام کا جائزہ لے۔

اگر پنجاب کے پسماندہ ترین ضلع میں اس مساوی ترقی کا ثبوت چاہئے تو ڈی جی خان جا کر کارڈیالوجی ہسپتال کے منصوبے کا جائزہ لے۔ اس کے علاوہ ملتان میں نشتر 2 ہسپتال کے منصوبے پر بھی تیزی سے کام جاری ہے، 7 نئی یونیورسٹیاں بنائی جاچکی ہیں، لاہور، رسول، اور ڈی جی خان میں ٹیکنالوجی یونیورسٹیاں فعال ہیں۔

پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے تعمیراتی منصوبے پر کام کا آغاز ہو رہا ہے، ریور راوی فرنٹ اربن ڈویلپمنٹ منصوبے کے تحت ایک لاکھ ایکڑ اراضی پر لاہور میں نیا شہر آباد کیا جارہا ہے جہاں 5 ہزار ارب کی سرکایہ کاری متوقع ہے۔ خانکی بیراج کی اپ گریڈیشن مکمل ہو چکی ہے، گریٹر تھل کینال اور جلالپور کینال پر بھی تیزی سے کام جاری ہے۔

لاہور اور راولپنڈی میں نجی شعبے کے اشتراک سے رنگ روڈ کے منصوبوں پر کام جاری ہے۔ بزدار اور شہباز حکومت کا موازنہ کرنے والوں کو کوئی جا کر بتائے کہ عثمان بزدارنے 11ہزارا سکولوں کو شمسی توانائی پر منتقل کرادیا ہے، یہاں بیشتر اسکول ایسے تھے جہاں قیام پاکستان سے اب تک بجلی ہی نہیں پہنچی تھی۔

عثمان بزدارنے جو ان دو سالوں میں کرپشن کے بت توڑے ہیں، بیوروکریسی کو عوام کے آگے جوابدہ بنایا ہے، پنجاب میں بادشاہت کا خاتمہ کیا ہے، پولیس کو غیر سیاسی بنایا ہے، حکومتی ترجیحات کو عوامی ترجیحات کے تابع بنایا ہے۔

اسی لئے دو سال مکمل ہونے پر پنجاب کابینہ کی طرف سے اظہار تشکر کی قراردادمنظور کی گئی اور وزیر اعلیٰ پنجاب کی قیادت پر اعتماد کا اظہار کیا گیا۔آج عثمان بزدار سیاست کو ایک نیا رنگ دے رہے ہیں۔ ا ب عوام کے آگے جواب دہی حکمرانوں پر فرض ہے۔

میں آخرمیں پھر وہی بات کروں گا اگر یہ باتیں غلط ہیں تو صاحبان ِ فکر و نظر اس کی تردید کریں اور اگر یہ درست ہیں تو پھرصرف انا کی تسکین کےلئے مخالفت نہ کریں ۔

چلیں یہ بھی بہت ہے کہ کچھ دوستوں نے یہ تسلیم کرلیا ہے کہ عثمان بزدار باقی تینوں وزرائے اعلیٰ سے بہتر کام کررہے ہیں ۔زیادہ عوامی ہیں ۔ زیادہ ملنسار ہیں ۔زیادہ لوگوں کی دسترس میں ہیں ۔

جو فیصلہ کرتے ہیں اُس پرعمل درآمد کراتے ہیں ۔انہیں غریبوں کے دکھ درد کا احساس ہے ۔یعنی وہ ایک دلِ پُردرد رکھتے ہیں ۔ایک اور بات کہ ان کا واسطہ خوشامدیوں سے نہیں ہے ۔پچھلے دو سال میں مخالفین نے جتنا کچھ ان کے خلاف لکھا اور کہا ہے اتنا عمران خان کے خلاف بھی نہیں ۔

کوئی اینکر ایسا نہیں جس نے عثمان بزدار کے خلاف پروگرام نہ کیا ہو ۔کوئی کالم نگار ایسا نہیں جس نے ان کے خلاف کالم نہ لکھا ہو ۔ان کے دو سال خوشامد میں نہیں تنقید میں گزرے ہیں ۔