6 ستمبر، فخر و وقار کی علامت

September 06, 2020

تحریر: عبان اشرف

قوموں کی تاریخ میں کچھ لمحات اتنے معتبر اور محرم بن جاتے ہیں جوان کے وقار، عزت وتوقیراور فخرکی علامت ہونے کے ساتھ ساتھ ان کی سلامتی اور استحکام کو کو دوام بخشنے کا سبب بن جاتے ہیں۔ یہ لمحات ان کی آنے والی نسلوں کے لئے مشعل راہ کی حیثیت رکھتے ہیںاو رکسی بھی ناگہانی آفت یا مصیبت کی صورت میں یہی لمحات ان کا حوصلے اور یقین کا باعث بنتے ہیں۔ زندہ قومیں ان تاریخی لمحات کو اپنے دلوں میں زندہ وتازہ کرتی رہتی ہیں۔ پاکستان کی تاریخ بھی ایسے تاریخی اور مبارک لمحات سے بھری پڑی ہے۔ 6ستمبر یوم دفاع و شہداء… اسی طرح کی ایک روشن اور تابناک تاریخ رکھتا ہے ۔۔۔۔ جب پاکستانی قوم نے اپنی بہادر مسلح افواج کے شانہ بشانہ پاکستان کی سرحدوں کو پامال کرنے کی کوشش کرنے والے عددی اور اسلحی برتری کے زعم میں مبتلا دشمن کو شرمناک شکست سے دوچار کیا اور دنیا پر واضح کردیا کہ ہم اپنی آزادی اور خودمختاری کی حفاظت کرنا جانتے ہیں۔ اس دھرتی کے بیٹے اپنی عزت اور وقار پر جانیںقربان کرنے سے نہیں گھبراتے۔ یہ قوم ایک ہے اور اس کی یکجہتی اور سالمیت کو پامال کرنے والے خود بے توقیر ہوجاتے ہیں۔

بلا شبہ جنگ 65ء کے لمحات اتنے سنہری ہیں کہ جن کی تعریف اپنوں نے تو کیا غیروں تک نے کی۔ ملکی اور عالمی میڈیاکے بہت سے نمائندے اس کی کوریج کے لئے موجود تھے۔ ان دنوں کے اخبارات کا مطالعہ کریں تو حق وباطل کے اس معرکے میں افواج پاکستان کی بہادری اور قوم کاجذبہ سب سے نمایاں نظر آئے گا۔ انڈونیشیاء کے اخبار ’’ڈی جکارتہ ‘‘ نے 9ستمبر1965 کو لکھا کہ :’’پاکستان کی مسلح افواج بھارتی جارحیت کے خلاف جوابی حملہ کر سکتی ہیں،اور پاک فوج نے صرف 2دنوں ہی میں بھارتی 30جنگی طیارے تباہ کر دئیے ہیں۔قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ اگرچہ پاک مسلح افواج کی نفری بھارتی افواج سے کم ہے، لیکن پاکستان کی مسلح افواج نے اپنے جذبے کے باعث دشمن سے کئی گنا زائد فتو حات حاصل کی ہیں‘‘۔

امریکی اخبار ’’ ٹاپ آف نیوز واشنگٹن‘‘ نے بھی 10ستمبر 1965کو لکھا:’’پاکستانی فوجیوں سے مقابلہ کرنے والی پہلی بھارتی رجمنٹ جم کر مقابلہ نہ کر سکی،اور بھارتی فوج اپنا تمام سازوسامان ، توپ خانہ ،سپلائیز، دیگر سامان اور اپنے اضافی کپڑے تک چھوڑ کر بھاگ گئی‘‘…بھارتی ’’دی انڈین ہیرالڈ‘‘ نے بھی 15ستمبر 1965 کی اشاعت میں تحریر کیا:’’بھارت ایک فیصلہ کن کارروائی کے لئے بھاری بکتر بند لشکر کے ساتھ پاکستان پر حملہ آور ہوا تھا لیکن پاکستان کی فوج ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئی اور اس نے انڈیا کے دستوں کو زبردست نقصان پہنچایا‘‘…ایک اور بھارتی اخبار ’ ’ٹائمز آف انڈیا ‘‘ نے بھی اسی مہینے اپنی 16ستمبر کی اشاعت میں رقم کیا:’’دشمن(پاکستان) جس تیز رفتاری اور غیض و غضب سے تمام محاذوں پر لڑ رہا ہے اس صورتحال کے پیشِ نظر بھارت کی تما م فوج کو پاکستانی علاقے میں پیش قدمی ہر گز آسان نہیں ہے‘‘…’’دی ٹائمز ویکلی ‘‘ کی 17 ستمبر 1965کی اشاعت میں یوں چھپا :’’بیشتر فوجی مبصرین کا خیال ہے کہ جنگ توقع کے مطابق لڑی گئی۔مختصراََ یہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان کی نہائت مختصر لیکن انتہائی اعلیٰ تربیت یافتہ فوج،بھارتی فوج کے مقابلہ میں کئی گنا زیادہ صلاحیت رکھتی ہے‘‘۔

جنگ کے تیرھویں روز 19ستمبر 1965کوبرطانوی اخبار’’سنڈے ٹائمز‘‘نے اپنی اشاعت میں لکھا:’’پاکستان کی فضائیہ، بھارتی فضائیہ کے جہازوں کو بھگا کر اور صحیح صحیح ہدف بنانے کے بعد مکمل طور پر فضائی برتری حاصل کرنے کے قابل ہو گئی تھی۔بھارتی پائلٹ، پاکستانی پائلٹوں اور افسروں کے مقابلہ میں احساسِ کم تری کا شکار ہوچکے تھے، اور اُ ن کی قیادت قابلِ صد افسوس تھی۔بھارت مکمل طور پرپاکستانی قوم کے ہاتھوں شکست سے دوچار ہو چکا تھا،جس کا آبادی کے لحاظ سے ایک اور 4 کا تناسب بنتا ہے، جبکہ مسلح افواج کی جسامت کے لحاظ سے تناسب ایک اور3 کا ہے‘‘۔

انیس سو پینسٹھ کی جنگِ ستمبر میں پاکستانی مسلح افواج کی کامیابیاں دیکھ کر،عالمی میڈیا اِس کی طرف متوجہ ہوا ، اور اِس طرح پاکستان کی مسلح افواج کا نام عالمی میڈیا میں ایک طاقتور،انتہائی اعلیٰ تربیت یافتہ اور پروفیشنل فوج کے طور پر گونجنے لگا…سو ’’لوئیس کرن ٹائم میگزین ‘‘ نے 22 ستمبر 1965 کو لکھا:’’اس قوم کو شکست کون دے سکتا ہے جو موت سے کھیلنا جانتی ہو۔