توبہ و استغفار اور گناہوں پر ندامت کی ضرورت و اہمیت

September 11, 2020

پروفیسرحافظ حسن عامر

(گزشتہ سے پیوستہ)

توبہ کی حقیقت تو اپنے گناہوں پر ندامت وشرمساری ہے، استغفار اپنے گناہ اور معاصی پرباری تعالیٰ سے طلبِ مغفرت ہے،احادیث مبارکہ میں توبہ اور استغفار کے بکثرت فضائل بیان کئے گئے ہیں ۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے ’’گناہ سے توبہ کرنے والا گناہ گار بندہ بالکل اُس بندے کی طرح ہے جس نے گناہ کیا ہی نہ ہو‘‘۔(سنن ابنِ ماجہ) نبی اکرمﷺ نے ایک موقع پر فرمایا ’’لوگو! اللہ کے حضور توبہ کیا کرو، میں خود دن میں سوسو دفعہ اُس کے حضور توبہ کرتا ہوں‘‘ (صحیح مسلم)ایک حدیث مبارکہ میںفرمایا گیاکہ خوش قسمت ہیں وہ لوگ جو اپنے قصور اور گناہوں پر نادم ہوکر اپنے آقا ومولیٰ ربّ رحیم کے حضور توبہ کرتے ہیں۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشادِ گرامی ہے ’’ہر آدمی خطا کار ہے اور خطاکاروں میں بہترین ہ لوگ ہیں جو (خطاو قصور کے بعد) مخلصانہ توبہ کرتے ہیں‘‘(جامع ترمذی)ایک دوسرے مقام پر رسول مکرمﷺ نے توبہ کرنے والوں کو اللہ کا دوست کہا ہے۔ ارشاد نبویؐہے ’’توبہ کرنے والا اللہ کا دوست ہے ‘‘(ابنِ ابی الدنیا)اسی طرح استغفار کی فضیلت بیان کرتے ہوئے سرور عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا’’جو شخص کثرت سے استغفار کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے تنگی ، مشکل سے نکلنے اور رہائی پانے کا راستہ بنادیتا ہے، اس کی ہر فکر اور پریشانی کو دور کرکے کشادگی اور اطمینان عطا فرماتاہے ،اُسے اُن طریقوں سے رزق دیتا ہے، جن کا اُسے گمان بھی نہیں ہوتا‘‘ (سنن ابنِ ماجہ، مسند احمد ابنِ حنبل) ایک حدیث مبارکہ میں فرمایاگیا کہ لائقِ مبارک باد ہے، وہ شخص جس کے نامۂ اعمال میں روز ِمحشر استغفاد کی کثرت ہوگی۔ ارشادِ مبارک ہے ’’خوشی اور مبارک ہو ،اُس بندے کو جو اپنے اعمال نامہ میں بہت زیادہ استغفار پائے( یعنی آخرت میںوہ دیکھے کہ اس کے نامۂ اعمال میں بکثرت استغفار درج ہو)(سنن ابنِ ماجہ، سنن نسائی)علاوہ ازیں احادیث مبارکہ میں اپنے ساتھ اپنے مومن بھائیوں اور بہنوں کے لیے استغفار کرنے کی فضیلت بھی بیان کی گئی ہے۔ ارشادِ نبویؐ ہے کہ’’جو بندہ عام مومنین و مومنات کے لیے اللہ تعالیٰ سے مغفرت مانگے گا ،اُس کے لیے ہر مومن مردو عورت کے حساب سے ایک ایک نیکی لکھی جائے گی‘‘ (معجم کبیرللطبرانی) ایک حدیث ِ مبارکہ میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’اللہ تعالیٰ کی طرف سے جنّت میں کسی مرد صالح کا درجہ ایک دم بلند کردیا جاتا ہے تو وہ جنّتی بندہ پوچھتاہے کہ اے پروردگار، میرے درجے اور مرتبے میں ترقی کس وجہ سے اور کہاں سے ہوئی؟جواب دیا جائےگا کہ تیرے واسطے فلاں اولاد کی دعائے مغفرت کرنے کی وجہ سے‘‘(مسند احمد)

قرآن وحدیث کی مذکورہ تصریحات سے واضح ہوا کہ انسان غفلت و گمراہی کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوب جائے اور دل میں ہمہ وقت موجزن رہنے والی خواہشات سے نبردآزمائی کے بجائے نفسِ امارہ کی لغزشوں کی رُو میں بہہ جائے، دنیوی لذتوں میں محو ہوکر اپنے رحیم و کریم آقا و مالک کے احکام و فرامین سے روگردانی کرے اور اس کی نافذ کردہ حدود و قیود سے منہ موڑ لے تو پھر آفاتِ ارضی و سماوی، آزمائش اور ابتلاء کی صورت نازل ہونے لگتی ہیں،مثلاً قحط،طوفان ، سیلاب، ٹڈی دل، غذائی قلت، بے چینی، بے اطمینانی ، خوف و افلاس، مختلف وبائیں، لاعلاج امراض مثلاً کورونا وائرس جیسی حالیہ عالمی وباء، ڈنیگی مچھر، کانگو وائرس اور دیگر مہلک حیاتیاتی جرثومے وغیرہ ۔ دراصل یہ انسانوں کے لیے تنبیہ و سرزنش کے تازیانے ہیں،ان تمام آفتوں و آزمائشوں اور ابتلائوں سے بچنے کا واحد طریقہ اللہ ربّ العزت کی بارگاہ عالی میں توبہ یعنی ندامت و شرمندگی کے آنسو اور استغفاریعنی بخشش، مغفرت اور معافی کی درخواست ہے۔ استغفار کی برکات و ثمرات کیاہیں؟حضرت نوحؑ اپنی نافرمان قوم کو نصیحت فرما رہے ہیں کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے ’’(نوحؑ نے اپنی قوم سے فرمایا) اپنے پروردگار سے مغفرت مانگو، یقین جانو وہ بہت بخشنے والا ہے، وہ تم پر آسمان سے (رحمت کی) خوب بارشیں برسائے گا، اور تمہارے مال اور اولاد میں ترقی دےگا اور تمہارے لیے باغات پیدا کرے گا اور تمہاری خاطر نہریں مہیّا کردے گا اور تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ کی عظمت سے بالکل نہیں ڈرتے‘‘۔(سورۂ نوح آیت ۱۳)