کرّۂ اَرض کو آبادی میں اضافے سے لاحق خطرات

September 19, 2020

سائنس، سائنسی تحقیق، دریافتوں اور ایجادات میں نمایاں ترقّی کے باوجود ہم بعض بنیادی اور اہم مسائل کو حل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ ویسے تو ہم دُنیا کو بہتر مستقبل دینے کی بات بہت کرتے ہیں عملی طور پر کیا ہو رہا ہے، زمینی حقائق کیا تصویر پیش کرتے ہیں یہ حقائق بہت خوفناک ہیں۔

اس کرّۂ اَرض پر تیزی سے بڑھتا ہوا دبائو دُنیا کو ہولناک مسائل سے دوچار کر رہا ہے۔ 1850ء میں 750 ملین آبادی شہروں میں آباد تھی، آج شہروں میں چار اَرب افراد آباد ہیں گویا 60 فیصد سے زائد افراد شہروں میں آباد ہیں جبکہ دُنیا کی اس وقت آبادی سات اَرب اَسّی کروڑ سے زائد ہے، جو گنجان آبادیوں، شہروں، راکٹ کی مانند بلند ہوتی عمارتوں، کچی بستیوں اور بوسیدہ گھروں میں آباد ہے۔ شہروں اور ان گھروں میں گنجائش سے زیادہ آباد افراد پنجروں میں بند رہنے جیسی زندگی گزار رہے ہیں۔ ایسے میں وبائی امراض کے تیزی سے پھیلنے کا خطرہ موجود ہے۔ موسمی تبدیلیوں، آلودگی میں اضافہ، صحت عامہ کے وسائل میں کمی اور غربت، وبائی امراض کو مزید فروغ پانے میں مددگار ثابت ہو رہے ہیں۔ دُنیا کی مجموعی آبادی میں اضافہ کو زیادہ تر سائنس داں، ماہرین اَرضیات اور بشریات سب سے بڑا مسئلہ قرار دیتے ہیں، کیوںکہ اس کی وجہ سے غربت، جہالت، انتہاپسندی، بے روزگاری، نت نئی بیماریاں، غذائی قلت، پینے کے صاف پانی اور نفسیاتی مسائل میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔

کرّۂ اَرض پر تیزی سے بڑھتا ہوا دبائو دُنیا کو ہولناک مسائل سے دوچار کر رہا ہے۔قدرت کا نظام ہے کہ جب آبادیاں بڑھ جاتی ہیں تو خوراک میں کمی اور دیگر مسائل فروغ پانے لگتے ہیں، پھر قدرتی طور پر وبائی امراض جیسے طاعون، پلیگ، فلو، وائرل بیماریاں، جنگی، سیلاب یا زلزلے آبادیوں میں کمی کر کے توازن قائم کر دیتی ہے۔

دیہی آبادیوں کے مقابلے میں شہری آبادیاں ستّر فیصد آلودگی پیدا کرتی ہیں۔ شہروں میں تیل، بجلی، بجلی سے چلنے والے گھریلو آلات، سامان، سڑکوں پر گاڑیوں کی طویل قطاریں، کثیف دُھواں، گرد و غُبار، جن میں واضح مثال چین کے شہر بیجنگ کی ہے، جہاں آلودہ ہوا میں سانس لینا دُشوار ہے۔ ہوا میں آلودگی سے زہریلے ذرّات سانس کے ذریعے ہمارے پھیپھڑوں اور خون کو متاثر کرتے ہیں جس سے دِل کی بیماریاں عام ہو رہی ہیں۔ انسان نے ابتداء سے آسان قدرتی وسائل پر زیادہ توجہ مرکوز کی۔ ان وسائل کا بے دریغ استعمال کیا۔ عمدہ زرعی زمینیں، برائے زراعت، قیمتی معدنی ذخائر برائے صنعتی ترقّی اور جب آبادی میں اضافہ ہوتا رہا تو ضروریات کی تکمیل کے ان وسائل کا استعمال بھی بڑھتا چلا گیا۔ انیسویں صدی کے بعد صنعتی ترقّی اور تجارت میں مسابقت کے رُجحان اور اشیاء خورد و نوش، اشیاء تعیشات اور دیگر اشیاء کی طلب میں اضافے نے مقابلے کا رُجحان اور بڑھا دیا جس کے ساتھ ہی زیادہ منافع کمانا بنیادی ضرورت اور فن بن گیا۔ اس فن کو نئی نئی اصطلاحوں میں ڈھال دیا گیا۔

عالمی سطح پر دانشوروں اور سیاسی رہنمائوں کی طرف سے یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ دُنیا کو ایک نئے عمرانی معاہدے یعنی نیو سوشل کنٹریکٹ کی ضرورت ہے۔ انسان نے انسان کے استحصال کی تمام حدیں پار کرلی ہیں۔

قدامت پسند نظریات اور رُجعت پسندی پر مائل ماہرین اور دانشوروں کا دعویٰ ہے کہ انسانی آبادی میں توازن ہمیشہ رکھا گیا ہے۔ قدرت کا نظام ہے کہ جب آبادیاں بڑھ جاتی ہیں تو خوراک میں کمی اور دیگر مسائل فروغ پانے لگتے ہیں، پھر قدرتی طور پر وبائی امراض جیسے طاعون، پلیگ، فلو، وائرل بیماریاں، جنگی، سیلاب یا زلزلے آبادیوں میں کمی کر کے توازن قائم کر دیتی ہے جبکہ لبرل اور آزاد خیال دانشور اور ماہرین کہتے ہیں کہ زمین پر آبادی میں بتدریج اضافہ ہوتا رہا۔ جب انسان صرف شکارپر گزارہ کرتا تھا۔ پتھر کے اَوزر استعمال کرتا، جو آٹھ سے دس ہزار قبل مسیح کا دور تھا، پھر رفتہ رفتہ انسان زراعت کی طرف مائل ہوا، جب اس شعبے میں کچھ ترقّی کر لی تب اچھی زرعی زمینوں اور پانی کی بآسانی فراہمی کے لئے اس نے دریائی خطوں میں بستیاں آباد کرنی شروع کر دیں۔

اس دور میں آبادی اور بڑھتی گئی۔ اس وقت جب انسان زراعت کی طرف مائل ہو رہا تھا تو دُنیا کی آبادی ایک جائزہ کے مطابق تیس سے چالیس لاکھ کے قریب تھی۔ اس میں تقریباً چالیس گنا اضافہ ہو چکا ہے۔ دُنیا نے ترقّی کی، سبز انقلاب آ گیا۔ آبادی اور بڑھ گئی۔ صنعتی انقلاب آیا اس سے بھی آبادی بڑھ گئی، پھر جدید علمی سائنسی ترقّی نے دریافتوں اور ایجادات کا سلسلہ شروع کیا۔ معاشرتی ترقّی میں انقلاب آگیا۔ دیہی آبادی شہروں میں کارخانوں میں کام کر کے اپنی روزی کمانے اوپر مائل ہوئی، شہر بڑھے، شہری آبادی مزید بڑی ہوتی چلی گئی اب معاشرے ترقّی یافتہ ہوگئے۔ اس تناسب سے ترقّی اور آبادی میں اضافہ ہوتا رہا، حالیہ جائزہ کے مطابق دُنیا کی آبادی سات اَرب اَسّی کروڑ افراد پر مشتمل ہے۔

دُنیا کے گیارہ ہزار سائنس دانوں نے جن کا تعلق 153 ممالک سے ہے، انہوں نے گزشتہ سال ایک سروے کے مطابق یہ واضح کردیا ہے کہ دُنیا کی آبادی میں ہر سال ستّر کروڑ افراد کا اضافہ ہو رہا ہے ۔آبادی میں اس تیزی سے اضافہ کی وجہ سے مسائل بھی بہت بڑھتے چلے گئے۔ دُنیا کی آبادی میں اضافے کا سبب تین انقلابات ہیں۔ پہلا انقلاب ٹیکنیکل ، دُوسرا ایگری کلچرل اور تیسرا صنعتی انقلاب۔ اب تقریباً تمام سائنس دانوں، ماہرین اور دانشوروں کا کہنا ہے کہ آبادی میں اس قدر اضافے کی وجہ سے کرّۂ اَرض کی سلامتی کو خطرہ درپیش ہے۔ زمین پر انسان کو، قدرتی ماحول، جنگلی حیاتیات، سمندری حیاتیات، نباتیات کو انسان ہی سے خطرہ ہے کیونکہ انسان نے حرص و ہوس کے نشے میں سب کچھ اَبتر کر کے رکھ دیا ہے اس کے باوجود اس کی ہوس فروغ پاتی جا رہی ہے۔

انسان خواہ جو بھی زبان بولتا ہو، کسی بھی مذہب کا پیروکار ہو، کسی بھی نسل یا ملک سے تعلق رکھتا ہے اکثریت کے پاس کھانے کے لئے روٹی نہیں، پینے کے لئے پانی نہیں، تن ڈھانپنے کے لئے کپڑے نہیں، بیماری کی صورت میں دوا نہیں، بچّوں کو تعلیم نہیں، رہائش کے لئے چھت نہیں، کروڑوں انسان ان بنیادی سہولیات کے لئے ترس رہے ہیں۔ کبھی خشک سالی، کبھی سیلاب، کبھی دہشت گردی، کبھی ریاستی جبر اور ناانصافی کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔ عالمی ادارۂ صحت کی جانب سے حال ہی میں تمام حکومتوں کو ارسال کی جانے والی اپیل میں کہا گیا ہے کہ ’’ہمیں عالمی سطح پر پوری سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے کہ صحت عامہ کا شعبہ بنیادی شعبہ ہے اس پر حکومتوں کو کثیر رقومات خرچ کرنے کی ضرورت ہے یہ انسانی صحت کے لئے سرمایہ کاری کے مترادف ہے۔ بیشتر ممالک دہشت گردی کے خاتمے کے عنوان سے بڑی بڑی رقومات صرف کر رہی ہیں۔ سیکورٹی کے حوالے سے کثیر رقم بجٹ میں مختص کی جا رہی ہے مگر صحت عامہ کے حوالے سے زیادہ تر حکومتیں سنجیدہ دکھائی نہیں دیتی ہیں۔

دُنیا میں وبائی امراض سے بہت زیادہ اموات ہوتی رہی ہیں۔ حالیہ کووڈ۔اُنیس نے پوری دُنیا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اقوام متحدہ کے تمام اراکین ممالک کو اب کورونا وائرس سے سبق حاصل کرتے ہوئے اگلے دس برس 2030ء تک وبائی امراض کی روک تھام کے لئے تحقیق کا عمل تیز کیا جائے۔ اس کے لئے خصوصی فنڈز قائم کئے جائیں۔ اس ضمن میں کوئی شارٹ کٹ نہیں ہے۔ اقوام عالم کو بطور خاص ترقّی یافتہ ممالک کو اپنے اور دیگر ممالک کے عوام کی زندگیوں کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے ضروری اقدام کرنا ہوں گے، کیونکہ وبائی امراض سرحدوں سے بے نیاز اپنے پر پھیلاتے ہیں۔ یہ عالمی مسئلہ ہیں۔‘‘

اس کے علاوہ اہم بات یہ کہ اَسّی کے عشرے کی برازیل کی پہلی ماحولیات کی سربراہ کانفرنس سے لے کر گزشتہ پیرس کی ماحولیات کی سربراہ کانفرنس اور عالمی معاہدوں کے مطابق اس کرّۂ اَرض پر موجود تمام حیاتیات پسماندگی کی طرف مائل ہے۔ ہم زمین کے تمام قدرتی وسائل کو ختم کررہے ہیں، ماحول کو بُری طرح آلودہ کر رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے موسمی تبدیلیاں رُونما ہو رہی ہیں۔ زمین سُرخ ہو چکی ہے۔ انسان آخری سرحد تک آ گیا ہے۔ مزید قدرتی وسائل کی فراہمی کی گنجائش بہت کم ہو چکی ہے۔ قدرتی ماحول بہت بگڑ چکا ہے۔ کرّۂ اَرض پر قدرتی آفات اور وبائی امراض کے حملے ہو رہے ہیں اور ہم اپنی دُھن میں مگن ہیں۔

سمندری ماحولیات کے ماہرین کا دعویٰ ہے کہ 2050ء تک سمندر میں مچھلیوں کی جگہ پلاسٹک کے کوڑے کچرے کے ڈھیر ملیں گے۔ پلاسٹک کی بوتلیں، تھیلیاں اور دیگر اشیاء سمندر کی نذر کی جاتی ہیں جس سے سمندری آلودگی میں بے تحاشہ اضافہ ہو رہا ہے۔ 1970ء سے 2015ء تک پینتالیس برسوں میں 60 فیصد سے زائد جنگلی حیاتیات ہلاک ہو چکی ہیں۔ بیشتر جانوروں اور پرندوں کی نسلیں ختم ہو چکی ہیں۔ اس کی بڑی وجہ جنگلی حیاتیات کی خرید و فروخت کی بڑی بڑی مارکیٹیں ہیں جہاں زیادہ جانور اسمگلنگ کر کے ان مارکیٹوں میں فروخت کئے جاتے ہیں۔

جس کی وجہ سے ایک طرف جنگلی حیاتیات کو خطرہ ہےاور دُوسری طرف ان کی وجہ سے وبائی امراض کا خطرہ ہے۔ ایمیزون کے باراتی جنگلات 9 ہیکٹڑ جنگلات روزانہ تباہ کئے جاتے ہیں۔ بستیاں بسانے کے لئے جنگلات صاف کئے جاتے ہیں ان کی لکڑی تعمیرات سمیت دیگر بے شمار اشیاء تیار کرنے میں کام آتی ہے۔ ایشیا اور افریقہ میں آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ پینے کا پانی نایاب ہوتا جا رہا ہے۔ بازار سے بوتلیں خرید کر پانی پیا جا رہا ہے۔ صحت عامہ کے مسائل آبادی کے ساتھ ساتھ بڑھتے جا رہے ہیں۔ ترقّی پذیر ممالک میں یہ صورت حال زیادہ خراب ہوتی جا رہی ہے۔

دُنیا کی نصف کے قریب آبادی روزانہ پانچ ڈالر پر گزارہ کرتی ہے۔ نو سو ملین افراد ناخواندہ ہیں۔ ستّر کروڑ سے زائد افراد بھوکے سوتے ہیں۔ بے روزگاری میں اضافہ ہو رہا ہے، کیونکہ آبادی کی شرح میں اضافہ کے ساتھ روزگار کے مواقع میسّر نہیں ہیں۔ خوراک اشیاء خوردونوش میں کمی ہو رہی ہے۔ بازار اور منڈیوں میں قیمتوں میں عدم استحکام ہے۔ عوام مہنگائی سے شدید پریشان ہیں۔ موسمی تبدیلیوں سے طوفانی بارشیں، سیلاب، حدّتِ زمین میں اضافہ ہو رہا ہے۔ علاقائی تنازعات نے لاکھوں افراد کی زندگی جہنم بنا دی ہے۔ امیری اور غریبی میں فاصلے بڑھتے جا رہے ہیں اس پر ستم یہ کہ کہیں نسلی، کہیں قبائلی، کہیں لسانی اور کہیں مذہبی تعصبات نے دُنیا میں اَبتری پھیلا رکھی ہے۔

دُنیا کے زیادہ تر دانشور، ماہرین جو انسان دوستی کا بھرم رکھتے ہیں ان سب کا مطالبہ ہے کہ دُنیا جس طرح چل رہی تھی اب آگے نہیں چل سکتی، دُنیا میں بہت کچھ بدلائو آ گیا ہے۔

اس وقت پوری دُنیا پر کووڈ۔اُنیس کا ڈیرہ ہے مگر اس وائرس سے قبل کی دُنیا کے منظرنامے پر نظر دوڑائیں تو ہمیں تمام برّاعظموں میں کہیں نہ کہیں سے دُھواں اُٹھتا دکھائی دیتا تھا۔ فرانس میں طویل مظاہرے ہوئے، گھیرائو جلائو کا سلسلہ دراز تھا، برطانیہ میں یورپی یونین کا حصہ رہنے یا نہیں رہنے کے مسئلے پر شدید بے چینی اور شدت پسندی دکھائی دے رہی تھی، افریقہ کے بیشتر ممالک میں غربت، بھوک، پسماندگی،بیروزگاری، خانہ جنگلی، خشک سالی عام ہے۔ ان ممالک کے حکمراں طبقات غیرملکیوں کے ساتھ اپنے قدرتی وسائل کے بڑے بڑے معاہدہ کر لیتے ہیں جس کے عوض ان کو اربوں ڈالر مل رہے ہیں مگر غریب عوام تک اس کے فوائد نہیں پہنچتے۔ تمام بڑی بڑی رقومات سیاستدانوں، اعلیٰ فوجی اور سول افسران کی جیبوں میں چلی جاتی ہیں۔

کرّۂ اَرض پر آبادی کا دبائو، قدرتی وسائل کا بُری طرح استحصال اور آلودگی میں زبردست اضافہ سے انسانیت اور تمام حیاتیات کو زبردست خطرات لاحق ہیں۔

چین میں ہرچند کہ چینی کمیونسٹ پارٹی کی حکومت جو اشتراکیت پر یقین رکھنے کی دعویدار ہے مگر وہ بھی جدید سرمایہ دارانہ نظام کی اب سب سے بڑی داعی بن کر اُبھری اور افریقہ کے غریب ممالک، حکومتوں اور وہاں کی کرپٹ اشرافیہ کو بڑی بڑی رقومات دے سکی، قرضے دے کر ان کے قیمتی قدرتی وسائل تک دسترس حاصل کرتی جا رہی ہے۔ شمالی افریقی ممالک جس میں مصر، لیبیا، تیونس، الجزائر، مراکش اور سوڈان شامل ہیں وہاں کرپشن، جمہوری حقوق اور سیاسی اقتدار کی جنگ کا سلسلہ دراز رہا۔ کچھ ایسا ہی منظرنامہ جنوبی امریکہ کے ممالک کا ہے۔ برازیل جو خطے کا بڑا ملک ہے وہاں کی حکومت کے خلاف مظاہرے ہوتے رہے۔ وہاں بھی کرپشن، مہنگائی اور غربت نے پورے معاشرے کو اُلٹ کر رکھ دیا ہے۔ اس ملک کے قیمتی قدرتی وسائل اور ہنرمند افراد کا ملٹی نیشنل استحصال کر کے اپنے منافع کو کئی گنا بڑھا چکے ہیں مگر عوام کے پیٹ خالی ہیں۔ اس وقت دُنیا کی تین ارب کے قریب آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے جو پندرہ سے پچیس سال کی عمر کے ہیں۔ یہ نوجوان اور طلبہ سراپا احتجاج ہیں۔

گزشتہ دنوں یورپ کے نوجوانوں اور نوعمر طلبہ نے بھی مظاہرے کئے تھے اس کی وجہ غربت، روزگار، افراط زر، مہنگائی اور دُنیا میں موسمی تبدیلیاں اور ماحولیاتی مسائل کے خلاف تھے۔ ان مظاہروں نے پچھلے دنوں عالمی رہنمائوں کو حیران اور ششدر کر دیا تھا۔ ان کا بڑا مدعا یہ تھا کہ اس دُنیا کو آلودگی سے پاک کرو اس کا مطلب ہے قدرتی ماحول کو پاک کرو، ملک کے سیاسی نظام کو پاک کرو، سماجی اور معاشرتی برائیوں کوبھی پاک کرو، ناانصافی پر مبنی نظام کوبھی پاک کرو، دُنیا کو نئی اجارہ دار سرمایہ داری نظام نے عوام کو مختلف مسائل اور مفروضات میں اُلجھا رکھا ہے۔ قانون سے لے کر تعلیم، انتظامی اُمور سے لے کر مذہبی اُمور تک پر اجارہ دار اشرافیہ اور سیاستدانوں کا قبضہ ہے۔ عوام محض تماشائی ہیں۔

دُنیا کے زیادہ تر فلسفی، دانشور، ماہرین جو انسان دوستی کا بھرم رکھتے ہیں ان سب کا مطالبہ ہے کہ دُنیا جس طرح چل رہی تھی اب آگے نہیں چل سکتی، دُنیا میں بہت کچھ بدلائو آ گیا ہے۔ یورپی قوتوں کی نوآبادیات ختم ہوئیں تو اس کی جگہ نیم نو آبادیاں اور نیم آزاد ریاستیں وہ بھی اپنے مفادات کے تابع بنا کر انہیں آزادی عطا کر دی۔ مگر یہ غریب ملکوں کی آزادی ایک سراب کے مانند تھی۔ مغربی ممالک کی بڑی صنعتی تجارتی اور سرمایہ کار کمپنیوں نے پھر نوآبادتی طریقہ کو قدرے الگ انداز سے استحصال کرنا شروع کیا۔ قدرتی وسائل غریب ممالک کے ان کا منافع غیرممالک کے بینکوں میں۔

اب عالمی سطح پر دانشوروں اور سیاسی رہنمائوں کی طرف سے یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ دُنیا کو ایک نئے عمرانی معاہدے یعنی نیو سوشل کنٹریکٹ کی ضرورت ہے۔ انسان نے انسان کے استحصال کی تمام حدیں پار کرلی ہیں۔ اس کے ساتھ ان اجارہ داروں نے کرّۂ اَرض کو بھی نہیں بخشا، اس کا بھی بے دریغ استحصال کیا اور کر رہا ہے۔ ورلڈ اکنامک فورم، ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن اور اقوام متحدہ سب نمائشی ادارے ثابت ہوئے۔ امیر ترین افراد کا کلب ہیں۔ جن کے بنائے ہوئے وائرس میں عوام اُلجھے رہے اب وقت آ گیا ہے کہ دُنیا کے انسان دوست طبقے ان کے رہنما ایک نئ سماجی معاہدہ کی تشکیل کریں جس میں انسان کو انسان تصور کیا جائے اس کی بنیادی ضروریات پوری ہو سکیں۔ اس کے علاوہ انسانیت اور اس کرّۂ اَرض کی بقا کا دوسرا کوئی راستہ نہیں ہے۔ دُنیا آبادی کا مزید دبائو برداشت نہیں کر سکتی، کرّۂ اَرض مزید قدرتی وسائل، جنگلی حیاتیات اور نباتیات کا استحصال برداشت نہیں کر سکتی۔ غیرمنصفانہ، غیرمساویانہ اور غیرانسانی نظام میں زندگی گزارنا ممکن نہیں ہے۔ تبدیلی اب ضروری ہے۔

قدرتی وسائل کا استعمال اور استحصال کا اندازہ اس جائزہ سے لگایا جا سکتا ہے، فی الفور دُنیا کووڈ۔اُنیس کے وائرس سے دوچار ہے۔ لاک ڈائون ہے، قدرتی وسائل کا استعمال کم ہو رہا ہے مگر ایک پسنجر طیارہ دس گھنٹے اُڑان بھرتا ہے تو وہ چھتیس ہزار گیلن تیل خرچ دیتا ہے۔ امریکی دفاتر کی ایک بلڈنگ اوسطاً بائیس ہزار گیلن پانی صرف کرتی ہے جبکہ امریکہ میں 5.6 ملین دفاتر ہیں۔

امریکہ میں ایک ہائی وے کی ایک میل تعمیر میں تیس ہزار ٹن روڑی اور پتھر استعمال ہوتے ہیں۔ امریکہ میں چالیس ملین میل ہائی ویز ہیں۔ نیم پختہ اور مٹی کی سڑکیں بھی ہیں جن کی تعداد بہت زیادہ ہے اس میں روڑ، ریت اور بجری کا استعمال کیا جاتا ہے۔

امریکہ ہر سال دُنیا کے نوّے فیصد وسائل استعمال کرتی ہے جبکہ باقی دُنیا دس فیصد صنعتی وسائل استعمال کرتی ہے۔ ان قدرتی وسائل میں سب سے زیادہ جو وسائل استعمال ہو رہے ہیں ان کی تعداد 6 ہے۔ جیسے سینڈ یا ریت جو سمندروں کے کنارے پائی جاتی ہے اس کو تعمیرات میں بے تحاشہ استعمال کیا جاتا ہے۔ اس سے شیشہ تیار ہوتا ہے، صنعتی اشیاء میں بے تحاشہ استعمال ہوتا ہے کنویں کا پانی سب جگہ استعمال ہوتا ہے۔ چین میں اب اسّی فیصد کنوئیں خشک ہو چکے ہیں۔ میکسیکو، مشرق وسطیٰ اور دیگر افریقی ملکوں میں بھی یہی صورتحال ہے۔ بھارت میں ہزاروں کنوئوں کا پانی استعمال ہوا ان میں سے زیادہ خشک ہورہے ہیں۔

جنوبی ہند کے صوبے کرناٹک، تامل ناڈو میں پانی کی شدید قلت ہو چکی ہے۔ پام آئل کھانے میں بہت زیادہ استعمال ہوتا ہے۔ سب سے زیادہ تیل ملائیشیا پیدا کرتا ہے۔ مگر اب طلب دُگنی سے زیادہ ہوگئی ہے۔ کھانے پینے کے علاوہ صنعتی اشیاء میں بھی اس کا بہت استعمال ہے جیسے روٹی، صابن، چاکلیٹ اور لپ اسٹک سمیت درجنوں دیگر اشیاء ہیں۔

دُنیا کے بارانی علاقوں میں نصف سے زائد جنگلات کا صفایا کر دیا گیا ہے۔ ایک سروے کے مطابق دُنیا میں ایک منٹ میں پانچ ہزار درخت کاٹ دیئے جاتے ہیں۔ لکڑی بازار میں بک جاتی، غریب لوگ اس سے اپنے نشیمن بنا لیتے ہیں۔ جنگلات کی کٹائی کے بعد طوفانی سیلابی ریلے شہروں اور قصبوں کو بہا لے جاتے ہیں کیونکہ پانی ڈھلان سے نیچے آتا ہے تو اس میں بہت طاقت ہوتی ہے اس لئے ہزاروں درخت سیلاب کی نذر ہو جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ مٹی کے تودے گرنے لگتے ہیں کیونکہ رُکاوٹ ختم ہو جاتی ہے۔ مٹی یا سوائل انسان کی زندگی میں بنیادی حیثیت رکھتی ہے مگر انسان نے مٹی کو برباد کرنا شروع کر دیا ہے جبکہ معلوم ہونا چاہئے کہ ایک سینٹی میٹر مٹی کو تیار ہونے میں ہزار سال درکار ہوتے ہیں۔

عالمی ادارہ ماحولیات کے جائزے کے مطابق دُنیا نے کرّۂ اَرض کی ایک تہائی زمین کو برباد کر دیا ہے۔ کرّۂ اَرض کا اچھا زمینی ٹکڑا ڈیڑھ سو سال بعد تباہ ہو جائے گا۔ اس کی وجہ تعمیرات بے تحاشہ ہو رہی ہیں سب سے زیادہ پیسہ سی میں ہے۔ تعمیرات کے علاوہ صنعتی استعمال، سمندروں میں مہلک سمندری فضلا کا بہائو، سمندر کے ساحلوں کا کٹائو جس سے زمین کم ہوتی جا رہی ہے۔ یہ زمین ہی ہے جو نوے فیصد سے زائد اناج سبزیاں پھل وغیرہ ہمیں کھلا رہی ہے مگر اب بتدریج اس کی طاقت میں کمی آ رہی ہے۔ زراعت کے لئے زیادہ پیداوار کے لئے انسان نے مصنوعی کھاد، کیڑے مکوڑوں کو مارنے والی دوائیں، دیگر کیمیاوی اجزا اس میں داخل ہو کر اس کی قوت کم کرتے جا رہے ہیں اور اس طریقہ زراعت سے کھانے والی اشیاء لوگوں کو نت نئی بیماریوں کی وجہ بن رہا ہے۔

قدرتی تیل اور گیس کے ذخیرے مختلف ممالک کے پاس ہیں جن سے وہ اپنے کارخانے چلا رہے، انجن چلا رہے، ہوائی جہاز اُڑا رہے، پانی کے ہزاروں جہاز چوبیس گھنٹوں سمندر میں نقل و حمل کرتے نظر آتے ہیں، سڑکوں پر کاروں کا، دیگر گاڑیوں کا اژدھام نظر آتا ہے۔ تیل کا استعمال 99 ارب بیرل تیل ہے۔ 25 ٹن قدرتی کوئلہ اور 10.5 کیوبک میٹر قدرتی گیس ہم جلا دیتے ہیں۔ ان سرگرمیوں کی وجہ سے دُنیا سے تقریباً پچاس لاکھ افراد مختلف بیماریوں کی نذر ہو کر ہلاک ہو جاتے ہیں۔ پھیپھڑوں کے امراض، گردوں کی بیماریوں اور مختلف کیسز کا شکار ہو جاتے ہیں۔

یہ زمین ہی ہے جو ہمیں پانی، کوئلہ، قدرتی گیس، تانبا، درخت لکڑی، فاسفورس، جپسم، سونا، چاندی، جواہرات، یورینیم، پلوٹینیم اور اس نوعیت کی درجنوں قیمتی معدنیات سے نوازتی آ رہی ہے۔ اگر انسان جاری رفتار سے آبادی میں اضافہ کرتا چلا گیا اور کرّۂ ارض کے قیمتی خزانوں کو اسی طرح لوٹتا رہا تو اس کرّۂ اَرض پر انسانی زندگی اور دیگر حیاتیات کی بقا شدید خطرات سے دوچار ہو سکتی ہے۔ تاہم تباہی اثرات بتدریج نمایاں ہونا شروع ہو چکے ہیں۔ اس تناظر میں اگر ہم پاکستان میں آبادی کے حقیقی اوسط کا اندازہ کریں تو ملک میں آبادی میں اضافے کا درست اوسط 3.7 فیصد ہے جبکہ سرکاری اعداد و شمار کم بتائے جاتے ہیں۔

ملک میں آبادی میں اضافے کی سب سے بڑی وجہ تعلیم کا فقدان ناخواندگی ہے۔ تعلیم کا یا خواندگی کا اوسط سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 63 فیصد ہے جبکہ حقیقی اوسط بہت کم ہے۔ سرکاری سطح پر دستخط کرنے والے کوبھی تعلیم یافتہ خواندہ شمار کیا جاتا ہے۔ 2016ء میں پاکستان انسانی ترقّی کے گراف پر 150ویں نمبر پر تھا۔ آبادی میں اضافہ اور معیار زندگی پست ہونے کی وجہ سے ملک میں ملیریا، ڈینگی بخار، پولیو عام ہیں۔ ملک کے بیشتر علاقوں میں ایڈز کے مریض بھی خاصی تعداد میں ان سب کے علاوہ ملک میں منشیات کا استعمال بھی بڑھتا جا رہا ہے۔ نت نئی نشہ آور اشیاء فروخت ہو رہی ہیں مگر انتظامیہ تماشائی بنی ہوئی ہے۔

دُنیا میں آبادی میں اضافہ کا دبائو خطرناک حد تک بڑھتا جا رہا ہے۔ سن 1800 میں دُنیا کی مجموعی آبادی ایک ارب افراد پر مشتمل تھی اب 2020ء میں سات اَرب اَسّی کروڑ ہے۔ اس کرّۂ اَرض پر آبادی کا دبائو، قدرتی وسائل کا بُری طرح استحصال اور آلودگی میں زبردست اضافہ سے انسانیت اور تمام حیاتیات کو زبردست خطرات لاحق ہیں۔