بین الافغان مذاکرات

September 27, 2020

افغانستان سے غیر مُلکی افواج کے انخلا کے لیے فروری میں امریکا، طالبان معاہدے کے بعد، افغانستان کے مستقبل کے سیاسی نظام کے لیے قطر میں بین الافغان مذاکرات شروع ہوچُکے ہیں ۔ 12ستمبر 2020ء کو مذاکرات کے آغاز کے بعد طالبان اور افغان حکومت کی مذاکراتی ٹیموں نے مشترکہ کمیٹیاں بناکے ایجنڈے کی تیاری،نظام الاوقات اور دیگر اصول طے کرنے کے لیے مشورےشروع کر دئیے ۔ 15ستمبرکو مذاکرات کا باقاعدہ آغازہونے پر طالبان مذاکراتی ٹیم کے سربراہ، شیخ عبدالحکیم نے کہا کہ’’ افغان اپنے مسائل خود حل کریں،کوئی غیر ملکی افغانوں کے معاملات میں مداخلت نہ کرے۔ اور کسی کو بھی اجازت نہیں دی جائے گی کہ وہ افغان سرزمین کودوسروں کی امن و سلامتی کی خرابی کا مرکز بنائے۔

نیز، طالبان، افغانستان پر اجارہ داری کے خواہاں ہر گز نہیں، بلکہ تمام افغانوں پر مشتمل ایک وسیع البنیادمرکزی اور اسلامی حکومت کا نفاذ چاہتے ہیں۔‘‘ یاد رہے، طالبان قیدیوں کی رہائی کے مسئلے پر اختلافات کے سبب طالبان اور افغان حکومت کے درمیان مذاکرات چھےماہ کی تاخیر سے شروع ہوئے ہیں، لیکن پاکستان سمیت پوری دنیا افغان مسئلےکے حل کے لیے ان مذاکرات کو تاریخی قرار دے رہی ہے۔ مذاکرات سے متعلق عمومی تاثر ہے کہ یہ بہت مشکل اور طویل ہوسکتے ہیں اور یہ خدشات کافی حد تک درست بھی ہیں کہ یہ ایک پیچیدہ مسئلہ ہے۔

طالبان کے سیاسی دفتر کے سربراہ، ملّا عبدالغنی برادربین الافغان مذاکرات کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے

بین الافغان مذاکرات میں شرکت سے قبل امریکی وزیرِ خارجہ، مائیک پومپیو نے بھی کہا تھا کہ’’ مذاکرات پیچیدہ ہوں گے۔‘‘ تاہم، ان کا خیال تھا کہ افغانوں کا آپس میں مِل بیٹھنا ایک بڑی پیش رفت ہے۔ افغان حکومت کے لیے اس وقت سب سے اہم معاملہ جنگ بندی کا ہے، کیوں کہ مذاکرات کے باوجود طالبان اور حکومتی فورسز کےایک دوسرے پر حملے جاری ہیں، جب کہ حکومت کی جانب سے طالبان پر حملے تیز کرنے کے الزامات بھی لگائے جا رہے ہیں۔اس حوالے سےطالبان کا موقف ہے کہ وہ تو بس حکومتی حملوں کا جواب دیتے ہیں۔ مذاکرات کے لیے بنائی گئی اعلیٰ مصالحتی شوریٰ کے سربراہ، ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے مذاکرات کے افتتاحی اجلاس سے خطاب میں کئی مرتبہ طالبان سے جنگ بندی کی اپیل کی۔

تاہم، طالبان کے سیاسی دفتر کے سربراہ، ملّا عبدالغنی برادر نے اپنی تقریر میں جنگ بندی کا کوئی عندیہ نہیں دیا۔ البتہ، انہوں نے یقین دلایا کہ مذاکرات میں افغان عوام کوپُر امن زندگی گزارنے کاموقع فراہم کیا جائے گا۔ ملّا برادر نے عالمی برادری کو مذاکرات نتیجہ خیز بنانے کی یقین دہانی کروائی۔ تاہم،ان دعووں کی سچائی مذاکرات کے دوران ہی معلوم ہوسکے گی۔دوسری جانب، طالبان جنگ کو حکومت پر دباؤ برقرار رکھنے کا مؤثر ذریعہ سمجھتے ہیں۔ ایک طالبان رہنما سے جب جنگ بندی سے متعلق پوچھا گیاتو اُس کا کہنا تھا کہ’’ عمومی جنگ بندی کے بعد طالبان کے لیے جنگجوؤں کو دوبارہ منظّم کرنا ایک مشکل کام ہوگا۔‘‘ تاہم، طالبان یقین دلاتے ہیں کہ29فروری کو قطر میں طالبان ، امریکا معاہدے کے تحت جنگ بندی ،بین الافغان مذاکراتی ایجنڈے میں شامل ہوگی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا طالبان اتنی آسانی سے یا غیر مشروط طور پر جنگ بندی کا اعلان کردیں گے؟کیوں کہ یہ ان کےلیے ایک مشکل فیصلہ ہے، لیکن اس بات سے انکار بھی ممکن نہیں کہ طالبان کی جانب سے عارضی جنگ بندی کا اعلان بھی اعتماد سازی کے لیے ایک بڑا اقدام ہوگا۔

ڈاکٹر عبداللہ نے ’’انسان دوست جنگ بندی‘‘ کی اپیل کی تھی تاکہ جنگ سے متاثرہ اور دُور دراز علاقوں کو حکومتی امداد پہنچائی جاسکے۔موسمِ سرما میں افغانستان، بالخصوص شمالی اور کئی مشرقی علاقوں میں بہت سے دشوار گزار استے بند ہوجاتے ہیں ، اس لیےجنگ بندی انتہائی ضروری ہے۔ اس بات کا زیادہ امکان ہے کہ طالبان جنگ بندی کے لیے ایسی شرائط رکھیں، جو حکومت کے لیے ناقابلِ قبول ہوں۔ اس بات کا بھی قوی امکان ہے کہ طالبان، صدر اشرف غنی کے استعفے اور ایک عبوری حکومت کا مطالبہ کردیںکہ وہ ویسے بھی غیر ملکی افواج کی موجودگی میں انتخابات یا کوئی اور فیصلہ قبول کرنے پر آمادہ نہیں۔ یہاں یہ امر بھی توجّہ طلب ہے کہ مذاکرات کے باوجود جنگ جاری رہنا عوام کے لیے مایوس کن ہے، کیوں کہ اب اس جنگ میں دونوں جانب سے افغانوں ہی کی جانیں ضایع ہو رہی ہیں۔

بین الافغان مذاکرات میں آئندہ کے ملکی نظام پر بھی اختلافات کا امکان ہے،طالبان رہنماؤں کا اصرار ہے کہ وہ افغانستان میں ایک خالص اسلامی نظام چاہتے ہیں،کیوں کہ اُن کی مسلّح مزاحمت کا بنیادی مقصدہی مُلک سےغیر ملکیوں کو نکال کر اسلامی نظام نافذ کرنا ہے۔اس ضمن میں افغان حکومتی اور سیاسی رہنماؤں کا موقف ہے کہ افغانستان کا آئین اسلامی ہے اور اسلام کے خلاف کوئی قانون بن ہی نہیں سکتا، جب کہ طالبان پورے نظام میں اصلاحات کے حامی ہیں ۔البتہ، افغانوں کی اکثریت گزشتہ19برسوں میں معرضِ وجود میں آنے والے جمہوری نظام، پارلیمنٹ، آئین، میڈیا کی آزادی، خواتین کی تعلیم، دیگر انسانی حقوق، اورتقریباً ساڑھے تین لاکھ فوج، پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں پر کوئی سمجھوتا کرنے کو تیار نہیں ۔

طالبان،صدر اشرف غنی کی حکومت تسلیم نہیں کرتے، انہوں نےبین الافغان مذاکرات کے آغاز سے ایک دن پہلے اپنی ویب سائٹ پر ایک مضمون میں اپنا مؤقف دُہرایا کہ’’ کابل کی موجودہ حکومت غیر ملکیوں کی موجودگی میں بنی اور ہم اسے تسلیم نہیں کرتے۔ حکومتی حیثیت کے بارے میں ہمارے مؤقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔‘‘ ان حالات کے پیشِ نظر اس بات کا قوی امکان ہے کہ طالبان ایک عبوری حکومت کا مطالبہ کریں، جوکہ صدر غنی اور ڈاکٹر عبداللہ سمیت دیگر رہنماؤں کے لیے قابلِ قبول نہ ہو۔طالبان کاکابل میں موجودہ نظام کے بارے میں پہلےموقف سخت تھا، اب وہ نظام میں اصلاحات کا مطالبہ تو کرتے ہیں، لیکن ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ نظام سے متعلق انہیں عوام کی اکثریت کا فیصلہ منظور ہوگا۔

افغانستان کی اعلیٰ قومی مصالحتی شوریٰ کے سربراہ، ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ بین الافغان مذاکرات کے افتتاحی اجلاس میں شریک ہیں

اسے طالبان کے موقف میں کسی حد تک لچک بھی کہا جا سکتا ہے۔طالبان سمجھتے ہیں کہ انہوں نے 19 سال پہلے تقریباً ڈیڑھ لاکھ غیر ملکی افواج کے خلاف مسلّح مزاحمت کا آغاز کیا تھا اور ان کی مزاحمت ہی کا نتیجہ ہے کہ امریکا ان سے مذاکرات کے لیے راضی ہوا ۔ 18مہینوں کے مذاکرات کے بعد امریکا رواں سال فروری میں ہونے والے معاہدے میں تمام غیر ملکی افواج کے افغانستان سے انخلا پر آمادہ ہوا۔ اسی تناظر میں طالبان کایہ بھی کہنا ہے کہ وہ اپنے زیرِ انتظام علاقوں کو امریکا، ان کے اتحادیوں یاکسی بھی مُلک کے خلاف استعمال کی اجازت نہیں دیں گے۔ طالبان اگر نظام کا حصّہ بنتے بھی ہیں، تب بھی وہ کسی کو افغان سر زمین دوسرے ممالک کے خلاف استعمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔

امریکا ، طالبان معاہدے کے بعد اب افغان مسئلے کا حل افغانون کے سپرد ہے کہ وہ کتنی جلدی افغانستان کو 40 سال سے جاری جنگ کی آگ سے نکالتے ہیں۔طالبان سمیت تمام افغان سیاسی، مذہبی رہنماؤں اور سابق مجاہدین کے لیے یہ انتہائی اہم موقع ہے کہ سب اس پر اتفاق کریں کہ وہ آئندہ کسی بھی مُلک کی فوجی مداخلت کے خلاف متّحد ہوں گےاور بیرونی مداخلت کی حمایت کو قانونی طور پر غدّاری قرار دیں گے۔ سابقہ سویت یونین(روس) اور امریکا کی قیادت میں نیٹو کی فوجی مداخلت نے نہ صرف لاکھوں افغانوں کی جانیں لی، بلکہ اس جنگ نے پاکستان سمیت پورےہی خطّے کومتاثر کیا ۔

طالبان ،امریکا کے معاہدے کا پہلا مرحلہ14جولائی کو مکمل ہوا ،جس میں امریکا نے معاہدے کے تحت فوجیوں کی تعداد 13,000سے کم کرکےتقریباً 8000 تک کر دی ، اس حوالے سے امریکی حکاّم کا کہنا ہے کہ’’ نومبر میں امریکی فوجیوں کی تعداد 4,500تک کر دی جائے گی۔‘‘3نومبرکو امریکا میں صدارتی انتخابات ہورہے ہیں اور صدر ڈونلڈ ٹرمپ بین الافغان مذاکرات کو بنیاد بنا کر مزید فوج کم کریں گے۔اس پالیسی کو انتخابات میں حمایت حاصل کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے کہ وہ امریکا کو جنگوں سے نکال رہے ہیں۔ امریکا میں ہونے والے ایک تازہ سروے کے مطابق ’’ دو تہائی افراد نے صدر ٹرمپ کے طالبان کے ساتھ معاہدے کی حمایت کی ہے، تاکہ امریکا کی طویل ترین جنگ کا خاتمہ ہو سکے۔‘‘ نیویارک کے یوریشیا گروپ فاؤنڈیشن کے سروے میں ٹرمپ کے مخالف امیدوار، جو بائیڈن کے 60فی صد حامی بھی امریکا ، طالبان معاہدے کے حامی ہیں، جس کا مطلب ہے کہ امریکی، اپنی افواج کی افغانستان سے واپسی کی حمایت کرتے ہیں۔

پاکستان نے افغان عمل میں سہولت کاری سے متعلق کسی حد تک خاموش سفارت کاری کی پالیسی اختیارکی ہے ،جو ماہرین کی نظر میں ایک درست فیصلہ ہے۔ افغان اُمور سے متعلق ایک اعلیٰ عہدے دار کا کہناہے کہ’’ پاکستان خود ان ممالک کی فہرست سے نکل گیا ہے، جو بین الافغان مذاکرات کی مختلف نشستوں کی میزبانی کریں گے۔‘‘اس حوالے سےپاکستانی حکّام کا موقف ہے کہ بین الافغان مذاکرات مکمل طور پر افغانوں کا معاملہ ہے ،اپنے سیاسی مستقبل کے فیصلے کے ساتھ یہ بھی انہی کی مرضی پر منحصرہے کہ مذاکرات کہاں ہونے چاہئیں۔پاکستان نہیں چاہتا کہ مذاکرات کے حوالے سے اُس پر کوئی بھی الزام لگایا جائے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکا کے ساتھ اکتوبر 2018ء میں مذاکرات کا آغاز طالبان کا اپنا فیصلہ تھا، لیکن انہیں مذاکرات کی میز پر لانے میں پاکستانی حکام نے سہولت کاری ضرور کی ۔ اور یہ سہولت کاری اُس وقت بھی سامنے آئی ،جب پاکستان نے امریکی نمائندۂ خصوصی ،زلمے خلیل زاد کی درخواست پر طالبان رہنما ، ملّا عبدالغنی برادر کواکتوبر 2018 ءمیں رہا کردیا۔ جن کو بعد میں طالبان کے امیر نے قطر میں سیاسی دفتر کا سربراہ بنا یا۔ پھر امریکا کے ساتھ معاہدے پر دستخط اور بین الافغان مذاکرات کے افتتاحی اجلاس میں طالبان کی نمائندگی بھی ملّا برادر ہی نے کی۔افغان عمل میں پاکستان کی مدد اور سہولت کاری کوامریکا اورڈاکٹر عبداللہ سمیت کئی افغان رہنما بھی تسلیم کرتے ہیں ۔

نیز، پاکستانی حکام کا بھی کہنا ہے کہ’’ افغانستان کے ساتھ اقتصادی تعلقات کو مزید فروغ دینے،افغان شہریوں، تاجروں، طلبہ اور مریضوں کے لیے ایک آسان ویزا نظام وضع کر دیا گیا ہے۔‘‘افغانستان کے لیے پاکستان کے نام زد سفیر، منصور احمد خان نے کابل جانے سے پہلے ایک خصوصی ملاقات میں بتایا کہ ’’افغان طلبہ، تاجروں اور سرمایا کاروں کو طویل المدتی ملٹی پل ویزے دئیے جائیں گے کہ افغانستان میں نوجوانوں کی اکثریت ہے اور پاکستان کی خواہش ہےکہ افغان نوجوانوں کو سہولتیں دی جائیںاور دونوں ممالک کے نوجوانوں کے ایکسچینج پروگرام بھی شروع کیے جائیں۔اس حوالے سےفغان اُمور سے وابستہ ایک حکومتی اہل کار کا کہنا ہے کہ ’’طورخم سرحد پر افغان مریضوں کی آمد پر ویزے دینے کا بھی اصولی فیصلہ ہوگیا ہےاورافغان شہریوں کے لیے ہر ماہ طورخم سے لازمی خروج اور دخول ختم کیے جانے کی تجویز بھی زیرِ غور ہے۔‘‘

یاد رہے، سابق افغان صدر، حامد کرزئی اور حزبِ اسلامی کے سربراہ ،گُل بدین حکمت یاربھی بین الافغان مذاکرات میں کسی بھی مُلک کی شرکت کے مخالف ہیں۔حکمت یار نے کابل میں ہمیں ایک انٹرویو میں بتایا کہ ’’بین الافغان مذاکرات میں کسی بھی مُلک کا بالواسطہ یابلا واسطہ کوئی کردار نہیں ہونا چاہیے، اس میں ان کا اپنا ہی کوئی مفادہوگا۔امریکیوں نے افغانستان پر چڑھائی کے لیے جو اہداف رکھے تھے، 19 سال کی جنگ کے بعد بھی، اُن میں سےایک بھی حاصل نہ کرسکے،لہٰذاطالبان کے تمام مطالبات تسلیم کیےجانے چاہئیں اور انہیں آیندہ نظام کا حصّہ بنانا چاہیے۔‘‘جب کہ سابق صدر، حامد کرزئی نے کابل میں اپنی رہائش گاہ پر ایک ملاقات میں کہا کہ ’’امن عمل میں پاکستان نے کردار ادا کیا اور ہم اس بات پرخوش بھی ہیں۔ہم چاہتے ہیں کہ اس ضمن میں پاکستان کا کردار مزید مستحکم ہو، کیوں کہ ہم افغانستان میں پاکستان کے اثرات سے بخوبی آگاہ ہیں، تو اگر یہ اثرو رسوخ افغانستان کی خوش حالی کے لیے استعمال ہوتو ہمارے لیے انتہائی خوشی کی بات ہوگی۔‘‘ پھر افغانستان کے قائم مقام وزیر خارجہ، حنیف اتمر نے بھی جولائی میں دئیے گئے ایک بیان میں کہا تھا کہ’’مذاکرات کے لیے قطر کے علاوہ 11ممالک نے میزبانی کی پیشکش کی ہے، جس میں چین،روس، ترکی، ایران، جاپان، ازبکستان، جرمنی، ترکمانستان، قازقستان،انڈونیشیا اور ناروے شامل ہیں۔‘‘بہر حال وزیر اعظم عمران خان کے علاوہ پاکستانی وزارت خارجہ اور دیگر حکام کا یہ موقف منطقی ہے کہ افغان رہنماؤں اور طالبان کو مذاکرات کے تاریخی موقعےسے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اب 40سال سے جاری جنگ کا خاتمہ کردینا چاہیے۔

دوسری جانب،بین الافغان مذاکرات سے پہلے جب صدر اشرف غنی نے ڈاکٹر عبداللہ کی قیادت میں ایک اعلیٰ مصالحتی کاؤنسل کی تشکیل کا اعلان کیا تو چند گھنٹے بعد ہی حامد کرزئی نے کاؤنسل میں حصّہ نہ لینے کا اعلان کردیا۔ اس کے علاوہ حکمت یار اور جمعیتِ اسلامی کے سربراہ ،صلاح الدّین ربانی نے بھی شرکت سے معذرت کرلی۔جب کہ حکمت یار نے پارٹی کے اہم رکن، ڈاکٹر غیرت بہیر کو بھی مذاکراتی ٹیم میں شامل ہونے سے روک دیا۔ ہم افغان رہنماؤں کے فیصلوں پر اعتراض کا حق تونہیں رکھتے، لیکن اہم رہنماؤں کی جانب سے امن عمل کے انتہائی حسّاس وقت میں سیاسی مخالفت یقیناًعوام میں مایوسی کا سبب بنے گی۔

طالبان کی مذاکراتی ٹیم کے سربراہ، سخت گیر طبیعت کے حامل؟

طالبان کے سربراہ، شیخ ہیبت اللہ نے جب شیخ عبدالحکیم حقانی کو طالبان کے 21رکنی مذاکراتی ٹیم کا سربراہ مقرّر کیا تو میڈیا رپورٹس میں ان کو ایک سخت مؤقف رکھنے والا عالمِ دین طالبان رہنما کہا گیا۔لیکن جب ہم نے شیخ حکیم کے ایک قریبی ساتھی سے فون پر اُن کی شخصیت کے بارے میں پوچھا تو ان کا مؤقف بالکل مختلف تھا ۔ ان کا کہنا ہے کہ ’’شیخ حکیم جرگوں کا بندہ ، تنازعات حل کرنے والاانسان ہے ، کیوں کہ ماضی میں جب بھی ان کومقامی سطح پر عام لوگوں کے تنازعات ختم کرنے کی ذمّے داری دی گئی، تو اکثر معاملات حل ہوگئے۔‘‘طالبان اہل کاروں نے بتایا کہ’’ امریکا کے ساتھ معاہدے پر دستخط سے پہلے غیر ملکی اور افغان فوجیوں کے ساتھ ایک ہفتے تک حملوں میں کمی کے اعلان، عید کے موقعے پر جنگ بندی اور بین الافغان مذاکرات سے متعلق فیصلوں کی منظوری کا کام شیخ حکیم ہی کے سپرد کیا گیا تھا، تاکہ شریعت کی روشنی میں ان کی رائے لی جائے۔‘‘

شیخ حکیم نے ابتدائی تعلیم اپنے والد، شیخ الحدیث، خدائے داد کے بلوچستان کے علاقے پشین میں ایک مدرسے سے حاصل کی ۔ بعد ازاں، 1980ءمیں دارلعلوم حقانیہ سے دورۂ حدیث مکمل کرکے سند پائی۔ وہ سابقہ سویت یونین کے خلاف حضرت نبی محمّد محمّدی کی حرکتِ انقلاب، اسلامی تنظیم کے پلیٹ فارم سے جہاد میں شریک ہوئے اور بعد میں حزبِ اسلامی خالص گروپ میں شامل ہوگئے۔ جنوبی صوبے قندھار کے پنجوائی ضلعے سے تعلق رکھنے والےشیخ حکیم اس وقت طالبان کے نظام میں ان کے چیف جسٹس ہیں اور طالبان سربراہ کے قریبی اور بااعتماد ساتھی تصوّر کیے جاتے ہیں۔

(مضمون نگار، افغان امور کے ماہر تجزیہ نگار ہیں اور پاکستانی میڈیا کے علاوہ مختلف غیر مُلکی نشریاتی اداروں سے بھی ان کے بے لاگ تجزیے نشر ہوتے رہتے ہیں۔)