ہماری سیاست میں بھانڈ

September 26, 2020

تحریر:واٹسن سلیم گل۔۔۔ایمسٹرڈیم
ایک زمانہ تھا کہ ہمارے اسٹیج ڈراموں میں جگتیں اور فحش مکالمے بہت دیکھے جاتے تھے۔ ڈراموں میں عریانی ڈانس نہ ہوں یا گندے جملے نہ ہوں تو ڈرامہ ناکام سمجھا جاتا تھا۔ یہ وہ وقت تھا جب ہمارے عظیم فنکار بھی پیچھے ہٹنے پر مجبور ہوگئے جن میں محمد قوی، افضال احمد اور سہیل احمد جیسے شہرہ آفاق فنکار شامل تھے۔ ناصر ادیب، بشیر نیاز، پرویز کلیم اورعرفان کھوسٹ جیسے ڈرامے لکھنے اور بنانے والے بھی نظروں سے غائب ہوگئے۔ مگر پھر عوام کو سمجھ آئی کہ ہم اپنی آنے والی نسل کو خراب کر رہے ہیں۔ ان فنکاروں نے ٹی وی پروگرامز میں صاف ستھرا کام شروع کیا اور روٹی روزی کمانے لگے۔ مگرآج کل ان میراثیوں کی جگہ ہمارے چند سیاست دانوں نے پکڑی ہوئی ہے جو بیانات دیتے وقت یہ نہیں سوچتے کہ اس طرح کے بھدے بیانات سے ہمارے سیاست دانوں اور عسکری اداروں کے درمیان کشیدگی بڑھے گی جس کا نقصان ریاست کا نقصان ہے۔ میرا پیپلزپارٹی سے دور کا بھی تعلق نہیں ہے مگر بلاول بھٹو کے حوالے سے زومعنی جملے قطعی طور پر ہمارے معاشرے کی عکاسی نہیں کرتے، میں حیران ہوں کہ ہمارا عزت دار معاشرہ یہ سب کیسے برداشت کرتا ہے۔ ٹی وی ٹاک شوز میں ایسی ایسی گھٹیا باتیں سننے کو ملتی ہیں کہ حیرانی ہوتی ہے کہ ہم کتنے منافق ہیں، مانتا ہوں کہ ماضی میں اگر سیاست دانوں سے غلطیاں ہوئی ہیں تو عدالتوں نے بھی نظریہ ضرورت کے تحت بہت سی غلطیاں کی ہیں اسی طرح فوج نے مارشل لا کی صورت میں حکومتوں کو کھڈے لائن لگا کر اپنے حلف کی خلاف ورزی کی،اس وقت جو تماشہ ہورہا ہے اس سے نہ صرف پاکستان کمزور ہورہا ہے بلکہ معاشی اور اندرونی مسائل بڑھتے جارہے ہیں،اس وقت ہمیں کوئی بھی ادارہ سنجیدہ نظر نہیں آرہا ہے، جو دوائی سو روپے کی تھی وہ تین سو چونسٹھ روپے میں بھی مشکل سے مل رہی ہے۔ چینی، آٹا، دوائیاں ، بجلی، گیس سب غائب ہے،حکومت فیل ہوچکی ہے، آج کا دور وہ دور ہے جسے تاریخ میں سیاہ دور کے طور پر لکھا جائے گا، اس دور میں میڈیا کو جن زنجیروں میں باندھا گیا ہے اس طرح تو ڈکٹیٹرز کے دور میں نہیں دیکھا گیا، ہراس شخص پر مقدمات بنائے گئے ہیں جو حکومت پر تنقید کرتا ہے میر شکیل الرحمان کی مثال آپ کے سامنے ہے، چھ ماہ سے زائد کا وقت ہوچکا ہے کوئی الزام ثابت نہ ہوسکا مگر ابھی بھی وہ پابند سلاسل ہیں۔ معزز ججزکے خلاف بھی مقدمات بنائے گئے ہیں ۔اس میں کوئی شک نہی ہے کہ فوج ہمارا ادارہ ہے ہم سب پاکستانی فوج کی قربانیوں کا اعتراف کرتے ہیں ان کی قدر کرتے ہیں مگر اسی فوج کے چند افسر اپنے حلف سے باہر بھی نکلتے ہیں، ہمارے سیاست دانوں کو کسی آمر کی پیداوار کہہ کر پکارا جاتا ہے، نواز شریف کو ضیاالحق کی پیداوار کہہ کر گالی دی جاتی ہے ائرمارشل اضغر خان کیس کو دیکھیں، پھرمشرف نے ن لیگ میں ق لیگ بنائی اور پیپلزپارٹی میں پیٹریاٹ بنائی گئی، اس کے علاوہ ایم کیو ایم میں حقیقی بنائ گئی پھر پاک سر زمین پارٹی بنائی گئی، یہ سب پاکستان میں ہوتا ہے، جنرل حمید گُل نے خود اقرار کیا تھا کہ اسلامی جمہوری اتحاد کی بنیاد انہوں نے ڈالی تھی، اسد درانی کے حوالے سے کوئی تحقیق آگے نہیں بڑھی، اچھے اور برے لوگ ہر ادارے میں موجود ہیں۔ اس وقت یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ گلگت بلتستان میں امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنایا جائے اور نومبر میں شفاف الیکشن کا انعقاد کروایا جائے، اس کے ساتھ سی پیک کے منصوبے پر چین کے ساتھ تعلقات کا مزید مضبوط بنانا ہے، یہ کہنا بھی غلط ہے کہ سعودی عرب سے کوئی ناراضگی نہیں ہے ہمارے وزیر خارجہ کو بھی یہ یاد رکھنا چاہئے کہ سعودی عرب نے ہمیشہ پاکستان کا ساتھ دیا ہے ۔