ترقی کیلئے تعلیم ضروری لیکن...

September 26, 2020

اردو پڑھانے سے دل ہی اٹھ گیا

طلبا کی چند اشعار کی تشریح ملاحظہ کریں

.. میں کل سے " دھاڑیں مار مار" کر ہنس رہا ہوں اور " زارو قطار" قہقہے لگارہا ہوں۔ میں ایک ادارے میں ٹیچر ہوں اور میٹرک/ انٹر کے طلباء کو اردو پڑھاتاہوں ‘ میں نے اپنے اسٹوڈنٹس کا ٹیسٹ لینے کے لیے انہیں کچھ اشعار تشریح کرنے کے لیے دیے۔ جواب میں جو کچھ سامنے آیا، وہ اپنی جگہ ایک’’ ماسٹر پیس ‘‘ہے۔ املاء سے تشریح تک اسٹوڈنٹس نے ایک نئی زبان کی بنیاد رکھ دی ہے۔ میں نے اپنے اسٹوڈنٹس کی اجازت سے اِن پیپرز میں سے نقل "ماری " ہے‘ اسے پڑھئے اور دیکھئے کہ پاکستان میں کیسا کیسا ٹیلنٹ بھرا ہوا ہے۔

سوالنامہ میں اس شعر کی تشریح کرنے کے لیے کہا گیا تھا

بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالب

تماشائے اہل کرم دیکھتے ہیں

جواب میں ایک ذہین طالبعلم نے لکھا کہ ’’اِس شعر میں مستنصر حسین تارڑ نے یہ بتانے کی کوشش کی ہے انہوں نے ایک دن سوچا کہ کیوں نہ فقیر بن کے پیسہ کمایا جائے‘ لہٰذا وہ کشکول پکڑ کر "چونک" میں کھڑے ہوگئے ‘ اُسی "چونک " میں ایک مداری اہل کرم کا تماشا کر رہا تھا ‘ شاعر کو وہ تماشا اتنا پسند آیا کہ وہ بھیک مانگنے کی "باجائے" وہ تماشا دیکھنے لگ گیا اور یوں کچھ بھی نہ کما سکا۔

اگلا شعر تھا

رنجش ہی سہی ‘ دل ہی دُکھانے کے لیے آ

آ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے لیے آ

مستقبل کے ایک معمار نے اس کی تشریح کچھ یوں کی کہ ’’یہ شعر نہیں بلکہ گانا ہے اور اس میں "مہندی حسن" نے یہ کہنے کی کوشش کی ہے کہ اے میرے محبوب تم میرا دل دُکھانے کے لیے آجاؤ لیکن جلدی جلدی مجھے چھوڑ کے چلے جانا کیونکہ مجھے ایک فنکشن میں جانا ہے اور میں لیٹ ہورہا ہوں۔۔۔‘‘

تیسرا شعر تھا

کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مرجاؤں گا

میں تو دریاہوں سمندر میں اتر جاؤں گا .

ایک لائق فائق طالبہ نے اس کی تشریح کا حق ادا کر دیا۔۔۔پورے یقین کے ساتھ لکھا کہ ’’یہ شعر ثابت کرتا ہے کہ شاعر ایک کافر اور گنہگار شخص ہے جو موت اور آخرت پر یقین نہیں رکھتا اور خود کو دریا کہتا پھرتاہے ‘ اس شعر میں بھی شاعر یہی دعویٰ کر رہا ہے کہ وہ دریا ہے لہذا مرنے کے بعد بحرِ اوقیانوس میں شامل ہوجائے گا اور یوں منکر نکیر کی پوچھ گچھ سے بچ جائے گا‘ لیکن ایسا ہوگا نہیں کیونکہ آخرت برحق ہے اور جو آخرت پر یقین نہیں رکھتا اس کا ٹھکانا دوزخ ہے۔ اللہ اسے ہدایت دے۔ آمین۔

اگلا شعر تھا

مقام فیض کوئی راہ میں جچا ہی نہیں

جو کوئے یار سے نکلے تو سوئے دار چلے

ایک سقراط نے اس کی تشریح یوں کی’’اس شعر میں شاعرکوئے یار سے لمبا سفر کرکے راولپنڈی کے ’فیض آباد‘ چوک تک "پونچا" ہے لیکن اسے یہ مقام پسند نہیں آیا کیونکہ یہاں بہت شور ہے‘ شاعر یہاں سے نکل کر ٹھنڈے اور پرفضا مقام "دار" پر جانا چاہتا ہے اور کہہ رہاہے کہ بے شک اسے " سُوئے" مارے جائیں‘ وہ ہر حال میں "دار " تک پہنچ کر ہی دم لے گا۔

تعلیم یافتہ نوجوان، قلم اُٹھائیں اور لکھیں درج ذیل عنوان پر:

زندگی، تجربات کا دوسرا نام ہے۔ ہر انسان کی زندگی میں اتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں، جن سے کچھ سیکھ لیتے ہیں، کچھ ٹھوکر کھا کر آگے چل پڑتے ہیں، پچھتاتے اُس وقت ہیں، جب کسی مسئلے سے دوچار ہوجاتے ہیں، مگر حل سمجھ نہیں آتا۔ دکھ سکھ، ہنسی خوشی، یہ سب زندگی کے رنگ ہیں، جن سے کھیلا جائے تو بہت کچھ حاصل ہوتا ہے۔ مشاہدے میں آیا ہے کہ، آج کا نوجوان زندگی سے مایوس ہوتا جا رہا ہے۔ ایک تجربے کے بعد دوسرا تجربہ کرتا ہے، جب پے در پے ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو وہ مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے۔ لیکن زندگی کے تجربات بہت کچھ سکھاتے ہیں۔ ہم نے آپ کے لیے ایک سلسلہ بعنوان،’’ہنر مند نوجوان‘‘ شروع کیا ہے، اگر آپ تعلیم یافتہ ہنر مند نوجوان ہیں تو اپنے بارے میں لکھ کر ہمیں ارسال کریں، ساتھ ایک عدد پاسپورٹ سائز تصویر اور کام کے حوالے سے تصویر بھیجنا نہ بھولیں۔اس کے علاوہ ایک اور سلسلہ ’’میری زندگی کا تجربہ‘‘کے نام سے بھی شروع کیا ہے، جس میںآپ اپنےتلخ وشیریں تجربات ہمیں بتا سکتے ہیں۔ بہت ممکن ہے کہ آپ کے تجربات یا تجربے سے دیگر نوجوان کچھ سیکھ لیں۔

ہمارا پتا ہے: ’’صفحہ نوجوان‘‘ روزنامہ جنگ، میگزین سیکشن، اخبار منزل،آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی۔