پی ڈی ایم کامیاب ہوگی؟

September 28, 2020

پاکستان ڈیمو کریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) یعنی پاکستان جمہوری تحریک کے نام سے اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کا ایک بڑا سیاسی اتحاد قائم ہو چکا ہے۔ یہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ایک اور اہم ترین واقعہ ہے۔ یہ نیا سیاسی اتحاد کامیاب ہو گا یا نہیں اور اس کے پاکستان کی سیاسی تاریخ پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ اس سوال کا ابھی تک درست جواب حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی گئی کیونکہ موجودہ عہد پرنٹ، الیکٹرونک اور سوشل میڈیا کی پروپیگنڈا جنگ کا ہے ، جسے بعض لوگ ’’ہائبر ڈوار‘‘ بھی کہتے ہیں۔ اس جنگ میں کسی کو حقیقت تک پہنچنے میں بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ البتہ اس پروپیگنڈا جنگ کے بڑے فریقین کو اصل حقائق کا پتا ہوتا ہے۔

ہم وہ نسل ہیں، جس نے اس پروپیگنڈا جنگ سے پہلے حقیقی سیاسی جنگوں میں حصہ لیا اور معروضی حقائق کو اس طرح سمجھا، جس طرح وہ تھے۔ ہم نے معروضی حقائق کے ادراک کی بہت سخت مشقیں کیں، پاکستان کی سیاسی تاریخ کے کئی بڑے سیاسی اتحاد بنتے دیکھے اور ان سیاسی اتحادوں کے پلیٹ فارمز سے چلائی گئی سیاسی تحریکوں کی حمایت یا مخالفت میں حصہ لیا۔ کمبائنڈ اپوزیشن پارٹیز، یونائیٹڈ ڈیمو کریٹک فرنٹ، پاکستان نیشنل الائنس، موومنٹ فار ریسٹوریشن آف ڈیمو کریسی، پاکستان ڈیمو کریٹک الائنس، الائنس فار ریسٹوریشن آف ڈیمو کریسی اور اب پاکستان ڈیمو کریٹک الائنس ( پی ڈی ایم) پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے سیاسی اتحاد ہیں۔ ان میں سے کچھ اتحاد آمرانہ حکومتوں کے خلاف جمہوریت کی بحالی کے لئے تھے اور کچھ اتحاد سیاسی حکومتوں کے خلاف آمرانہ قوتوں کے ایجنڈے کی تکمیل کیلئے تھے۔ ہماری نسل کے لوگوں نے ان دونوں طرح کے اتحادوں میں شعوری یا لا شعوری پر حمایت یا مخالفت میں حصہ لیا۔ آج کی نوجوان نسل کے ساتھ ساتھ سیاسی تجزیہ کاروں اور دانشوروں (جن میں اکثریت کسی نظریے اور سائنسی یا جدلیاتی اصولوں کے بغیر سیاست پر بات کرتی ہے) کو میں پاکستان کی تاریخ کی یہ حقیقت منکشف کرتا ہوں کہ آج تک کوئی سیاسی اتحاد یا سیاسی تحریک ناکام نہیں ہوئی۔ اس کے اسباب مختلف ہیں۔ کیا پی ڈی ایم کو کامیابی نصیب ہو گی یا نہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ آج تک کوئی سیاسی اتحاد ناکام نہیں ہوا۔ اگر یہ ناکام ہوا تو پاکستان میں سیاست کو اتنا بڑا نقصان ہوگا، جو پہلے کبھی نہیں ہوا اور سیاست مذاق بن جائے گی۔ اب آتے ہیں دوسرے معاملے کی طرف۔ پی ڈی ایم بظاہر ایک سیاسی حکومت کیخلاف سیاسی اتحاد ہے لیکن وزیراعظم عمران خان کا کہنا یہ ہے کہ پاکستان کی تاریخ میں سویلین حکومت اور فوج کے مابین اس وقت جو ہم آہنگی ہے، وہ پہلے کبھی نہیں تھی۔ وزیراعظم عمران خان کی یہ بات موجودہ حالات میں کسی حد تک ناقابلِ تردید ہے۔ پہلے جب بھی کسی سویلین یا سیاسی حکومت کے خلاف سیاسی اتحاد بنے، اس سے قبل سویلین حکومت اور افواج کے مابین تعلقات بظاہر ایسے نہیں رہے تھے۔ اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) میں سیاسی جماعتوں کے قائدین نے جو تقاریر کیں، ان میں بعض قائدین نے یہ تاثر دیا کہ یہ سویلین حکومت اسٹیبلشمنٹ کی پشت پناہی سے چل رہی ہے اور بعض نے یہ تاثر دیا کہ اس سویلین حکومت نے سارے حالات خراب کئے۔ یہ بھی پاکستان کی سیاسی تاریخ کا پہلا موقع ہے کہ ملک کی بڑی سیاسی قوتیں اس بات پر تقسیم ہیں کہ وہ ایک سیاسی حکومت کے خلاف تحریک چلا رہی ہیں یا اس کی پشت پناہی کرنے والی قوتوں کے خلاف صف آراء ہوئی ہیں اور یہ کنفیوژن ہر جگہ موجود ہے۔

اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں کے آپس کے اور اندرونی اختلافات کے باوجود پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف تحریک کے تمام معروضی حالات موجود ہیں۔ ملک میں مہنگائی، بےروزگاری اور غربت اس سطح پر پہنچ چکی ہے، جس کی پاکستان کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی بجلی کے بلوں میں اضافے نے پاکستان میں غربت سے نکلنے کے تمام راستے بند کر دیے ہیں۔ اس ملکت خداداد کے شہری جتنا کماتے ہیں، وہ بجلی کے بلوں میں چلا جاتا ہے۔ زندہ رہنے کے وسائل ان کے پاس نہیں ہوتے۔ صرف انتہائی بالائی طبقے کو اس سے استثنیٰ ہے۔ دواؤں کی قیمتوں میں 262فیصد اضافے نے غریب کا مرنا بھی مشکل کر دیا ہے۔ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے نے غربت سے نکلنے کے لئے بھاگ دوڑ کو ختم کر دیا ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اپوزیشن کی سیاسی جماعتیں تحریک چلانا چاہتی ہیں یا نہیں۔ اس وقت subjectiveحالات بھی انتہائی موزوں ہیں۔ تجربہ کار اور مقبول لیڈر اپنی بہترین ٹیم کے ساتھ اس اتحادمیںموجود ہیں۔ 11سیاسی جماعتوں کا مستقبل داؤ پر لگا ہے۔ ان جماعتوں نے اندرونی اختلافات اور اس کے پروپیگنڈےکا ماضی میں بھی سامنا کیا ہے۔ پی ڈی ایم کی سیاسی جماعتوں کےلئے تاریخ کا ایک اور چیلنج درپیش ہے۔ ان سیاسی جماعتوں اور بعض حلقوں کا خیال ہے جو کسی حدتک ممکن بھی ہےکہ اگر مارچ 2021ءمیں سینیٹ میں تحریک انصاف کی اکثریت ہو گئی تو پاکستان کے پارلیمانی جمہوری نظام کو جو خظرہ پیدا ہوسکتا، وہ پہلے کبھی نہیں ہوا۔ اگرچہ پی ڈی ایم کی سیاسی جماعتیں ملک میں پارلیمانی جمہوری نظام کے ٰخاتمے اور وفاقی اکائیوں کی تقسیم کے خدشے کو نظرانداز کرتی ہیں تو پھر انکی سیاسی بقا بھی خطرے میں ہو گی۔ ان حقائق اور subjectiveحالات سے پی ڈی ایم کے اہداف، چیلنجز اور سمجھوتوں کو سمجھا جا سکتا ہے۔