خلیجی ریاستوں کے اسرائیل سے معاہدے

September 30, 2020

پچھلے چند ماہ میں خلیج فارس کی سیاست تیزی سے بدلی ہے اور اس کے اثرات نہ صرف خلیج بلکہ پورے مشرقِ وسطی کے علاوہ جنوبی ایشیا پر بھی پڑیں گے۔گو کہ اب دیگر ممالک بھی اسرائیل سے تعلق بہتر کر رہے ہیں اس عمل کاآغاز بلاشبہ متحدہ عرب امارات نے کیا۔ 2020ء میں متحدہ عرب امارات نے جب مریخ کے لئے اپنا خلائی مشن روانہ کیا تو دنیا کو حیرت ہوئی کہ یہ چھوٹا سا ملک کیا کرنے جارہا ہے۔ دراصل ملک تو چھوٹا ہے لیکن اس نے اپنا اثرو رسوخ خاصا بڑھا لیا ہے۔ آخر ایسا کیسے ممکن ہوا یہ سمجھنے کے لئے تھوڑی تاریخ سمجھنا ضروری ہے۔ متحدہ عرب امارات صرف چوراسی ہزار مربع کلومیٹر پر واقع ایک وفاقی ریاست ہے جس میں سات امارات شامل ہیں۔ اس ریاست کا قیام دسمبر1971ء کو عمل میں آیا تھا یعنی اگلے برس اس کی گولڈن جوبلی یا پچاسویں سال گرہ منائی جائے گی۔

ان سات امارات میں سب سے بڑی دبئی ہے جو امارات کی مجموعی ایک کروڑ آبادی میں سے چالیس لاکھ آبادی پر مشتمل ہے اس کے بعد ابوظبی تقریباً تیس لاکھ اور الشارقہ جسے شارجہ بھی کہا جاتا ہے تقریباً پچیس لاکھ آبادی پر مشتمل ہے۔ اس طرح امارات کی پچانوے فیصد آبادی ان تین پر مشتمل ہے۔ باقی چھوٹی اکائیوں میں عجمان، راس الخیمہ اور الفجیرہ شامل ہیں۔ سب سے چھوٹی ام القوین ہے جس کی آبادی صرف ستر ہزار ہے۔ امارات کی زمینی سرحدیں صرف دو ممالک سے ملتی ہیں یعنی مشرق میں عمان سے اور جنوب مغرب میں سعودی عرب سے۔ گوکہ امارات میں ایک مطلق العنان بادشاہت ہے۔ اس کا اقتدار ایک فیڈرل سپریم کونسل یا مجلس اعلیٰ اتحاد کے پاس ہے اور امارات کےرہ نمائوں میں سے ایک حکم رَان امارات کے صدر کا عہدہ رکھتا ہے۔

دل چسپ بات یہ ہے کہ امارات کی تقریباً ایک کروڑ کی آبادی میں سے صرف پندرہ لاکھ اماراتی شہری ہیں اور باقی غیر ملکی کارکن ہیں۔امارات کے پاس دنیا کے چھٹے بڑے تیل کے ذخائر ہیں، جب کہ گیس کے ذخائر کا ساتواں نمبر ہے۔ یاد رہے کہ 1971ء میں امارات کی تشکیل سے پہلے ان سات چھوٹی چھوٹی ریاستوں کو متصائح ریاستیں کہا جاتا تھا جو کوئی ڈیڑھ سو سال سے برطانیہ کے ساتھ ایک صلح کے معاہدے میں منسلک تھیں۔ برطانیہ کے وزیراعظم ہیرلڈ ولسن نے 1968ء میں اپنا دفاعی معاہدہ ختم کرکے افواج نکالنے کا اعلان کیا تو ابوظبی کے حکم ران شیخ زاید کی قیادت میں مذاکرات کے بعد 1971ء میں یہ سات ریاستیں مل کر متحدہ عرب امارات بن گئیں۔

شیخ زاید 2004ء میں اپنی وفات تک امارات کے رئیس یا سربراہ رہے۔ اپنے طویل دورِ حکومت میں انہوں نے امریکا اور برطانیہ سے بہتر تعلقات رکھے اور تیل کی دولت سے اپنے ملک کو ترقی دی۔امارات کے علاوہ اس خطے میں ایک اور اہم کردار خلیجی مجلس تعاون یا گلف کو آپریشن کونسل کا ہے جسے جی سی سی بھی کہا جاتا ہے۔ اس مجلس میں امارات کے علاوہ بحرین، کویت، عمان، قطر اور سعودی عرب شامل رہے ہیں،مگر عراق اس کا حصہ نہیں ہے۔

صباح الاحمد الجبیر الصباح

اب دیکھا جائے تو یہ چھ خلیجی ممالک سنی مسلم حکم رانوں کے زیر اقتدار ہیں اسی لئے انہوں نے ایران اور عراق کو اس مجلس میں شامل نہیں کیا ہے اور اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ مسلمان ملکوں میں فرقہ وارانہ سوچ کتنی گہری ہوچکی ہے۔ خلیجی مجلسِ تعاون متحدہ عرب امارات کی تشکیل کے ٹھیک دس سال بعد 1981ء میں قائم کی گئی تھی۔ ان میں صرف تین ممالک یعنی بحرین، کویت اور قطر آئینی بادشاہتیں ہیں جب کہ سعودی عرب، عمان اور امارات مطلق العنان ہیں۔لیکن آئینی بادشاہت ہونے کا دعویٰ کرنے کے باوجود آئین کی حیثیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ بحرین کے خلیفہ بن سلمان پچھلے پچاس سال سے بحرین کے وزیراعظم چلے آرہے ہیں اور دنیا میں کسی بھی حکومت کے سب سے طویل عرصے والے وزیراعظم ہیں۔ بحرین کی آبادی صرف پندرہ لاکھ اور فی کس آمدنی پچاس ہزار ڈالر سالانہ سے زیادہ ہے۔

شیخ تمیم بن حمّاد

اب ہم آتے ہیں خلیج کی بدلتی ہوئی صورتِ حال کی طرف۔ اسرائیل سے روابط کی بات کرنے سے قبل مجموعی صورتِ حال کا جائزہ لیتے ہیں۔ متحدہ عرب امارات کی ایک کروڑ کی آبادی میں تقریباً چالیس لاکھ بھارتی اور تیس لاکھ پاکستانی ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ امارات اسرائیل کے علاوہ بھارت کو بھی کتنی اہمیت دیتا رہا ہے۔گوکہ امارات کے رئیس یا صدر خلیفہ بن زاید ہیں جو 72سال کے ہیں لیکن ان کے چھوٹے بھائی ساٹھ سالہ محمد بن زاید ولی عہد بھی ہیں اور افواج کے نائب سربراہ بھی۔ اسرائیل اور بھارت سے بڑھتے تعلقات میں ان کا اہم کردار ہے۔پچھلے پندرہ سال میں امارات کی خارجہ پالیسی کی تبدیلی میں محمد بن زاید نے خاص کام کیا ہے۔ انہوں نے نسبتاً زیادہ جارحانہ خارجہ پالیسی تشکیل دی ہے جس کے تحت انہوں نے عرب دنیا میں جمہوری تحریکوں کو کچلنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

جب ہم عرب دنیا کی بات کرتے ہیں تو ہمیں یاد رہنا چاہئے کہ عرب دنیا میں بائیس عرب ممالک ہیں جو عرب لیگ کے رکن بھی ہیں ،جن کی آبادی مجموعی طور پر تقریباً پینالیس کروڑ ہے۔ یاد رہے کہ امارات کے رئیس ابوظبی سے اور نائب رئیس دبئی سے ہوتے ہیں جو اس وقت محمد بن راشد المکتوم ہیں جو خود ستر سال کے ہیں اور امارات کے وزیر اعظم بھی ہیں۔

محمّد بن سلمان

اس طرح ہم دیکھتے ہیں ابوظبی کے ولی عہد محمد بن زاید ہی نئے خارجہ پالیسی کے اصل معمار ہیں۔ اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے سے پہلے امارات نے یمن میں براہ راست مداخلت کی اور وہاں کی خانہ جنگی میں سعودی عرب کی قیادت میں فوجی کارروائی میں حصہ لیا جس کا ہدف تھا کہ حوثی قبائل کے شمالی یمن پر قبضے کو ختم کیا جائے مگر اس میں امارات اور سعودی عرب کو ناکامی ہوئی۔

صدر اوباما اکے دور میں امریکا نے دیگر مغربی ممالک کے ساتھ مل کر ایران کے ساتھ جوہری معاہدے پر دستخط کئے تو یہ بات امارات کو پسند نہ آئی اور امریکا سے تعلقات کچھ ٹھنڈے ہوئے ،مگر صدر ٹرمپ کے آتے ہی امارات کے امریکا سے تعلقات میں دوبارہ گرم جوشی دیکھنے میں آئی۔

اب امارات اور امریکا کے خیالات امریکا کے بارے میں بھی ملتے ہیں اور دونوں اخوان المسلمین کے بھی شدید خلاف ہیں۔ اخوان المسلمین کو 1928ء میں مصر میں قائم کیا گیا تھا اور یہ دائیں بازو کی تنظیم ہے۔ اس کے بانی حسن البنّا تھے، جنہوں نے صرف بائیس سال کی عمر میں اخوان المسلمین قائم کی تھی اور اس کے بیس برس بعد انہیں مصر کی خفیہ پولیس نے 1949ء میں قتل کر دیا تھا۔

حمّاد بن عیسیٰ الخلیفہ

اس وقت امارات کے خیالات سعودی عرب، مصر اور قطر کے بارے میں بھی امریکا سے مماثل ہیں۔ دونوں سعودی عرب کے بہت قریب ہیں اور مصر کے فوجی آمر فتح ایسی کی بھرپور حمایت کررہے ہیں پھر جب سعودی عرب نے قطر کی ناکہ بندی کی تو بھی امریکا اور امارات نے سعودی عرب کا پورا ساتھ دیا۔

لیبیا میں بھی امارات اور امریکا ایک ہی جیسے موقف کے حامل ہیں۔ لیکن سب سے بڑا قدم اگست 2020ء میں اٹھایا گیا جب اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو اور ٹرمپ کے ساتھ مل کر محمد بن زاید نے اعلان کیا کہ وہ امارات اور اسرائیل کے درمیان باقاعدہ تعلقات کا آغاز کر رہے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ امارات نے محمد بن زاید کی قیادت میں مسلم ممالک سے زیادہ غیر مسلم ممالک سے تعلقات بڑھانے پر خاص توجہ دی ہے۔ انہوں نے 2019ء میں پوپ فرانسس کو امارات کے دورے پر خوش آمدید کہا۔ اس دورے میں پوپ نے سو ممالک سے آنے والے تقریباً دو لاکھ مسیحی پیروکاروں کے ساتھ عبادت کی۔اس کے علاوہ امارات میں ایک بڑے ہندو مندر کا بھی افتتاح کیا گیا ہے۔ محمد بن زاید کی خارجہ پالیسی کی ایک بات یہ بھی ہے کہ اماراتی افواج نے طالبان کی حکومت کے خاتمے کے بعد خاموشیاختیارکرلی ہے۔ افغانستان میں نیٹو کے ساتھ کام بھی کیا اس طرح انہوں نے افغانستان میں یہ تاثر کم کرنے کی کوشش کی کہ نیٹو افواج صرف غیر ملکی سپاہیوں پر مشتمل ہیں۔ امارات نے بڑی تعداد میں مساجد بھی افغانستان میں تعمیر کرائی ہیں۔ لیکن امارات کو یمن میں کوئی خاص کام یابی نہیں ہوئی ،کیوں کہ 2015ء میں سعودی عرب کے شہزادے محمد بن سلمان نے یمن میں تباہ کن خانہ جنگی میں علی الاعلان حصہ لینا شروع کیا تو امارات نے سعودی عرب کا ساتھ دیا۔ حوثی باغیوں پر حملوں میں اپنے F-16لڑاکا طیارے استعمال کئے ، حتی کہ یمن کے جنوبی علاقوں میں اماراتی افواج بھی داخل ہوگئیں۔ مگر چھ برس گزرنے کے بعد بھی یمن کی جنگ چل رہی ہے اور یمن کا دارالحکومت صنعا اور شمالی یمن کے بیشتر علاقے بدستور حوثی قبائل کے قبضے میں ہیں۔ اس دوران امارات کے فوجی بھی یمن میں مارے گئے، جس میں ایک میزائل حملے میں مرنے والے پچاس اماراتی فوجی بھی شامل ہیں ۔یہ امارات کا کسی بھی جنگ میں سب سے بڑا جانی نقصان تھا۔

محمّد بن زید النہیان

ایک پہلو یہ بھی ہے کہ بعض اطلاعات کے مطابق امارات نے القاعدہ سے تعلق رکھنے والی یمن کی مقامی ملیشیا کو بھی استعمال کیا، جس سے امارات کی ساکھ کو نقصان پہنچا۔ گوکہ پچھلے سال کے دوران امارات نے یمن میں اپنی مداخلت کو محدود کیا ہے، مگر اس کے ساتھ ہی خطے میں ایران اور ترکی کے بڑھتے ہوئے اثرات کو روکنے کے لئے اسرائیل سے ہاتھ ملایا ہے۔ اس کا ایک اظہار صومالیہ میں ہوتا ہے۔ یاد رہے کہ صومالیہ پر انیسویں صدی میں اٹلی اور برطانیہ نے قبضہ کرکے اسے اطالوی صومالی لینڈ اور برطانوی صومالی لینڈ میں تقسیم کر دیا تھا، اس تقسیم کے اثرات اب تک نظر آتے ہیں۔گوکہ دونوں خطوں نے مل کر 1960ء میں آزاد متحدہ صومالی ری پبلک تشکیل دی تھی، مگر وہ صومالی جمہوریہ صرف نو سال چل سکی تھی، جس کے بعد 1969ء میں فوجی بغاوت نے اس کا خاتمہ کرکے میجر جنرل سیاد برے کی فوجی حکومت قائم کی جو 22سال چلی۔ گوکہ سیاد برے نے مارکسی سوشلسٹ حکومت قائم کرنے کا اعلان کیا تھا، مگر دراصل وہ ایک فوجی آمریت تھی۔اس کے بعد صومالیہ میں صومالی لینڈ کے نام سے الگ خودمختار اور جنوب میں صومالیہ ہے جسے آزاد ملک تسلیم کیا جاتا ہے۔

اب صومالیہ کے دارالحکومت موغا دیشو میں ترکی کی افواج اور مشیر موجود ہیں جبکہ امارات نے صومالی لینڈ کی حمایت جاری رکھی ہوئی ہے اور خلیجِ عدن میں بیربرا کے مقام پر ایک اڈہ بھی قائم کیا ہوا ہے۔ اسی طرح خانہ جنگی کے شکار لیبیا میں بھی امارات مصر کے ساتھ مل کر مشرقی لیبیا پر قابض خلیفہ حفتر کی افواج کی حمایت کر رہا ہے، جب کہ مغرب میں قابض لیبیا کی افواج کو ترکی اور قطر وغیرہ کی حمایت حاصل ہے۔ حال ہی میں جب ترکی اور یونان سمندری حدود کے تنازع میں الجھے تو پھر بھی امارات نے یونان کے جزیرے کریٹ میں مشقوں کے لئے اپنے جہاز اور لڑاکا طیارے بھیجنے میں دیر نہیں لگائی۔ یاد رہے کہ مشرقی بحیرہِ روم میں سمندر میں تیل کے لئے کھدائی کے حقوق پر یونان اور ترکی میں محاذ آرائی ہوتی رہی ہے۔

ان سب باتوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ امارات اسرائیل کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے کے ساتھ پورے خطے میں اپنے اثر و رسوخ میں اضافہ چاہتا ہے اورا س کے لئے دو بڑے غیر عرب یا عجمی مسلم ممالک ترکی اور ایران کے مقابلے پر خود کو تیار کر رہا ہے۔ گوکہ اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات کا قیام وسیع فوائد لائے گا۔ مثلاً صحت، ثقافت اور تجارت کے شعبوں میں بڑا تعاون کیا جانے کا وعدہ اور اعلان کیا گیا ہے مگر یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ اصل معاملہ فوجی تعاون کا ہے۔

اسرائیل اس پورے خطّے بلکہ پوری دنیا میں تیکنیکی اعتبار سے ترقی یافتہ ترین ممالک میں شمار ہوتا ہے اور اب امارات اسرائیل کی جدید ترین ٹیکنالوجی کا حصول یقینی بنائے گا جس کے مقابلے کی ٹیکنالوجی ایران اور ترکی کے پاس مشکل ہی سے دست یاب ہوگی ،گہرے فوجی اور حفاظتی تعلقات بھی اسرائیل کے ساتھ ہی استوار کئے جائیں گے۔امارات دو سو ملین ڈالر سے زیادہ خرچ کرکے مریخ پر بھی کمند ڈالنا چاہتا ہے۔ یہ مشن امریکا کی مدد سے لیکن جاپان کے جزیرے سے اڑان بھر کر سوا لاکھ کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے مریخ کی طرف جارہا ہے۔

اب ہم آتے ہیں بحرین اور دیگر ممالک کی طرف۔ پندرہ ستمبر کو بحرین کے وزیر خارجہ عبداللطیف نے امارات اور اسرائیل کے ساتھ واشنگٹن میں صدر ٹرمپ کی موجودگی میں ایک معاہدے پر دست خط کئے، جنہیں’’ابراہیم معاہدے‘‘ کا نام دیا جارہا ہے ، جس کے تحت یہ ممالک معمول کے تعلقات کرنے والے ہیں۔

تقریب کے دوران ہی صدر ٹرمپ نے اعلان کیا کہ جلد ہی مزید عرب ممالک بھی اسرائیل کے ساتھ معاہدے کرلیں گے جن میں سعودی عرب بھی مناسب وقت پر ایسا کرلے گا۔

مملکتِ بحرینخلیج فارس میں ایک جزیرہ بلکہ جزائر کا مجموعہ ہے ،جس میں کل سو کے قریب قدرتی اور مصنوعی جزائر شامل ہیں لیکن تقریباً پچاسی فی صد علاقہ سب سے بڑے جزیرے بحرین پر ہے۔ یہ جزیرہ بحرین سعودی عرب سے صرف پچیس کلومیٹر دور سمندر میں ہے ،جس پر ایک پل تعمیر کرکے اسے سعودی عرب سے ملا دیا گیا ہے، اس پل نے 1986ء میں اپنے افتتاح کے بعد سے بحرین اور سعودی عرب کو زمینی طور پر بھی منسلک کر دیا ہے۔

کہا جارہا ہے کہ امارات نے بحرین کو مالی امداد دے کر اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے کی ترغیب دی۔ یاد رہے کہ بحرین میں حکم ران خاندان کا تعلق سنی فرقے سے ہے جس کےباعث آبادی کے بڑے حصے میں بے چینی بھی پائی جاتی ہے۔اسی لئے یہ توقع نہیں کی جارہی تھی کہ بحرین اسرائیل سے تعلقات استوار کرنے کا قدم اٹھائے گا ،مگر ایسا کیا جاچکا ہے۔ بحرین کی شیعہ آبادی اسرائیل سے تعلقات کے شدید خلاف ہے اور عوامی سطح پر اس معاہدے کے بعد غم و غصہ بھی پایا جاتا ہے۔

چوبیس ستمبر کو اسرائیلی سرکاری وفد نے بحرین پہنچ کر مذاکرات کا آغاز بھی کر دیا اور بحرین کے دارالحکومت’’ مناما‘‘ میں دونوں ممالک نے معاہدہ امن کو مزید بہتر بنانے کی بات چیت کی۔ اب بحرین کی شمولیت کے بعد کل چار عرب ممالک اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات کے حامل ہیں۔ جن میں اردن، مصر اور امارات بھی شامل ہیں۔

اصل میں اس پورے خطّے میں طاقت کا توازن بدلنے میں پچھلے چالیس سال سے دو بڑے واقعات کا دخل ہے۔ ایک تو 1979ء میں ایران کا انقلاب اور دوسرے 1990ء میں کویت پر عراق کا قبضہ۔ایران کے انقلاب اور اس کے نتیجے میں قائم ہونے والی حکومت نے خلیج کی دوسری طرف کے عرب ممالک کو تشویش میں مبتلا تو کیا تھا مگر اس وقت تک کسی کو یہ گمان نہیں تھا کہ بیسویں صدی کےآواخر میں بھی کوئی ملک کسی دوسرے ملک پر قبضہ کر سکتاہے ۔ ایسا عراق کے صدر صدام حسین نے کر دکھایا جس کے بعد امریکا نے کویت کو اتحادی افواج کی مدد سے آزاد کرایا اور پھر سارے خلیجی عرب ممالک امریکا سے دھڑا دھڑ اسلحہ خریدنے لگے۔اس کے بعد تمام چھوٹے ممالک یہ سمجھنے لگے کہ ان پر قبضہ کیا جاسکتا ہے اس لئے تقریباً تمام خلیجی عرب ممالک امریکا کی طرف بہت جھک گئے۔ بحرین بھی ان ممالک میں سے تھا جنہوں نے خفیہ طور پر اسرائیل سے گفت و شنید کا آغاز کئی سال قبل کر دیا تھا۔ عمان اور قطر بھی اسرائیل سے تجارتی تعلقات بحال کرنے کی باتیں کرتے رہے۔ ان عرب ممالک نے اسرائیل کے لئے دشمن کا لفظ استعمال کرنا بھی بند کردیا جوکہ ایک اچھا قدم تھا۔

کسی بھی ملک سے تعلقات بہتر کرنے کے لئے یہ ضروری ہوتا ہے کہ سب سے پہلے اس ملک کے خلاف سرکاری پروپیگنڈا بند کیا جائے۔ اب اگر اس کوبھارت اور پاکستان پر لاگو کیا جائے تو دونوں ممالک ایک دوسرے کے لئے مسلسل اور دائمی یا ازلی دشمن کی اصطلاحات استعمال کرتے رہے ہیں،جس کی سزا عوام بھگتتے رہے ہیں۔

اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد نے بھی اس سلسلے میں خاصا کام کیا ہے اور عرب ممالک سے تعلقات بہتر بنانے کے لئے اسرائیلی ریاست کی مدد کی ہے۔ یہ بھی ایک اچھا عمل تھا کیونکہ خفیہ ایجنسیوں کا کام صرف یہ نہیں ہوتا کہ وہ ہمیشہ دیگرممالک سے تعلقات خراب کرانے کی حرکتیں کریں۔ ان اداروں کی ایک ذمہ داری یہ بھی ہوتی ہے کہ اپنے ملک کے مفاد میں دیگر ممالک سے تعلقات ٹھیک کرنے کے راستے بھی ڈھونڈ کر نکالیں، افسوس کہ جنوبی ایشیا میںایسا نہیں ہوسکا۔

ایک اور اہم بات یہ ہے کہ ان تمام ممالک نے سب سے پہلے تجارتی تعلقات کی بحالی کی بات کی اور سفارتی تعلقات قائم کرنے سے پہلے تجارتی وفود میں سفارتی عملہ بھی شامل ہوتا تھا، جو تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کرتا تھا ۔اس سلسلے میں اسرائیل کے سابق صدر اور وزیراعظم شمعون پیریز نے بھی خاص کام کیا تھا اور اپنے سات سالہ دور صدارت میں 2007ء سے 2014ء کے درمیان عرب ممالک کے رہ نمائوں سے خفیہ ملاقاتیں بھی کی تھیں، جن میں 2009ء میں بحرین کے بادشاہ حمد بن عیسیٰ سےنیویارک میں ملاقات بھی شامل تھی ۔2016ء میں شمون پیریز کی موت پر بھی بحرین نے اسرائیل سے تعزیت کی تھی اور اُن کی تدفین پر بحرین نے سرکاری نمائندے کواسرائیل بھی بھیجا تھا۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ بحرین کے بعد دیگر عرب ممالک کیا کرتے ہیں۔ قطر تو کہہ چکا ہے کہ وہ اسرائیل کے ساتھ اس وقت تک تعلقات قائم نہیں کرے گا جب تک کہ مسئلہ فلسطین کوحتمی طور پر حل نہیں کیا جاتا۔ ایسی باتیں تو امارات اور بحرین بھی ماضی میں کرتے رہے تھے لیکن بالآخر اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے پر راضی ہوگئے یا کرالئے گئے۔

قطر کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ وہ حماس اور طالبان دونوں کی طرف نہ صرف نرم گوشہ رکھتا ہے بلکہ اُن کی معاونت بھی کرتا رہا ہے۔ خاص طور پر حماس کو تو اس نے بھاری مالی امداد بھی فراہم کی ہے تاکہ غزہ کی پٹی میں آباد فلسطینیوں کی صورت حال کو مزید بگڑنے سے بچایا جاسکے۔

غالباً یہ بات قارئین کے لئے دلچسپی کا باعث ہوگی کہ حماس کوئی ایک لفظ نہیں ہے بلکہ یہ حرکتِ مقاومتہ اسلامیہ یعنی اسلامی مزاحمتی تحریک کے پہلے چار حروف کا مرکب ہے یہ تنظیم ویسے تو سماجی خدمات انجام دیتی ہے لیکن اس کا ایک مضبوط عسکری بازو ہے جسے القسام بریگیڈ یا القسام کتائب کہا جاتا ہے۔ حماس اس وقت غزہ کی پٹی پر حکم ران ہے ،جہاں 2007ء سے اس کا قبضہ ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے جہاں ایران اور ترکی حماس کے حامی ہیں وہاں قطر بھی حماس کے ساتھ رہا ہے اس لئے قطر کے لئے خاصا مشکل ہوگا کہ وہ اسرائیل سے تعلقات قائم کرسکے لیکن بین الاقوامی سیاست میں حتمی طور پر کچھ کہنا مشکل ہے۔

اب ہم آتے ہیں عمان کی طرف جوکہ ایک سلطنت ہے اور جزیرہ نمائے عرب کے جنوبی کنارے پر واقع ہے۔ یہاں سلطان قابوس 1970ء سے 2020ء میں اپنی موت تک نصف صدی حکم ران رہے اور جنوری 2020ء کے بعد سے ہیشم بن طارق عمان کے سلطان ہیں۔ انہوں نے اب تک اسرائیل کے معاملے میں خود کو دیگر خلیجی ممالک سے الگ رکھا ہے لیکن درپردہ تعلق قائم ہے۔

یاد رہے کہ 2018ء میں اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو نے عمان کا دورہ کیا تھا اور سلطان قابوس سے ملاقات کی تھی پھر عمان کچھ خلیجی ممالک کے معاملات میں ثالثی بھی کرتا رہا ہے اور اس کے ایران سے بھی نسبتاً بہتر تعلقات ہیں، اس لئے فی الوقت مشکل معلوم ہوتا ہے کہ عمان اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرے۔

اسی طرح کویت بھی سختی سے اعلان کرچکا ہے کہ وہ مسئلہ فلسطین حل ہونے تک اسرائیل سے تعلقات قائم نہیں کرے گا اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ کویت میں خاصی تعداد میں فلسطینی تارکین وطن آباد ہیں۔ اندازوں کے مطابق کویت کی آبادی میں تقریباً ایک تہائی تعداد فلسطینی عربوں کی ہے ،پھر یہاں تقریباً بیس فی صد مسیحی آبادی بھی موجود ہے یعنی ہر پانچواں کویتی مسیحی ہے۔ کویت کے آئینی بادشاہت ہونے کی وجہ سے یہاں اسمبلی بھی ہے جس میں حزب مخالف بھی ہے۔

سعودی عرب کی طرف جو امارات اور بحرین کا قریب ترین اتحادی ہے، انہوں نے 2017ء میں قطر کے خلاف مشترکہ پابندیاں لگائی تھیں۔

سعودی عرب اسرائیلی طیاروں کو اپنی فضائی حدود میں اڑنے کی اجازت بھی دے چکا ہے اور پھر ولی عہد اور اصل حکم ران شہزادہ محمد بن سلمان ملک کی خارجہ اور داخلی پالیسی میں تبدیلی کے لئے کوشاں رہے ہیں۔ اس صورتِ حال میں اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ غالباً سعودی عرب ہی وہ اگلا ملک ہوسکتا ہے جو اسرائیل سے تعلقات قائم کرے گا۔