تعلیم کےساتھ تربیت ناگزیرہے

September 30, 2020

کھلاتضاد…آصف محمود براہٹلوی
وطن عزیز پاکستان میں ان دنوں ایسے واقعات کی بھرمار ہے جن کا تعلق معاشرے سے ہے۔ ملک میں تعلیم عام ہے بلکہ تعلیم میں طبقاتی تقسیم نمایاں ہے۔ غریب و امیر، انگلش و اردو، گورنمنٹ اسکولز و پرائیویٹ تعلیمی سینٹرز بلکہ ان میں بھی بورڈنگ اسکولز وغیرہ وغیرہ، پہلے تو قلم، دوات، تختی، پن کا سہارا لیا جاتا تھا۔ نثر پڑھائی جاتی، پھر آہستہ آہستہ اساتذہ کرام سبق سے مشق کراتے، پڑھائے گئے مضامین میں سے معروضی سوالات پوچھتے، اس سے طلبہ و طالبات میں پڑھنے کی جستجو بیدار ہوتی، مقابلے کا رجحان بڑھتا، سخت محنت اور دل لگاکر پڑھائی کرتے، امتحانات میں بھی سخت محنت کرتے اور ایک دوسرے سے سبقت حاصل کرنے کی کوشش کرتے، اساتذہ کا احترام کیا جاتا، بچوں کو صرف اساتذہ کہتے کہ ہوم ورک نہیں کیا، تمہارے والد سے بات کروں گا، یا والد کہتے کہ گھر میں تمہارا رویہ درست نہیں، تمہارے ماسٹر صاحب سے بات کروں گا تو بچوں کے لیے وہی دھمکی کام کر جاتی لیکن آج نہ وہ اساتذہ رہے، نہ وہ بچے اور نہ ہی وہ والدین، چونکہ زندگی مشینی دور میں شامل ہوگئی ہے، مادی طور پر اب ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کے لیے حق حلال کی کمائی کو ایک طرف رکھتے ہوئے آسان حصول دولت کے لیے نت نئے جتن کیے جارہے ہیں، معاشرے میں ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی زندگی کا معیار ہی بدل گیا، گویا کہ امتحانات میں معروضی پیٹرن کے وجود میں آنے سے سو فیصد نمبر تو حاصل کیے جاتے ہیں لیکن تربیت میں کمی رہ جاتی ہے جو انفرادی و اجتماعی سطح پر روزمرہ زندگی کے ہر موڑ پر نمایاں ہوتی ہے۔ اس کے برعکس مغربی ممالک بالخصوص برطانیہ میں شروع دن سے ہی بچوں کو تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت دی جاتی ہے جس سے بچوں میں اعتماد بڑھتا ہے۔ عملی طور پر اساتذہ بچوں کو جھوٹ سے منع دوسروں کی خدمت کے لیے نمونہ بن کر پیش آتے ہیں جب کہ ہمارا معاشرہ جو دوسروں کے لیے مثال ہونا چاہیے وہ ابتری وتنزلی کا شکار ہوگیا ہے، اصول، ضابطے، قوانین ہمارے ملک میں بھی موجود ہیں لیکن معاشرے میں طبقاتی تقسیم، امیر و غریب کے فرق، چھوٹے بڑے، طاقتور اور کمزور میں واضح فرق نے معاشرے کی اخلاقی قدروں کو نچوڑ کر رکھ دیا۔ لوگ اس بات پر پختہ یقین رکھتے ہیں کہ کمزور افراد جن کااعلیٰ بیورو کریسی کے ساتھ تعلق نہیں ہیں، ان پر کوئی برا وقت آن پڑے تو خاموش ہوجاتے ہیں، یہ سوچ کر کہ جو ہونا تھا وہ ہوگیا، مقدمہ بازی سے اب رہی سہی کسر بھی نکل جائے گی، محافظ بھی مجبوری کا فائدہ اٹھائیں گے، واقعہ لاہور موٹر وے کو ہی لے لیا جائے، اگر ترقی یافتہ ملک میں ہوتا تو ریاست مظلوم کے ساتھ کھڑی ہوجاتی، آفیسرز ملک و قوم کے خادم اپنی ذمہ داریوں سے توجہ ہٹانے کے لیے مختلف تاویلیں نہ گھڑتے، پہلی کال تو اس متاثرہ خاتون نے پولیس کو کی تھی۔صرف اس پولیس آفیسر کو بتایا تھا، ایک خاتون تین بچوں کے ساتھ اکیلی موٹر وے کے ویرانے میں کھڑی ہے، اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ سب کے سامنے ہے، کہتے ہیں امریکہ، برطانیہ اور پاکستان کی پولیس کے حوالے سے بتایا جارہا تھا کہ برطانیہ، اسکاٹ لینڈ یارڈ کی پولیس وقوعہ کے پانچ منٹ کے اندر موقع پر پہنچ جاتی ہے، امریکہ کی تقریباً دس منٹ میں آتی ہے اور ریاست پاکستان میں واقعہ سے آدھ گھنٹہ پہلے پولیس کو پتہ ہوتا ہے، بعض اوقات اس طرح کے جملے اجتماعی معاشرے کی عکاسی کرتے ہیں، ہمیں تعلیم کے ساتھ ساتھ ہر شعبہ ہائے زندگی میں بہترین تربیت کی اشد ضرورت ہے۔