ہمدردی کا انعام

October 11, 2020

عاصمہ خان

ایک گائوں میں سیلاب آگیا۔بہت سے لوگ پانی میں بہہ گئے۔ لاتعداد گھر تباہ وبرباد ہوگئے ۔جو لوگ بچ گئے، ان کے پاس کھانے پینے کو کچھ نہ تھا۔

سی گاؤں کے ایک غریب کسان اور سنار کی اچھی دوستی تھی ۔ کسان اپنی بیوی، بچوں کے ساتھ جب اپنے دوست سنار کے پاس پہنچا تو وہ بھی اپنی پریشانی بیان کرنے لگا،’’بھائی !میرا گھرسیلاب سے بچ تو گیا، مگر دوکان سیلاب سے برباد ہوگئی اور تمام مال اور زیورات بھی سیلاب کی نظرہوگئے‘‘۔

’’پھر کیا کریں‘‘؟ کسان نے سنار سے سوال کیا ۔

’’میرا خیال ہے کہ شہر چلتے ہیں۔ وہاں جاکر ضرورکہیں نہ کہیں نوکری مل جائے گی۔ ’’راستہ بہت طویل ہے اور ہمارے پاس کوئی سواری بھی نہیں ہے۔راستے میں جنگل بھی آتاہے‘‘۔ کسان نے پریشانی سےکہا۔

’’پیشان مت ہو۔ کل صبح یہاں سے روانہ ہوںگے۔تمھارے بیوی بچے میرے گھر پر ہی رہیں گے‘‘ سنار نے کہا۔

دوسرے دن صبح دونو ں نے ضرورت کا کچھ سامان ساتھ لیا اورشہر کی طرف چل پڑے۔ چلتے چلتے آخر کھانے پینے کا سامان ختم ہوگیااور سنار کو تیز بخار بھی ہوگیا، اس سے چلا بھی نہیں جارہا تھا۔ کسان نے اسے درختوں کی آڑ میں محفوظ جگہ پرلٹادیا اور خود گرتا پڑتا جنگلی پھل وغیرہ تلاش کرنے چل دیا ۔کچھ دور چلا تھا کر اسے ایک شیردکھائی دیاجودرد کی تکلیف سےبےحال ہورہا تھا۔ شیر کو دیکھ کرکسان خوف سے کانپنے لگا، مگر شیرپھر بھی نہ اٹھ سکا ۔ کسان کو اس پر رحم آگیا، اس نے ہمت کی اور آگے بڑھ کر دیکھا تو اس کے پائوں میںکانٹا اندر تک گھساہوا تھا کسان نے ڈرتے ڈرتےکانٹا نکال دیا۔ زخم صاف کرکے اوپر رومال پھاڑ کرپٹی باندھ دی۔

شیرنے اسے ایسے دیکھا جیسے شکریہ ادا کر رہا ہو۔ اس نے سر کے اشارے سے اپنے ساتھ چلنے کو کہا۔کسان، شیر کے ساتھ چل پڑا کسان نے شیر سے کہاـ، ’’اے شیر ! میرا ایک اور ساتھی بھی کچھ دور جنگل میں بیمار پڑا ہے اور کمزوری کی وجہ سے اس سے چلا نہیں جارہا ہے۔ پہلے مجھے کچھ کھانے کےلئے جنگلی پھل وغیرہ کے درخت بتادو تو مہربانی ہوگی۔

شیراسے اپنے غار میں لے گیا۔کسان نے دیکھاکہ وہاں کھانے پینے کا سامان تھا، ساتھ انسانی جسم کی ہڈیاں بھی پڑی تھیں وہ سمجھ گیاکہ کوئی شکاری شیر کا لقمہ بن گیا ہوگا اور یہ اس کے کھانے کا سامان ہے ۔اس پر خوف طاری ہوگیا، اس نے کھانے پینے کا سامان جلدی سےکپڑےمیں باند کر کاندھے پر رکھا

توشیر نےپنجے مار کرایک جگہ گھاس میں چھپاہوا ایک قیمتی ہارکسان کو دیا۔ وہ دونوں غار سے نکل آئےکچھ دور جاکر شیر نے چھوٹے چھوٹے پودوں کی طرف پنجے سے اشارا کیا کسان سے نے جلدی جلدی کچھ پودے توڑ کرسامان میں رکھ لئے۔

کسان نے شیر کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا،’’اے اچھے شیر!تیرا بہت بہت شکریہ ،اب مجھے اجازت دو۔ میرا دوست میرا انتظار کررہا ہوگا‘‘۔

کسان شیر سے رخصت ہوکراپنے ٹھکانے پرآگیا۔ سامان میںپودوں کو دیکھ کراس نے اندازہ لگایا کہ شاید یہ شیر نے سنار کی طبیعت ٹھیک کرنے کے لیے بتائے ہیں۔ اس نے سنار کو اٹھاکراسے بوٹی کچل کر پانی کے ساتھ پلادی۔ کچھ دیر میں سنار کا بخار ختم ہوگیا ۔ کسان نے اسے جب تمام حالات بتائے اور قیمتی ہار دکھایا تو سنار کے دل میں لالچ آگیا اور وہ اسے چرانے کی ترکیبیں سوچنے لگا۔ کھانے پینے کا ذخیرہ مل چکا تھا، لہٰذا دونوں پھر شہر کی طرف چل پڑے۔شہر کے پاس ایک مسافر خانے میں یہ دونوں ٹھہر گئے۔ سنار کے دل میں لالچ تھا۔ جیسے ہی موقع ملا وہ ہار چرا کربھاگ نکلا ۔

کسان سنار کے دھوکا دے کر بھاگ جانے پر دکھی بیٹھا تھا کہ بادشاہ کے سپاہی اعلان کرتے ہوئے مسافر خانے کے پاس آگئے۔بادشاہ نے اعلان کرایاتھا کہ جوکوئی ملکہ کا علاج کرکے اسے اچھا کرےگا، اسے آدھی سلطنت انعام میں دی جائے گی۔ ملکہ روزبروز موت کی طرف جارہی تھی۔ بڑے بڑے مشہور طبیب آرہے تھے، مگر کوئی علاج کرنے میں کامیاب نہیں ہوا۔ کسان بادشاہ کے محل پہنچ گیا اور سپاہیوں سے آنے کامقصد بیان کیا ۔ وہ اسے بادشاہ کے پاس لے گئے۔

بادشاہ نے اسے اوپر سے نیچے تک دیکھتے ہوئے کہا،’’ اے شخص!یہاں کئی ملکوں کے معالج آئے ہیں تم تو طبیب نہیں لگتے،کہوپھر کیسے علاج کروگے؟ کسان نے کہا،

’’اللہ آپ کو اور ملکہ کو سلامت رکھے ۔بادشاہ سلامت !مایوس کیوں ہوتے ہیں۔آپ مجھے ملکہ عالیہ کے پاس لے چلیں۔ انشاء اللہ پہلی ہی خوراک سے ملکہ عالیہ تندرست ہوجائیں گی‘‘۔

’’اچھا یہ بات ہے تو آئو میرے ساتھ‘‘۔ بادشاہ کسان کو ملکہ کے پاس لے گیا۔ کسا ن نے جیب سے بوٹی نکال کراسے کچل کر پانی میں گھول کرجیسے ہی ملکہ کوپلائی، اس کے ہاتھ پائوں میں جنبش ہونا شروع ہوگئی ۔ اور اس نے آنکھیں کھول دیں۔ دوسرے دن وہ بات چیت کرنے کے قابل ہوگئی۔ تمام خادم، کنیزیں اور خود بادشاہ بھی یہ دیکھ کر حیران رہ گئے ۔ شام تک ملکہ مکمل طور پر بالکل ٹھیک ہوگئی۔

بادشاہ نے غریب اور نادار عوام کےلئے خزانے کے منہ کھول دیئے۔ کسان کو آدھی سلطنت دینے کا بھی اعلان کردیاگیا۔

کسان نے شروع سے لے کر آخر تک سارے حالات کا بادشاہ کو بتائے ،سنار کی بد عہدی اور دھوکے کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ سنار قیمتی ہار چرا کر فرارہوگیا ہے۔ گائوں میں سیلاب اور اس سے ہونے والی تباہیوں سے بادشاہ کو آگاہ کرتے ہوئے اس سے مددکرنے کی اپیل بھی کی ۔

بادشاہ کو سنار کی دھوکے بازی پر سخت غصہ آیا ۔ اس نے فوراََ سپاہیوں کا ایک دستہ روانہ کرتے ہوئے سنار کی فوری گرفتاری کا حکم جاری کردیا اور گائوں والوں کےلئے امدادی سامان اور مدد کے لیے کارندے بھی روانہ کیے۔ سنار کو اس کے گھر سے گرفتار کرلیا گیا۔

بادشاہ نے اعلان کرتے ہوئے اسے آدھی سلطنت دینے کی خواہش کی تو کسان نے کہا،’’بادشاہ سلامت !آپ اور آپ کی حکومت کو اللہ سلامت رکھے، آپ کی ضرورت آپ کے ملک کو ہے‘‘۔ بادشاہ اس جواب سے بہت خوش ہوا اور اسے مزید انعام و اکرام سے نوازا۔ دیکھا بچوں ہمدردی ،ایمانداری اور سچ بولنے سے اللہ کتنا نوازتا ہے۔