اسلام میں ’’اختلافِ رائے‘‘ کے اُصول و آداب

October 16, 2020

مولانا نعمان نعیم

(مہتمم جامعہ بنوریہ عالمیہ)

ارشادِ ربّانی ہے:۔’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، آپس میں جھگڑو نہیں، ورنہ تمہارے اندر کمزوری پیدا ہوجائے گی اور تمہاری ہوا اُکھڑ جائے گی،صبر سے کام لو‘‘۔(سورۃ الانفال،آیت 46) گزشتہ اہل مذاہب و ادیان کی بیماریوں سے بچنے اور عبرت و نصیحت حاصل کرنے کے لیے ان کا قصہ بیان کرتے ہوئے فرمایاگیا:’’اور مشرکوں میں سے نہ بنو،جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کیا اور گروہ گروہ ہوگئے،جس کے پاس جو ہے ،اسی پر وہ خوش ہے‘‘۔(سورۃ الروم، آیت 31\32)

اسلام انسانیت کی بقاء، معاشرے میں امن و سلامتی، اتحاد، اخوت اور بھائی چارگی کا ضامن ہے۔ قرآن کریم میں ہے:’’جنہوں نے اپنے دین میں الگ الگ راستے نکالے اور کئی گروہ ہوگئے،یقیناً ان سے تمہارا کچھ واسطہ نہیں،ان کا معاملہ تو اللہ کے سپرد ہے‘‘۔(سورۃ الانعام،آیت 159)اس آیتِ کریمہ میں حضور نبی اکرمﷺ کو آگاہ کیا جا رہا ہے کہ آپ ایسے لوگوں سے کوئی سرو کار اور تعلق نہ رکھیں، جنہوں نے اپنے دین کو ٹکڑے ٹکڑے کر کے اپنی جمعیت کا شیرازہ منتشر کر دیا۔

جامع ترمذی میں روایت ہے ،حضور نبی اکرم ﷺنے ارشاد فرمایا : ’’اجتماعی وحدت کو اللہ کی تائید حاصل ہوتی ہے، جو کوئی جماعت سے جدا ہو گا ،وہ دوزخ میں جا گرے گا‘‘۔اس کے علاوہ ملی شیرازے کو تفرقہ و انتشار کے ذریعے تباہ کرنے والوں کے لئے حضور اکرم ﷺ نے انتہائی سخت احکام صادر فرمائے ہیں۔صحیح مسلم میں روایت ہے،اللہ کے رسولﷺ نے ارشاد فرمایا:’’جو شخص اندھے جھنڈے کے نیچے لڑے ،اس طور پر کہ عصبیت کی وجہ سےغصے کا اظہار کرے ،یا عصبیت کی طرف لوگوں کو بلائے یا قومیت کی بنیاد پر کسی کی مدد کرے پھر وہ مارا جائے ،تو اس کی موت جاہلیت کی مو ت ہوگی اور جو میری امت کے خلاف تلوار اٹھائے،نیک اور بد،ہر ایک کو قتل کرے،اس کا نہ مجھ سے (یعنی میر ی جماعت سے)کوئی تعلق ہے اور نہ میرا اس سے کوئی تعلق ہے‘‘۔ سنن ابو داؤد میں روایت ہے ،رسول اکرمﷺ نے جاہلی عصبیت وانانیت کی مذمت کرتے ہوئے ارشادفرمایا:’’جس نے عصبیت کی دعوت دی، وہ ہم میں سے نہیں ہے اور جس نے عصبیت کے باعث قتال کیا، وہ ہم میں سے نہیں ہے اور جو عصبیت میں مبتلا ہوکر مرا وہ ہم میں سے نہیں ہے‘‘۔ سنن ابو داؤد میں عصبیت کی حقیقت کے حوالے سے روایت موجود ہے، رسول اللہﷺ سے عرض کیا گیا کہ عصبیت کیا ہے؟

آپ ﷺنے ارشاد فرمایا :’’ عصبیت یہ ہے کہ تم ظلم پر اپنی قوم کی حمایت کرو ‘ ‘۔مسند احمد میں روایت ہے ،ایک مرتبہ آپ ﷺسے دریافت کیا گیا کہ کیا عصبیت اسے کہتے ہیں کہ کوئی شخص اپنی قوم اور جماعت کو عزیز رکھے ؟آپ ﷺنے فرمایا، نہیں!بلکہ عصبیت اسےکہتے ہیں کہ کوئی شخص ظلم کے معاملے میں اپنی قوم وجماعت کی (اندھی)حمایت کرے۔آپ ﷺ نے اپنی روشن تعلیمات کے ذریعے قومیت، لسانیت اور علاقائیت کے نعروں کا خاتمہ فرمایااور بتایا کہ اسلامی معاشرہ امن وسکون کا معاشرہ ہے،جو محبت،اْخوت اور ہم دردی کا درس دیتاہے،جہاں اختلاف رائے کے بھی اصول و آداب ہیںجو مسلمانوں کو رواداری ،درگزر ،تحمل و برداشت اور امن و سلامتی کا درس دیتے ہیں۔لیکن آج ہم مسلمانوں نے اس سبق کو یکسر بھلادیا ہے ،باہم شیر وشکر ہونے کے بجائے آپس میں دست و گریباںنظر آتے ہیں۔قومی و لسانی تعصبات ،فرقہ وارانہ اختلافات ،تنگ نظری ،شدت پسندی،مذہبی منافرت یہ تمام اسلامی تعلیمات کے منافی ہیں۔

صحیح مسلم میں رسول اکرمﷺ کاارشاد گرامی ہے، اللہ تعالیٰ تمہارے لئے تین چیزوں کو پسند فرماتا ہے اور تین چیزیں ناپسند فرماتا ہے۔ جن کو پسند کیا۔ وہ یہ ہیں : ۱) اللہ چاہتا ہے تم سب اس کی عبادت کیا کرو۔ ۲) اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ۔ ۳) اللہ کی رسی کو اجتماعیت کے ساتھ تھام لو اور ٹکڑوں ٹکڑوں میں نہ بٹو۔تین چیزیں جو اللہ کو ناپسند ہیں، وہ یہ ہیں : ۱)قیل وقال کرنا، بحث و تمحیص کرنا، تکرا رکرنا چھوٹی چھوٹی بات پر جھگڑا کرنا جس سے اختلافات بڑھتے اور معاشرے میں پھوٹ پیدا ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اس رویے کوسخت ناپسند کرتا ہے…۲) اور زیادہ سوال کرنے کو اللہ ناپسند کرتا ہے۔ ۳)اور مال کو بے جا ضائع کرنا اللہ ناپسند کرتا ہے۔

موجودہ دور میں امت مسلمہ کو سب سے خطرناک مرض جو لاحق ہوا ہے وہ ہے اختلاف اور مخالفت۔ ذوق ، رجحان، کردار، اخلاق یہاں تک کہ معتقدات و نظریات ، افکار و آراء، اسالیب فقہ، عبادات، ہر شے اور ہر معاملے میں اختلاف! حالانکہ اسلام نے توحید کے بعد باہمی اختلافات سے اجتناب ، تعلقات کو مکدر اور اخوت اسلامیہ کو مجروح کرنے والی ہر چیز کے سدباب اور امت مسلمہ کے اتحاد پر سب سے زیادہ زور دیا ہے۔

دین ودنیا کے ہرمعاملے میں اختلاف ایک ناگزیر امر ہے،جو ہر دور میں ہوتا آیاہے اورقیامت تک ہوتا رہے گا،غورکیاجائے تویہ بھی اللہ کی قدرت کا حسین مظہراور انسانی فطرت کا شاہ کارہے ،خودباری تعالیٰ کاارشاد ہے :اس کی نشانیوں میں سے آسمانوں اور زمین کی تخلیق (بھی)ہے اور تمہاری زبانوں اور تمہارے رنگوں کا اختلاف بھی،بے شک، اس میں اہلِ علم و تحقیق کے لئے عبرت کا سامان ہے۔(سورۃ الروم)

فطری طور پرہر انسان دوسرے انسان سے مختلف ہوتاہے ،مزاج میں ،فکر و تخیل میں، اطوار وعادات میں،شعور واحساس میں،یہی وجہ ہے کہ ایک باخبرانسان دوسرے انسان کے بنائے ہوئے ذہنی سانچے میں ڈھلنے کے لیے جلد تیار نہیں ہوتا ،وہ اپنی نگاہ سے دیکھتا ہے ،اپنے دماغ سے سوچتا ،اپنے دل سے سمجھتا ہے پھر حال و استقبال ،انجام وعواقب کو پیش نظر رکھ کر نظریہ قائم کرتاہے ،اسی لیے اختلاف کو زندہ قوموں کی علامت بتایا جاتا ہے، مگر اختلاف کے ساتھ وسعت ظرفی،تحمل وبرداشت اور احترام انسانیت بھی نہایت ضروری ہے۔

ہر اختلاف نہ تو مذموم ہے اور نہ ہی ہر اختلاف پسندیدہ اور قابل قبول ہوسکتاہے ، وہ اختلاف جس کا منشاء وسبب قبیح ہو، وہ اختلاف یقیناً قابل مذمت ہے ۔ تاریخ کے مطالعے سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ جب کبھی امت میں فکر ونظر کاشدید اختلاف پیدا ہوا،امت اصل مقاصد پر توجہ دینے کے قابل نہیں رہی،اس کی اجتماعیت منتشر ہوگئی،اس کی وحدت پارہ پارہ ہوگئی ،اس کا وجود خطرے میں پڑگیا، دشمنوں کے دلوں سے اس کا رعب کم ہوگیا اور وہ اغیار کا آلۂ کار بن گئی۔

(…جاری ہے…)