توجہ کا منتظر... شعبہ تعلیم

October 25, 2020

محمد ریاض علیمی

کہا جاتا ہے کہ نوجوان اس مُلک کا مستقبل، معمار ہیں۔ کہنے ،سُننے میںتو یہ بات بہت بھلی معلوم ہوتی ہے، لیکن اگر زمینی حقائق پر غور کریں، تو پتا چلتا ہے کہ ہماری نسلِ نو تب تک اس مادرِ وطن کے لیے ڈھال ثابت نہیں ہو سکتی، جب تک اسے معیاری تعلیم نہ دی جائے۔ ذرا سوچیے! نوجوانوں کی اکثریت ہونے کے باوجود آج بھی پاکستان کا شمار ترقی پذیر ممالک ہی میں کیوں ہوتا ہے؟کیوں کہ تعداد زیادہ ہونے سے کچھ نہیں ہوتا، جب تک نئی نسل کو تعلیم و تربیت کے زیور سے آراستہ نہیں کریں گے، تب تک وہ حقیقی سرمایا ہر گز نہیں بن پائے گی۔

تعلیم انسان کو اس قابل بناتی ہے کہ وہ اپنی زندگی بہتر انداز سے گزارسکے۔تب ہی تو دنیا بھرمیں تعلیمی نظام کی درستی پر بہت زور دیا جاتا ہے۔ ہمارے سامنے ایسے کئی ممالک کی مثالیں موجود ہیں جو معیشت سے زیادہ تعلیم پر توجّہ دیتے اور بجٹ کا بڑا حصّہ تعلیم پر خرچ کرتے ہیں۔ تعلیمی نظام کو بہتر بنانے کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی اور سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ ایک چینی کہاوت ہے’’خوش حالی کے لیے ایک سال کی منصوبہ بندی کرنی ہے ،تو فصلیں اُگاؤ، ایک سو سال کی منصوبہ بندی کرنی ہے ،تو درخت اُگاؤاور اگر ایک ہزار سال تک قوموں کے آگے وقار سے سر اُٹھا کر چلنا ہے، تو تعلیم پر سرمایہ لگاؤ۔‘‘

یہاں سرمایا لگانے کا مطلب ہر گزیہ نہیں کہ سرمایا لگا کر آنکھیں بند کرلی جائیں، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک نتیجہ خیز ہدف کو یقینی بنانے کے لیے اس پر نظر بھی رکھی جائے۔اس کی مثال ایسے دے سکتے ہیں کہ ایک باپ اپنی اولاد کی تعلیم پر خُوب پیسا خرچ کرتا ہے، اسے منہگے تعلیمی اداروں میں پڑھاتا، سالانہ ہزاروں، لاکھوں روپے خرچ کرتا ہے،مگر اُس کی ذات پر توجّہ نہیں دیتا کہ اولاد کیا پڑھ رہی ہے؟ کیسے پڑھ رہی ہے ؟اس کی تربیت پر دھیان نہیں دیتا، تو کیاایسے حالات میں اس کی اولاد کی تعلیم پر کی جانے والی سرمایہ کاری سود مند ثابت ہوگی…؟؟ہر گز نہیں۔

با لکل یہی معاملہ شعبۂ تعلیم کا بھی ہے۔ خیر، ہمارے یہاں تواس شعبے پر کچھ خاص دھیان دیا جاتا ہے اور نہ ہی پیسا خرچ کیا جاتا ہےاور اگر پیسے لگا بھی دئیے جائیں، تو پلٹ کر دیکھا نہیں جاتا کہ عوام کے ٹیکسز سے آنے والا پیسا صحیح جگہ استعمال ہو بھی رہا ہے یا نہیں۔ سرکاری تعلیمی اداروں کا تو حال یہ ہے کہ زیادہ تر تقررّیاں سفارش پر ہوتی ہیں۔اساتذہ کلاسز لینے جائیں یا نہیں ، تنخواہ لینے بر وقت پہنچ جاتے ہیں۔ جب ترسیلِ زر کا نظام مؤثر ، شفّاف اور نتیجہ خیز نہ ہو ،بڑی سے بڑی کرسی سے لے کر خاکروبوں تک فرض شناسی ، دیانت داری اور قومی ترقّی کا شعوری جذبہ ہی نہ ہو،تووہاں طلبہ کی تعلیم و تربیت پر کون اور کیوں کر دھیان دے گا۔اور ایسے اداروں سے فارغ التّحصیل نوجوان بھی ہر گزعلم وہنر ،دانش و لیاقت سےلیس نہیں ہوں گے۔

یاد رکھیے! انسانی جسم میں جو حیثیت روح کو حاصل ہے، شعبۂ تعلیم میں وہی کردار نظامِ تعلیم ادا کرتا ہے۔یعنی، یہ تعلیمی اداروں کے لیے قوّتِ حیات ہے۔ نظامِ تعلیم مربوط اور مضبوط ہو، تو تعلیمی ادارے بھی بہتر کار کردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔مگر بد قسمتی سے ہمارے مُلک میں یہی شعبہ بے توجّہی ، عدم دل چسپی کا شکار ہے، گویا اس کا کوئی والی وارث ہی نہیں۔ معیارِ تعلیم بد سے بد تر ہورہاہے، جب کہ فیسز آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔تمام شہریوں کو یکساںتعلیم فراہم کرنا حکومتِ وقت کی ذمّے داری ہے، لیکن ہمارے ہاں سرکاری تعلیمی اداروں کا حال کسی سے مخفی نہیں ۔ نہ پڑھنے والے سنجیدہ ہیں ،نہ پڑھانے والے ۔

جہاں تک نجی تعلیمی اداروں کی بات ہے ، تواب یہ بھی کئی طبقات میں بٹ گئے ہیں،جہاں عموماًتعلیم ، تعلیم نہیں ، تجارت بن کر رہ گئی ہے، جب کہ معیاری تعلیم فراہم کرنے والے انگریزی میڈیم اسکولز ہر کوئی افورڈ نہیں کر سکتا، وہاں محض مختلف ڈَیز، ایکٹیویٹیز ہی کے نام پر ہزاروں ، لاکھوں روپے وصول لیے جاتے ہیں۔

یوں معلوم ہوتا ہے گویا ’’شعبۂ تعلیم‘‘ سرمایہ دارانہ نظام کے ہاتھوںیرغمال بن کے رہ گیا ہے۔ تعلیمی میدان میں جب تک یہ طبقات ختم نہیں ہوں گے، بہتری نہیں آسکتی۔پاکستان کومعرضِ وجود میں آئےکئی سال ہوچُکے ہیں۔ ہر چند سال بعد نئی تعلیمی پالیسیز تو بنائی جاتی ہیں،مگر وہ محض کاغذوں کی حد تک ہی محدود رہتی ہیں،عملی جامہ پہنانے کی فرصت کسے ہے۔ پھر چند سال گزر نے کے بعد کسی کو خیال آتا ہے کہ تعلیمی نظام میں بہتری آنی چاہیے۔سو، ایک کمیٹی بنادی جاتی ہے، ماہرین اکٹھے ہوتے ہیں، منہگے منہگے ہوٹلز میں کانفرنسز منعقد کی جاتی ہیں، کثیر سرمایہ خرچ ہوتا ہے، لیکن نتیجہ وہی’’ڈھاک کے تین پات‘‘۔ایسا نہیں ہے کہ ہمارے مُلک میں دانش وَروں یا ماہرینِ تعلیم کی کمی ہے۔ بس، کمی ہے تو لگن ، دل چسپی اور سنجیدگی کی۔