خودکشی کے واقعات

October 25, 2020

ویسے پورے ملک سے صوبے سندھ میں چند برسوں سے خودکشی کے واقعات بڑی تعداد میں رونما ہوئے ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ سے زیادہ خودکشی کے واقعات صحرائے تھر میں ہوئے ہیں، جس کے اسباب معلوم کرنے کے لیے مختلف سیاسی سماجی تنظیموں سمیت انسانی حقوق کے تنظیموں نے تھرپارکر ضلعے کے ہیڈکواٹر شہر مٹھی اور دیگر شہروں میں انسانی حقوق کمیشن تنظیم والوں نے ایک دو روز تک کے سیمینار منعقد کرکے تھر کی عوام اور تھر کے سیاسی سماجی کارکنوں سے رابطے کرکے خودکشی کے اسباب معلوم کرنے کے بارے میں معلومات حاصل کیں کہ سندھ کے اس پسمندہ خطے صحرائے تھر میں یے خودکشی کے واقعات زیادہ تر کیوں ہوتے ہیں۔

ان کی رپوٹ کے مطابق جو تھر عوام کی رائے اور معلومات ملی ہیں، ان کے مطابق مختلف قسم کے اسباب سامنے آئے ہیں، مثلا بُھوک ، بدحالی، بیروزگاری اور بیماری سے تنگ ہونا چھوٹی عمر کی شادیاں اور تھر کے بااثر پٹلوں کے ظلم تشدد اور ان کے گھریلو تنازعات وغیرہ کے معاملے میں یے خودکشی کے واقعات ہوتے ہیں، خیر یہ سیدھی سادھی بات ہے کہ اگر یہ تسلیم کیا جائے کہ تھر میں لوگ خواتین خواہ مرد زیادہ تر خودکشی غربت اور بیروزگاری کی وجہ سے کرتے ہیں، تو پاکستان تو اپنی جگہ مگر دنیا کہ لوگ یہ تسلیم کرلیں گے کہ واقع تھر پسمندہ علاقہ ہے، جہاں غربت اور بیروزگاری حد سے زیادہ ہے۔

اس لیے ایسے خودکشی کے واقعات بلکل اسی وجہ سے ہوتے ہیں، خیر اس اسباب کو تسلیم کرنے کے بعد یہ نتائج سامنے آئے گے کہ واقعے تھر میں غربت کی وجہ سے خُودکشیاں ہوتی رہتی ہیں۔ اس تسلیم شد حقائق سامنے آنے کے بعد ہوتا یہ ہے کہ کسی غریب کی موت ہوتا قتل ہے، مگر علاقائی پولیس تھر کے سیاسی پٹیلوں کی ملوثت سے پولیس کی جھوٹی رپوٹیں جس میں پولیس کے ساتھ تعاون گاؤں کے بااثر پٹیلوں کا ہوتا ہے، تو وہ قتل خودکشی میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ آگے ان کو کوئی پوچھنے والا یا مزید تحقیقات کرنے والا کوئی طاقت ور فرد نہیں ہوتا ہے، جس خاندان میں یہ واقعہ ہوتا ہے، تو وہ اپنے گھریلو تنازعے کی وجہ سے قتل کے بعد اسے خودکشی دکھا دیتے ہیں اور گاؤں کے بااثر پٹیل یا وڈیرے کا تعاون حاصل کرلیتے ہیں اور ان وڈیرے کے ذریعے مقامی پولیس تک رسائی ہوجاتی ہے ،جیسے گاؤں کا پٹیل کہتا ہے کہ مقامی پولیس ان کے کہنے کے مطابق پولیس رپوٹ درج کرلیتی ہے، جس میں خود کی ہوئی تحقیقات دکھا دیتی ہے۔

بعض اوقات جعلی بنائی گئی خودکشی کی میت کا قریبی سرکاری اسپتال میں پوسٹمارٹم تک نہیں کراتے اور فوری دفن کر دیتے ہیں، فقط پولیس کے جانب سے اتفاقی موت کی نقل کاپی اپنے بچا کے لیے رکھ دیتے ہیں۔ قتل کا واقعات اس طرح ہوتا ہے کہ جب عورت یا مرد گھریلو تنازعے سے تنگ آکر بے ہوشی کے عالم میں اپنے آپ کو گاؤں کے قریبی کنویں یا تالاب میں چھلانگ دیتا ہے اور فوت ہوجاتا ہے یا جان بوجھ کر ان کے ہاتھ پائوں باندھ کر کسی قریبی کنویں یا تالاب میں پھینک کر ماردیا جاتا ہے۔ ان کو بھی خودکشی دکھادیتے ہیں۔

گھریلو تنازعے کے وجہ سے خصوصی خواتین گھریلو کے اندرونی تشدد یا گلا گھونٹ کر مارنے کے بعد ان کے گردن میں پھنڈا ڈال کر گھر کے کسی کمرے یا درخت میں لٹکایا جاتا ہے۔ اس میں زیادہ تر الزام کاروکاری کا بھی لگایا جاتا ہے۔ ان الزامات سے خواتین تنگ آکر خود یا اپنے بچوں سمیت گاؤں کے قریبی کنویں میں چھلانگ لگاکر اپنی جان بچوں سمیت دے دیتی ہیں۔ان کے علاوہ صحرائے تھر میں خصوصی وجہ غریب اور بیوس نچلے طبقے کے افراد کی عورتوں اور ان بچوں کے ساتھ تھر کے بااثر سیاسی پٹیل اور ان کی توسط سے بنی ہوئی ایک قسم کی مافیا کا کردار ہوتا ہے، جو اس میں گاؤں اور علاقے کے نہ پسندیدہ اور غنڈہ گردی کرنے والے گروہ کا یے کام ہوتا ہے۔

وہ ان غریب خاندان کی لڑکیوں کو بلیک میل کرکے پھنسا کر غیر جنسی فعل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، بعض اوقات ایسی لڑکیوں کو پکڑ کر جنسی حوس کا نشانہ بناتے ہیں، جس کی تازہ مثال صحرائے تھر کے شہر چیلہار کی نوجوان لڑکی مومل میگھواڑ کی ہے، جس کو اس طرح تنگ کرکے جسمانی تشدد کرنے والے گروہ کے سرغنہ آدم دل کا ہے، جس نے نوجوان لڑکی مومل میگھواڑ کو اپنی حوس کا نشانہ بنا ڈالا، لڑکی سے زیادتی کی، لڑکی مومل کو انصاف نہیں ملا تو اس نے خودکشی کرکے اپنی جان دے دی۔

اب بچی کے والدین کے شدید احتجاج کے بعد پولیس نےملزم آدم دل کو گرفتار کرلیا ہے۔ آدم دل کا گروہ وسیع ہے جو دلن جو تڑ گاؤں میں عرصے سے غریب خاندان کے بچیوں سے اس قسم کی اجتماعی زیادتیاں کرتا رہا اور علاقائی پولیس اور تھر کے سیاسی پٹیلوں کا تعاون بھی اس گروہ کے ساتھ رہا ہے، جس وجہ سے پولیس نے احتجاجوں کے بعد مجبور ہوکر اس گروہ کے سرغنہ آدم دل کو گرفتار تو کرکیا ہے، مگر ابتدائی پولیس تحقیقات میں اس مومل مقدمے کو کسی طرح ختم کرنے کی کوشش کررہی ہے۔

مومل میگھواڑ کے رشتیداروں اور انسانی حقوق کے ورکروں نے پورے سندھ میں اس مومل تشویش ناک سانحے کے بارے میں انصاف دلوانے کے لیے احتجاجی مظاہرے شروع کردیے ہیں اور ان مظاہروں کے دوران اور پہلے پولیس کارروائی کے دوران مقتول لڑکی مومل کے والدین اور ورثا نے بلند بانگ دعوی کئے کہ مومل نے انصاف نہیں ملنے کی وجہ سے مایوس ہوکر خودکشی کے ذریعے اپنی جان گنوائی ہے، مگر اس تھر کے علاقے میں 80 فی صد جو خودکشی کے جو واقات ہوتے ہیں،

وہ درحقیقت میں خودکشی نہیں قتل ہوتے کےہیں، پھر تھر کے سیاسی پٹیل اور مقامی پولیس کے سازباز سے قتل کو خودکشی بنا دیتے ہیں۔ اسی طرح تھر کے ہزاروں غریبوں کے قتل خودکشی بن جاتے ہیں، مگر اس راز کو کھولنے والا کوئی نہیں، کیوں کہ تھر کے سیاسی پٹیلوں اور پولیس کا تھر کے غریب خاندانوں پر بدستور دباؤ جاری ہے اور رہے گا۔