سر رہ گزر

November 01, 2020

’’خاکوں‘‘ سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا

غور کیا جائے تو یہ دشمنان مصطفیٰ ﷺ کے توہین آمیز خاکے بھی ’’ورفعنالک ذکرک‘‘ (اور ہم نے تیرے ذکر کو بلند کر دیا) کی تفسیریں ہیں، دنیا دیکھے گی کہ یہ ذکر سید الکونینؐﷺ اب مزید بڑھے گا، بلکہ اس سے امت میں اتحاد بھی پیدا ہو گا، آج تک دنیا بھر کی تاریخ میں مسلمانوں کی طرف سے کسی پیغمبر کی گستاخی نہیں کی گئی بلکہ جملہ انبیاء علیہم السلام پر ایمان اُن کے ایمان کا حصہ ہے، مسلم امہ کی اجتماعی سیاست پیغمبر اسلامؐﷺ کی ذات اقدس کے گرد گھومے گی، ذکر حبیبؐ مسلمانوں میں موجود انتشار کو ختم کر کے ان کو متحدہ قوت میں بدل دے گا، حق و باطل کے درمیان خلیج کا گہرا ہونا ملت مسلمہ کے درمیان خلیج کو پاٹ دے گا، فرانس کی تاریخ میں ابتداء ہی سے گستاخی رسول عالمین ﷺ کی توہین کا سلسلہ جاری رہا ہے، یہ ملک عشق مصطفیٰ ﷺ کا گہوارہ بنے گا، یہی تکوینی امور کا تقاضا ہے، اسلام اتنا ہی اس دنیا میں ابھرے گا جتنا کہ دبائیں گے، بعض مغربی ممالک میں خاکوں کا یہ شرار بو لہبی، چراغ مصطفوی کے نور سے مزید چار دانگِ عالم کو منور کر دے گا، مسلم کمیونٹی جہاں کہیں بھی ہے عشقِ حبیب ﷺ کے رنگ میں رنگ جائے گا سوئی ہوئی دینی حمیت جاگ اٹھے گی، سوا ارب مسلمانوں کے دلوں پر نشتر چلانے اور خاکے بنانے سے سوئی ہوئی امت کچھ اس انداز سے بیدار ہو گی کہ پھر باطل چین سے نہیں سو سکے گا، اسی فرانس پر سلطان عبدالحمید فرمانروائے سلطنت عثمانیہ نے اہانت رسول ﷺ کے جواب میں حملے کی دھمکی دی تھی اور ایک عرصے تک وہاں سے توہین رسالت کا فتنہ سر نہ اٹھا سکا تھا، آج پھر شاید کسی سلطان عبدالحمید کی ضرورت پڑ گئی ہے، بہرحال ہمارا ایمان ہے کہ یہ فتنہ خاکہ کشی خاک ہو گا، ذکر محمد رسول اللہ ﷺ ورفعنالک ذکرک کی بلندیاں سر کرتا جائے گا، فرانسیسی قوم خود کو بچا لے ورنہ ان کی داستان بھی نہیں ملے گی داستانوں میں، مسلم امہ کو ایسے ہی واقعات ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کر دیں گے، اغیار دراصل اپنے پائوں پر کلہاڑا چلا رہے ہیں؎

مصطفیٰﷺ جان رحمت پہ لاکھوں سلام

شمع بزم ہدایت پہ لاکھوں سلام

٭٭٭٭

دین فروشی

نئے فتنوں میں سے ایک فتنہ یہ بھی ہے کہ دین کو چھابے میں رکھ کر کوچۂ بازار میں بیچا جا رہا ہے۔ مسجد کی تعمیر ہو یا دین کی تشہیر چندہ مہم نئے نئے انداز میں عام ہوتی جا رہی ہے، بعض حضرات تو یہ چھابا چینلوں سے وزیراعظموں تک لے جاتے ہیں، اور اگلے دن جپھے چھپ جاتے ہیں پھر یہ اونچے داموں بکتے ہیں، اور اب تو دین سیاسی لبادے میں برائے فروخت ہے، پنجاب میں یہ فتنہ عام ہوتا جا رہا ہے، نہ جانے وزارتِ مذہبی امور کونسے امور انجام دے رہی ہے ۔ مساجد میں صفوں کے درمیان چادر کی گردش بھی جاری ہے‘ اے ’’اوقاف‘‘ تری غیرت کو کیا ہوا۔ جتنے بھی بڑے بڑے سجادے ہیں ان کے پاس ایک برگزیدہ قبر کے سوا کچھ نہیں، البتہ ایک جانشین ملوکیت کے انداز میں نسل در نسل چلتا ہے، اور لوگ اسی کے ہاتھوں کو بوسے اور جیبوں کو پیسے دیتے ہیں، ہر شخص کا کوئی نہ کوئی پیر ہونا ضروری ہے، اب وہ پیر چاہے اور کچھ نہ ہو کسی پیر کا بیٹا تو ہوتا ہے، پیر کا معنی ہے بوڑھا انسان نہ جانے ان بوڑھوں میں لوگ کونسی جوانی ڈھونڈتے ہیں جتنے صوفیائے کرام گزرے ہیں پھر لوٹ کے نہیں آئے آج کوئی ایک معین الدین اجمیریؒ نظام الدینؒ، فرید الدین مسعودؒ دکھا دیں، حالانکہ آج کے اس دورِ پُر فتنی میں ان کی بڑی ضرورت ہے۔ یہ معمہ ہمیں کبھی سمجھ نہیں آیا، اب تو دین سیاست سے چنگیزی دور کرنے نہیں اس میں شامل کرنے کے لئے شامل ہوتا ہے۔

سخت کافر تھا جس نے پہلے پہلے

مذہبی سیاست کو اختیار کیا

٭٭٭٭

وہ بڑا معصوم ہے!

سردار ایاز صادق نے اسمبلی میں جو کچھ فرمایا ان کے بعض اپنے بھی فرماتے ہیں کہ اچھا نہیں کیا، ساری باتیں کہنے کی نہیں ہوتیں، بعض اوقات ایک معزول بادشاہ اپنی تگ و دو میں اپنے کتنے ہی سابقہ لاحقہ پیروکاروں کو بھی کہیں کا نہیں چھوڑتا بہر صورت ہم ارشاد نبویﷺ پیش کرتے ہیں کہ زبانوں کو قابو میں رکھو کہ یہ بڑا فساد کھڑا کر سکتی ہے، ہم تو سمجھتے ہیں کہ جیسے ہمارے ہاں سب کچھ بے معنی ہو چکا ہے ایاز صادق کے فرمودات کو بھی اسی کیٹیگری میں ڈال کر اس کا نوٹس لے کر مزید بے معنویت پیدا نہ کی جائے، کہ اور بھی بلکہ اب بہت زیادہ اور بھی غم ہیں زمانے میں کچھ ان کا مداوا کر لیا جائے تو بندئہ مفلس کے احوال بھی بدلیں، کیا شیخ رشید کی ہر چینل پر نشست و برخاست سے آٹا، چینی، سبزیاں، گوشت یا مرنا سستا ہو جائے گا، ہم نے گرانی میں مرنے کو اس لئے شامل کیا ہے کہ اب تو مرنا بھی ایک مرنا ہے، قبر کے لئے دو گز زمین کوئے یار میں خریدنا میت کے بس میں نہیں۔ ہمارے ہاں ساڑھے تین دہائیوں سے کئی سمجھدار لوگ اول فول باتیں کرتے رہے، وہ سب معاف ہو گیا، ایاز صادق کے کہے کو بھی جانے دیں ویسے وہ بھی کچھ معذرت کر لیں۔اجازت ہو تو ایک نہایت مقدس شعر کو بدل کر یوں نہ پیش کر دیا جائے؎

وہ ایک موت جسے تو گراں سمجھتا ہے

ہزار موتوں سے دیتی ہے مفلسوں کو نجات

٭٭٭٭

سید و سرور محمدؐ نورِ جاں

....Oایک جملہ گردش میں ہے کہ دسمبر یا جنوری میں یہ حکومت روئے زمین پر موجود نہیں ہو گی۔

ترجمہ اس کا یہ ہے کہ کہیں اس جملے کے جملہ خالق ہر چند کہیں کہ ہیں نہیں ہیں ہو جائیں۔

....O گرفتاری قبل از جرم

عدلیہ سے گزارش ہے کہ کم از کم اس لعنت سے تو چھٹکارا دلا دے۔

....Oعید میلاد النبیؐﷺ یکم ربیع الاول سے جاری ہے آخری دن تک رہے گی۔

نبی رحمتؐ کا لنگر اتنا وسیع ہو گیا ہے کہ جس نے نہیں کھانا تھا اس نے بھی کھا لیا، جگہ جگہ ان کا باڑہ بٹتا ہے، جو مہنگائی کے ذمہ دار ہیں وہ بھی لنگر چلا رہے ہیں، بہرحال سرور کائناتﷺ اس ملک کے غریبوں کا پیسہ ضرور کسی نہ کسی صورت انہیں واپس دلائیں گے۔