مقصدِ زندگی، معلوم ہی نہیں

November 14, 2020

مجتبیٰ فاروق

قوتو ں، صلاحیتوں، حوصلوں، اُمنگوں ، جفا کشی ،بلند پروازی اور عزائم کا دوسرا نام نوجوانی ہے ۔ کسی بھی قوم وملک کی کامیابی وناکامی ،فتح و شکست ، ترقی وتنزل اور عروج وزوال میں نوجوانوں کا اہم کردار ہوتا ہے ۔ ہر انقلاب چاہے وہ سیاسی ہو یا اقتصادی ،معاشرتی سطح کا ہویا ملکی، سائنسی میدان ہو یا اطلاعاتی ونشریاتی میدان، غرض سب ہی میدانوں میں نوجوانوں کا کردار نہایت ہی اہم اور کلیدی ہوتا ہے ۔

روس کا انقلاب ہو یا فرانس کا یا مارٹن لوتھرکنگ کا برپا کردہ انقلاب، ہر انقلاب کو برپا کرنے کے پیچھے نوجوانوں کا اہم حصہ کار فر ما رہا ہے۔ ماضی میں بھی جیسا کہ تاریخ سے ثابت ہےکہ ماضی میں بھی ہر چھوٹی بڑی تبدیلی نوجوانوں ہی کے ذریعے آئی ہے۔ زمانہ حال میں بھی ہر تحریک چاہے سیاسی ہو یا مذہبی، سماجی، ان میں نوجوان ہی پیش پیش ہیں۔

ڈاکٹر ابراہیم ناجی نے اپنے کتاب’ Have you Discovered its Real Beauty‘میں ایک واقعے کاتذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ’’ میں نے ناروے کے ایک ہوٹل میں نوجوان کرس سے پوچھا کہ تمھاری زندگی کا مقصد کیا ہے‘‘؟ اس نے حیران ہوکر جواب دیا کہ مجھ سے آج تک کسی نے اس طرح کا سوال نہیں کیا اورپھر اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ میری زند گی کا کوئی مقصد نہیں ،کیا زندگی کا کوئی مقصد بھی ہوتا ہےا ؟۔

عصرِجدید میں جب نوجوانوں سے پوچھا جاتا ہے کہ زندگی کا مقصد کیا ہے تو ان کا بھی جواب کرس کی طرح ہی ہوتاہے۔

آج سائنس ،ٹیکنالوجی اور ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی دھن نے ایسا ماحول قائم کر رکھا ہے کہ ہر نوجوان دائیں بائیں اور پیچھے کی طرف دیکھنے کی زحمت تک گوارا نہیں کر تا اور ہر ایک کیرئیر کو بہتر سے بہتر بنانے کے لیے دن رات ایک کردیتا ہے ۔وہ سماج میں ر ہنے والے دوسرے افراد سے ہی کیا، وہ تو اپنے ہمسایے سے بھی بے گانہ ہوتا ہے، کیو نکہ وہ اس خود ساختہ اصول پر عمل کرتا ہے کہ مجھے اپنے علاوہ کسی اور سے کوئی سروکار نہیں ہے اور نہ وہ اپنے علاوہ کسی اور کو جاننے اور سمجھنے کی کوشش کر تا ہے۔

وہ چاند پر کمندیں ڈالنے کے لیے ہر وقت کو شاں رہتا ہے لیکن اپنے مقصد وجو د سے ناآشنا ہوتا ہے ۔وہ قابل ذکر اسناد کا حامل تو ہوتا ہے لیکن اس کے اندر دوسروں کے لیے حمایت اور ہمدری کا جذبہ نہیں ہوتا۔ اس کے پاس وافر مقدار میں معلومات ہوتی ہیں لیکن علم حق سے محروم رہ کر زندگی اس گدھے کی طرح گزارتا ہے ،جس کی پیٹھ پر کتا بوں کا بوجھ لاد دیا جائے لیکن بیچارے گد ھے کو معلوم نہیں ہوتا کہ اس کی پیٹھ پر کس قسم کا بوجھ لاد دیا گیا ہے۔اندھی کیر ئیر پرستی ایک نوجوان کو سماج سے الگ تھلگ کر دیتی ہے ۔

آج کا نوجوان بے شمار مسائل اور الجھنوں میں گھر اہوا ہے ۔ ایک طرف غیرمتوازن نظام تعلیم کے مسائل کا سامنا کر رہا ہے تودوسری طرف اقتصادی مسائل سے دوچار ہے ۔ اسی طرح ناقص تعلیم و تر بیت، حیا سوز مغربی فکر و تہذیب کے پیدا کردہ مسا ئل علاوہ ازیں نت نئے افکار کے پیدا کرد ہ مسائل اور الجھنوں کا انبار لگا ہو ا ہے، جن سے نوجوان طبقہ دو چار ہے ۔ یہ طبقہ مسائل کا سامنا کرنے سے کتراتا ہے، کیونکہ انہیں مطلوبہ رہنمائی نہیں مل رہی ہے۔

اس سلسلے میں ماں باپ ،علما اور دانش وروں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنا کردار اداکریں تاکہ نوجوان طبقہ معاشرے کی تعمیر مؤثر کردار ادا کر سکے ۔نوجوان بھی اپنے اطراف میں دیکھیں، ایک دوسرے کو سمجھیں،زندگی گزارنے کا سلیقہ بھی آجائے گا اور زندگی کے رنگ ڈھنگ بھی سمجھ جائیں گے.

تعلیم یافتہ نوجوان، قلم اُٹھائیں اور لکھیں درج ذیل عنوان پر:

زندگی، تجربات کا دوسرا نام ہے۔ ہر انسان کی زندگی میں اتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں، جن سے کچھ سیکھ لیتے ہیں، کچھ ٹھوکر کھا کر آگے چل پڑتے ہیں، پچھتاتے اُس وقت ہیں، جب کسی مسئلے سے دوچار ہوجاتے ہیں، مگر حل سمجھ نہیں آتا۔ دکھ سکھ، ہنسی خوشی، یہ سب زندگی کے رنگ ہیں، جن سے کھیلا جائے تو بہت کچھ حاصل ہوتا ہے۔ مشاہدے میں آیا ہے کہ، آج کا نوجوان زندگی سے مایوس ہوتا جا رہا ہے۔

ایک تجربے کے بعد دوسرا تجربہ کرتا ہے، جب پے در پے ناکامیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو وہ مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے۔ لیکن زندگی کے تجربات بہت کچھ سکھاتے ہیں۔ ہم نے آپ کے لیے ایک سلسلہ بعنوان،’’ہنر مند نوجوان‘‘ شروع کیا ہے، اگر آپ تعلیم یافتہ ہنر مند نوجوان ہیں تو اپنے بارے میں لکھ کر ہمیں ارسال کریں، ساتھ ایک عدد پاسپورٹ سائز تصویر اور کام کے حوالے سے تصویر بھیجنا نہ بھولیں۔

اس کے علاوہ ایک اور سلسلہ ’’میری زندگی کا تجربہ‘‘کے نام سے بھی شروع کیا ہے، جس میںآپ اپنےتلخ وشیریں تجربات ہمیں بتا سکتے ہیں۔ بہت ممکن ہے کہ آپ کے تجربات یا تجربے سے دیگر نوجوان کچھ سیکھ لیں۔

ہمارا پتا ہے:

’’صفحہ نوجوان‘‘ روزنامہ جنگ، میگزین سیکشن،

اخبار منزل،آئی آئی چندریگر روڈ، کراچی۔