ذوالفقارعلی بھٹو سےعمران خان تک

November 23, 2020

صدائےزندگی…غفارانقلابی
پاکستان کے وزیراعظم عمران خان نے اعلان کیا ہےکہ گلگت بلتستان میں تحریک انصاف نے جن وعدوں پر الیکشن جیتا ہے ان کو پورا کیا جائے گا اور گلگت بلتستان کو عبوری صوبائی درجہ دے کر قومی اسمبلی اور سیینٹ میں نمائندگی دی جائے گی اور ساتھ ہی خوشخبری سنائی کہ آزاد کشمیر کے آنے والے انتخابات میں الیکٹرانک ووٹنگ سسٹم نافذ کیا جائے گا جس پر کوئی بھی دھاندلی کا شور نہیں کرے گا بلکہ ہر کوئی شفاف انتخابات کو تسلیم کر سکے گا ، آزاد کشمیر میں تحریک انصاف کے چیئرمین بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کےمطابق گلگت بلتستان میں کامیابی کے بعد آزاد کشمیر میں بھی بھرپور کامیابی حاصل کر کے حکومت بنائیں گے ، بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کئی مہینوں سے آزاد کشمیر میں الیکشن مہم چلائے ہوئے ہیں،سسٹم الیکٹرانک ہو یا مینول ہو آزاد کشمیر میں وہی پارٹی حکومت بناتی ہے جو اسلام آباد میں برسراقتدار ہو ، البتہ تحریک انصاف کی حکومت نے اس بار آزاد کشمیر کی مسلم لیگ حکومت کو چلتا کرنے میں جلدی نہیں دکھائی اور آزاد حکومت کو مدت پوری کرنے کی مہلت دی، گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کے اعلان کے بعد آزاد کشمیر کو صوبہ بنانے کی تلوار اب آزاد کشمیر پر بھی لٹک رہی ہے ، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کی کوشش پہلی بار نہیں ہوئی ، اس سے پہلے آزاد کشمیر کو صوبہ بنانے کی کوشش ذوالفقار علی بھٹو نے شملہ معاہدہ کے فوراً بعد کی تھی مگر آزاد کشمیر کی طلبہ کی تنظیم نیشنل سٹوڈنٹس فیڈریشن نے سول سوسائٹی کے ساتھ مل کر اس کوشش کو ناکام بنایا تھا ، ذولفقار علی بھٹو کا آخری جلسہ میرپور اسٹیڈیم میں ہوا تھا اور غالب امکان یہی تھا کہ وہ میرپور کی تاریخ کے سب سے بڑے جلسے میں آزاد کشمیر کو پاکستان کا پانچواں صوبہ بنانے کا اعلان کریں گے مگر این ایس ایف کے طلبہ نے بھٹو کے خطاب کے دوران ہنگامہ کردیا اور صوبائی درجہ کی تجویز کےخلاف شدید نعرہ بازی کی ، ان کے حکم پر کئی طالب علم لیڈروں کو گرفتار کرلیا گیا تھا ، ذوالفقار علی بھٹو ایک عوامی لیڈر تھے انہوں نے اس عوامی ردعمل کو دیکھتے ہوئے آزاد کشمیر کو صوبہ بنانے کا ارادہ ترک کردیا تھا آج پھر پچاس سال بعد اس معاملے کو عمران خان کی حکومت نے دوبارہ اٹھایا ہے ، اس کی ابتدا گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کے نعرے سے ہوئی ہے منقسم کشمیر کے دونوں جانب سے اکثریت نے اس تجویز کی مخالفت کی ہے مگر گلگت بلتستان کی تینوں بڑی پارٹیوں تحریک انصاف ، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے اس بنیاد پر الیکشن لڑا کہ گلگت بلتستان کو صوبہ بنائیں گے ، دلچسپ بات یہ ہے کہ آزاد کشمیر پیپلزپارٹی اور آزاد کشمیر مسلم لیگ ن نے گلگت بلتستان کو پاکستان کا صوبہ بنانے کی شدید مخالفت کی ہے مگر ان کی آواز کو کوئی پذیرائی نہیں بخشی گئی ، آزاد کشمیر کے سیاسی حلقے عمران خان کی حکومت کی کشمیر پالیسی کو شک کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں کہ وہ نریندر مودی کے کشمیر کے ٹکڑے ٹکڑے کرنے اور ان کو بھارت میں ضم کرنے کے غیر قانونی اقدام کو بین الاقوامی طور پر اٹھانے میں ناکام رہے ہیں بلکہ آزاد کشمیر بشمول گلگت بلتستان میں وہی اقدامات کر رہے ہیں جوکہ نریندر مودی لداخ اور جموں و کشمیر میں کر رہا ہے، حیران کن طور پر پاکستان کے وزیر خارجہ نے گپکار اعلامیہ کی حمایت کی ہے جوکہ کشمیریوں کے پیدائشی حق خود ارادیت کے مطالبہ سے پیچھے ہٹنے کے مترادف ہے،امریکہ میں مقیم ممتاز کشمیری رہنما غلام نبی فائی نے اس امر کی نشان دہی کی ہے کہ بعض مغربی حلقے پاکستان کی حکومت پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ اندرونی خود مختاری کو کشمیر کے مسئلے کو ایک حل کے طور پر اگر پاکستان قبول کر لے تو بھارت کو بھی اس پر آمادہ کیا جاسکتا ہے- امریکہ سے درآمد شدہ ایک معاون خصوصی خاص طور پر اس حل کی حمایت کر رہے ہیں ، غلام نبی فائی کا کہنا ہے کہ اندرونی خودمختاری کسی بھی طور حق خود ارادیت کی متبادل نہیں ہو سکتی اور کشمیری حق خود ارادیت سے کبھی پیچھے نہیں ہٹیں گے ، آزاد کشمیر کے وزیراعظم راجہ فاروق حیدر متعدد بار تقسیم کشمیر کے ناپاک عزائم کے خلاف مزاحمت کا اعلان کر چکے ہیں ، انہوں نے خو مختار کشمیر کی حامی تنظیموں کے ساتھ مل کر گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کی تجویزوں کو مشترکہ طور پر مسترد کیا ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارت کی موجودہ انتہا پسند حکومت نے کشمیریوں پر کشمیر کے اندر اور کنٹرول لائن پر جنگ مسلط کر رکھی ہے جس سے کشمیریوں کو کچلا جا رہا ہے ، مقبوضہ کشمیر میں آج جتنی سیاسی مزاحمت ہو رہی ہے پہلے کبھی نہیں ہوئی تھی یہاں تک کہ تمام بھارت نواز کشمیری پارٹیاں بھارت کے خلاف صف آرا ہیں ، فاروق عبداللہ انڈین پارلیمنٹ میں کہہ چکے ہیں کہ اگر لداخ میں چین سے بات چیت ہوسکتی تو کشمیر کے مسئلے پر پاکستان سے بات چیت سے انکار کیوں،محبوبہ مفتی نے حالیہ کنٹرول لائن پر سول آبادی کی دونوں جانب کشمیریوں کی شہادتوں ہر کہا ہے کہ بھارت اور پاکستان کو کشمیر پر بات چیت کرنی چاہیے ، امید کی جارہی ہے کہ امریکی کے نو منتخب صدر کشمیر میں انسانی حقوق کا مسئلہ مودی حکومت کے ساتھ اٹھائیں گے ، اندریں حالات پاکستان حکومت کو مقبوضہ کشمیر کے آزادی پسند عوام کے ساتھ ایک بار پھر یکجہتی کا اعادہ کرنا چاہیے تاکہ ان کی اخلاقی اور سیاسی مدد ہو سکے اور آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے عوام کو ڈکٹیشن دینے کی بجائے ان کی خواہشات کا احترام کرتے ہوئے آزاد کشمیر میں 13 ویں ترمیم کو تسلیم کرلینا چاہئے اور گلگت بلتستان میں بھی 13ویں ترمیم کی طرز پر اختیارات منتقل کرنے چاہیے اور سٹیٹ سبجیکٹ کو بحال کرتے ہوئے گلگتی اور بلتی لوگوں کے حق ملکیت کو تسلیم کیا جانا چاہئے۔