کراچی کے لئے 100منصوبے

November 28, 2020

دو کروڑ سے زائد آبادی کا حامل منی پاکستان کہلانے والا ملک کا صنعتی و تجارتی مرکز سابقہ وفاقی اور موجودہ صوبائی دارالحکومت ساحلی شہر کراچی جو کبھی اپنی کشادگی، صحت و صفائی اور روشنیوں کا نمونہ ہوا کرتا تھا، اِس وقت جس حال سے دوچار ہے وہ محتاجِ وضاحت نہیں۔ بظاہر تجاوزات اور آلودگی سے اٹا ہوا دکھائی دیتا ہے لیکن حالیہ مون سون نے اس کے زیر زمین انفرا اسٹرکچر کا سارا پول کھول کر اصل مرض کی تشخیص کر دی جس کے علاج کیلئے سندھ حکومت نے 10ارب ڈالر کی خطیر رقم کا تخمینہ لگایا تھا یہی وہ بنیادی مسئلہ ہے جسے حل کیے بغیر مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو سکتے۔ وزیراعظم عمران خان نے یہ صورت حال دیکھتے ہوئے وعدے کے مطابق دو ماہ کے عرصہ میں اپنی ٹیم کے توسط سے 100منصوبوں پر مشتمل پروگرام پیش کیا ہے۔ جو ٹرانفارمیشن پلان کے تحت 1117ارب روپے کی لاگت سے تین مرحلوں میں مکمل ہو گا۔ اس حوالے سے اسلام آباد میں جمعرات کے روز وزیراعظم نےاعلیٰ سطحی اجلاس میں جس میں وفاقی وزرا اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے شرکت کی متذکرہ منصوبے کے خدو خال پر روشنی ڈالتے ہوئے کراچی کے مسائل کا مستقل بنیادوں پر حل نکالنے کی ضرورت پر زور دیا۔ اُنہوں نے ہدایت کی کہ تجاوزات ہٹانے سے پہلے متبادل انتظامات کئے جائیں۔ کے فور کی استعداد بڑھانے اور اس سے متعلق سفارشات مرتب کرنے کیلئے تکنیکی کمیٹی بنائی جائے۔ وزیراعظم نے کہا کہ شہر میں بجلی موجود ہے لہٰذا نئے کنکشنوں میں تاخیر کا جواز نہیں۔ گھر کیلئے قرض لینے والوں پر بوجھ نہ ڈالا جائے اور یوٹیلٹی سروسز کی منظوری آسان ہونی چاہئے۔ اس موقع پر سیکرٹری وزارتِ ہائوسنگ اینڈ ورکس نے اجلاس کو کراچی میں بننے والے رہائشی منصوبے پاکستان کوارٹرز کے حوالے بتایا جس کے تحت 6000اپارٹمنٹ بنائے جائیں گے۔ وزیراعظم نے منصوبوں کی بر وقت تکمیل پر زور دیتے ہوئے کہا کہ مون سون کے دوران برساتی پانی سے ہونے والے نقصانات کا سبب نالوں پر غیر قانونی تعمیرات ہیں۔ اُنہوں نے شہریوں کو پانی فراہم کرنے کے کےفور منصوبے کی استعداد اور افادیت بڑھانے کے حوالے سے سفارشات مرتب کرنے کیلئے وزارت منصوبہ بندی کے تحت تکنیکی کمیٹی بنانے کی بھی ہدایت کی۔ بلاشبہ شہرقائد کی مسلمہ حیثیت کو سامنے رکھتے ہوئے اس کے مسائل کا حل اس قدر اہمیت کا حامل ہے کہ وفاقی حکومت کے ساتھ ساتھ سپریم کورٹ بھی بجا طور پر کسی قسم کی مصلحت دیکھنا نہیں چاہتی اور ہونا بھی یہی چاہئے۔ گزشتہ چار پانچ دہائیوں میں رفتہ رفتہ جس طرح جرائم سے لیکر شہری سہولتوں کے فقدان تک شہر کا جو نقشہ بگڑا، اِسےدرست کرنے کیلئے اداروں پر مشتمل ایک ٹیم ورک کی ضرورت ہے جو کسی بھی سیاسی و سماجی مصلحت اور پریشر گروپوں کو خاطر میں نہ لائے۔ کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی اسی سلسلے کی کڑی ہے سپریم کورٹ آف پاکستان نے اس حوالے سے یہ منصوبہ بر وقت مکمل نہ ہونے پر وزیراعلیٰ سندھ کو توہین عدالت جبکہ سیکرٹری ریلوے کو شوکاز نوٹس بھی جاری کیا ہے۔ کراچی 90کلو میٹر کی ساحلی پٹی پر مشتمل ہے، وفاقی حکومت نے حال ہی میں صدارتی آرڈیننس کے تحت سندھ کے جزائر کی تعمیر و ترقی کا پروگرام بھی بنایا ہے۔ متذکرہ 100منصوبوں پر مشتمل پروگرام صرف کراچی تک محدود نہیں ہے اس کے اثرات بحیثیت مجموعی پورے پاکستان پر مرتب ہونگے وزیراعظم نے اس حوالے سے یقین کا اظہار کیا ہے کہ اس کی تکمیل بر وقت ہوگی جس پر عملدرآمد کیلئے وفاق، صوبہ، فوج اور تمام اسٹیک ہولڈر شامل ہونگے تاہم اس پروگرام کو حقیقت بنانے کیلئے ضروری ہو گا کہ اسے سیاست سے قطعی بالاتر رکھا جائے اور قومی مفادکی خاطر سیاسی پوائنٹ سکورنگ سے مکمل اجتناب کیا جائے۔