کوونا ویکسین اورا س کا محفوظ استعمال …؟

November 29, 2020

تحریر: مشیل رابرٹ، ہیلتھ ایڈیٹر، بی بی سی
دنیا بھر میں مخلتف ممالک کے کمپنیاں کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے ویکسین کی تیاری کر رہی ہیں اور جلد ہی متعدد موثر ویکسینز اس وبا پر قابو پانے کیلئے دنیا میں دستیاب ہوں گی لیکن جہاں بہت سے لوگ جلد سے جلد ان ویکسینز کو لگوانے کے لیے بیتاب ہیں وہیں کچھ لوگ ایک انجان دوا کو اپنے جسم میں داخل کرنے پر پریشان دکھائی دیتے ہیں۔ ہمیں کیسے معلوم ہو گا کہ ویکسین محفوظ ہے؟ یہ وہ پہلا اور بنیادی سوال ہے جو سائنسدان کسی بھی ویکیسن کی تیاری اور اس کی جانچ یا نئے طریقہ علاج کا آغاز کرنے سے پہلے پوچھتے ہیں۔ کسی بھی ویکسین کے محفوظ ہونے کے تجربات کو لیبارٹری کی سطح پر شروع کیا جاتا ہے اور اس کا تجربہ جانوروں یا انسانی خلیوں پر کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد اس کو انسانی جسم میں لگایا جاتا ہے۔ یہ بھی پڑھیے کورونا ویکسین کے پیچھے ترک نژاد جوڑے کی کہانی چین میں سرکاری اہلکاروں پر کورونا ویکسین کے ’خفیہ تجربے‘ بل گیٹس پر ’مائیکروچپ‘ لگانے کا الزام، گائے کے گوبر سے علاج اور دیگر جھوٹے دعوے اس کا اصول یہ ہے کہ اس ویکسین کے تجربے کو چھوٹے پیمانے پر شروع کیا جائے اور اگلے مرحلے میں صرف اس وقت داخل ہوا جائے جب تک کہ اس کے انسانی صحت پر کوئی غیر معمولی اثرات ثابت نہ ہو جائیں اور اس بات کی تسلی کر لی جائے کہ یہ انسانی جسم کے لیے محفوظ ہے۔ کورونا ،تصویر کا ذریعہEPA ویکسین کی تیاری میں تجربات کا کیا کردار ہے؟ جب تک کہ لیبارٹری میں کیے جانے والے تجربات کے اعداد و شمار سے یہ ثابت نہ ہو جائے کہ اس کے نتائج مثبت اور حوصلہ افزا ہیں اور سائنسدان اس بات کی نشاندہی اور یقین نہ کر لیں کہ تیار کردہ ویکسین یا طریقہ علاج مؤثر ہے، اس کو اگلے مرحلے میں نہیں بھیجا جاتا۔ انسانوں پر تجربے کے لیے بڑے پیمانے پر رضا کاروں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس عمل میں آدھے رضاکاروں کو تیارکردہ ویکسین لگائی جاتی ہے جبکہ آدھوں کو سادہ محلول لگایا جاتا ہے۔ اس عمل میں محققین اور تجربے میں شامل رضاکاروں کو یہ نہیں بتایا جاتا کہ کس کو اصل ویکسین لگائی گئی ہے اور کس کو سادہ محلول، جب تک کہ ان کے لیبارٹری نتائج کا تجزیہ نہ کر لیا جائے۔ یہ اس لیے کیا جاتا ہے کہ اس عمل کے دوران کسی قسم کی جانبداری نہ ہو۔ ان تمام تجربات کے نتائج کو آزادانہ طور پر پرکھا اور جانچا جاتا ہے۔ کورونا کے ویکیسن کے تجربات بہت عجلت اور تیزی سے کیے گئے ہیں لیکن اس عمل میں کسی بھی سطح پر کیے گئے تجربات کو چھوڑا نہیں گیا۔ آکسفورڈ یونیورسٹی اور دوا ساز کمپنی آسٹرازنیکا کی ویکسین کے تجربات کو ایک موقع پر رضا کارانہ طور پر یہ جاننے کے لیے روک دیا گیا تھا کہ اس تجربے میں شامل ہزاروں افراد میں سے ایک فرد کی ہلاکت کیوں ہوئی۔ اس ویکیسن کے تجربے کو یہ واضح ہو جانے پر کہ اس فرد کی ہلاکت ویکسین سے متعلق کسی وجہ سے نہیں ہوئی دوبارہ شروع کر دیا گیا۔ کورونا ،تصویر کا ذریعہREUTERS نئی ویکسین یا طریقہ علاج کی منظوری کون دیتا ہے؟ کسی بھی نئی ویکسین کے انسانوں پر استعمال کی اجازت صرف حکومت کی جانب سے متعین ادارہ (میڈیسن اینڈ ہیلتھ کیئر پراڈکٹس ریگولیٹری ایجنسی) اس صورت میں دیتا ہے جب وہ اس کے انسانی استعمال کے محفوظ اور مؤثر ہونے پر مطمئن ہوتا ہے۔ اس ویکسین کی منظوری کے بعد بھی اس کی جانچ کا عمل جاری رہتا ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ اس کے کوئی مضر صحت اثرات یا دور وقتی اثرات نہیں ہے۔ اگر کسی کو شبہ ہو کہ وہ اس ویکسین کے مضر صحت اثرات کا شکار ہے یا ان میں مببتلا ہے تو وہ ڈرگ ریگولیٹری ایجنسی کو شکایت کر سکتا ہے۔ کورونا ویکسینز میں کیا ہے؟ اس وقت دنیا میں بہت سے کورونا ویکسین تیار کی جا رہی ہیں۔ آکسفورڈ یونیورسٹی اور آسٹرازنیکا کی تیار کردہ ویکسین میں ایک غیر نقصان دہ وائرس کا استعمال کیا گیا ہے جو سارس کوویڈ 2 یعنی کورونا وائرس سے مشابہت رکھتا ہے۔ امریکی کمپنی فائزر، بائیو این ٹیک اور موڈرنا کی تیارکردہ ویکسینوں میں ایک جنیاتی کوویڈ کا استعمال کیا گیا ہے جو انسانی مدافعاتی نظام کے ردعمل کی وجہ بنتا ہے اور انھیں ایم آر این اے ویکسینز کہا جاتا ہے۔ یہ ویکیسنیں انسانی خلیوں میں رد و بدل نہیں کرتیں بلکہ یہ صرف انسانی جسم کو کورونا کے وائرس کے خلاف مدافعت بڑھانے کا کام کرتی ہیں۔ چند ایک ویکسینوں میں کورونا وائرس سے پروٹین حاصل کر کے استعمال کی گئی ہے۔ بعض اوقات ویکسینوں میں دیگر اجزا مثلاً المونیم وغیرہ کا استعمال کیا جاتا ہے تاکہ ان کو زیادہ مستحکم اور مؤثر بنایا جا سکے۔ کیا ویکسین مجھے بیمار کرے گی؟ اس کے کوئی شواہد نہیں ہیں کہ اگر ویکسین میں موجود اجزا کو اتنی کم تعداد میں انسانی جسم میں داخل کیا جائے تو اس سے کوئی نقصان پہنچے۔ ویکسین آپ کو بیماری نہیں لگاتی بلکہ یہ آپ کے جسم کے مدافعاتی نظام کو یہ سکھاتی ہیں کہ اگر کوئی مخصوص وائرس جسم میں داخل ہو تو اس کا مقابلہ کیسے کرنا ہے۔ ویکسین کے باعث آپ بیمار نہیں ہو سکتے۔ اس کے برعکس یہ آپ کے جسم کے مدافعتی نظام کو انفیکشن کی پہچان اور اس سے لڑنے کے طریقے سکھاتی ہے۔ کچھ افراد میں ویکسین لگنے کے بعد معمولی علامات ضرور ظاہر ہوتی ہیں جیسے پٹھوں میں درد، ہلکا سا بخار وغیرہ۔ یہ کوئی بیماری نہیں ہے بلکہ ویکسین لگنے کے بعد جسم کا ردِعمل ہے۔ بہت کم ایسا دیکھنے میں آتا ہے کہ کسی ویکسین کے باعث الرجک ردِعمل سامنے آئے۔ کسی بھی منظور شدہ ویکسین پر اس میں موجود اجزا درج ہوتے ہیں۔ یہاں آپ کو خبردار بھی کیے دیتے ہیں کہ سوشل میڈیا کے ذریعے ویکسین مخالف جھوٹی کہانیاں پھیلانے کے عمل کا آغاز ہو چکا ہے اور ان کی بنیاد سائنس ہرگز نہیں ہے۔ کورونا ،تصویر کا ذریعہBIONTECH کیا کوویڈ 19 سے متاثرہ شخص کو ویکسین لگانا محفوظ ہے؟ اگر کسی کورونا وائرس کی ویکسین کو منظوری مل جاتی ہے تو یہ عین ممکن ہے کہ ایسے لوگوں کو بھی یہ دی جائے گی جنھیں ماضی میں کووڈ 19 ہو چکا ہے۔ ایسا اس لیے کیا جائے گا کیونکہ قدرتی مدافعت ہمیشہ کے لیے حفاظت نہیں دے سکتی اور ہم نے کورونا وائرس سے دوسری مرتبہ متاثر ہونے والے کیسز بھی دیکھے ہیں۔ کیا جانور ان ویکسینز کی تیاری میں محفوظ ہیں ؟ چند ویکسینز جیسے شنگلز ویکسین یا بچوں کی فلو ویکسین میں خنزیر کے گوشت کا جلیٹن استعمال ہوتا ہے۔ اسی طرح کچھ ویکسینز کو مرغی کے انڈوں پر یا چوزوں کے خلیوں کے ذریعے بنایا جاتا ہے۔ اس وقت سینکڑوں ویکسینز پر کام جاری ہے۔ ہمارے پاس اس وقت ان میں استعمال ہونے والے تمام اجزا کی تفصیل موجود نہیں ہے لیکن اکثر کووڈ ویکسینز جانوروں کو نقصان نہیں پہنچائیں گی۔ مجھے فکرمند ہونے کی ضرورت نہیں ہے؟ اس حوالے سے ہمارے پاس نمایاں سائنسی ثبوت موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ویکسین کے ذریعے ہی انفیکشنز سے بچا جا سکتا ہے۔ اب تک کے نتائج کے مطابق کورونا وائرس ویکسینز لوگوں کو بہت زیادہ بیمار ہونے سے بچانے اور ان کی جانیں بچانے کے لیے مفید ثابت ہوتی ہیں۔ کورونا وائرس ویکسین کی پہلی خوراک ان افراد کو دی جائے گی جنھیں اس کی سب سے زیادہ ضرورت ہے جیسے عمر رسیدہ افراد جو اس کے باعث شدید بیمار ہو سکتے ہیں۔ اب تک یہ واضح نہیں ہوا ہے کہ ویکسینز کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے میں کتنی کارگر ثابت ہوں گی۔ اگر یہ اس معاملے میں مفید ثابت ہوتی ہیں تو اکثریت کو یہ ویکسین لگا دی گئی تو اس بیماری کا خاتمہ ممکن ہو سکے گا۔