سمندروں کی دُوری اور کورونا

December 14, 2020

2020 ء بھی تندو تیز واقعات کےغبار میں گم ہو رہا ہے۔ اس سال تو کورونا کی وبا ہر خاص و عام سے ایسے چمٹی کہ مستقبل کے سہانے خواب دیکھنے والے خصوصاً وہ جو حصول علم کے لیے، رزق کی تلاش میں ،بہتر زندگی بسر کرنے کے لیے ملک چھوڑ کر دیار ِغیر میں جابسے، اس وبا نے ان کے مسائل میں کچھ زیادہ ہی اضافہ کردیا۔ وہ کیا سوچ رہے ہیں ،کیا چاہتے ہیں ،یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔لیکن سال 2020 ء میں دیارِ غیر میں مقیم پاکستانیوں،انہیں درپیش مسائل وغیرہ کے بارے میں مختصرا ً زیر نظر جائزہ رپورٹ میں ملاحظہ کریں ۔

********************

پاکستان کو صنعتی طور پر ایک ترقی یافتہ ملک بنانے کا خواب آج تک شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا ہے۔ ایک دور تھا جب پاکستان کو دنیا کی ایک اہم اناج کی منڈی کہا جاتا تھا مگر کئی دہائیوں کے گزرنے کے بعد صورتحال یہ ہے کہ ہم زرعی طور پر بھی اپنی پیداواری صلاحیتوں کو مستحکم نہ کر سکے بلکہ پیداواری صلاحیتیں کم ہوتی چلی گئیں ستم ظریفی دیکھئے کہ ہم ہزاروں ٹن گندم بیرونی ممالک سے درآمد کر رہے ہیں یہی حال چینی اور دیگر زرعی اشیاء کا ہے۔ زرعی ترقی میں انحطاط اور انتظامی کوتاہیوں کے سبب ہزاروں کھیت مزدور اور کسان بے روزگار ہو کر روزگار کی تلاش میں شہروں کا رخ کر رہے ہیں اور شہروں کی آبادیاں بڑھ رہی ہیں جبکہ شہروں میں بھی روزگار کے مواقع کم کم ہیں۔

اس وجہ سے 2020ء میں پاکستانی محنت کشوں اور باصلاحیت نوجوانوں کی اکثریت کا رجحان رہا کہ روزگار کی تلاش میں بہتر مستقبل کیلئے بیرونی ممالک میں قسمت آزمائی کی جائے۔ قیام پاکستان کے بعد ساٹھ کی دہائی میں تعلیم یافتہ اور باصلاحیت نوجوانوں کی ایک نمایاں تعداد تعلیم مکمل کر کے بیرون ملک ملازمتوں کی تلاش میں برطانیہ، امریکہ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک کو ہجرت کرتی رہی، مگر ستر اور اسی کی دہائیوں میں مشرق وسطیٰ کی ریاستوں میں ملازمت کی تلاش میں جانے والوں کی تعداد میں کئی گنا اضافہ عمل میں آیا۔

تازہ ترین اعداد و شمار کی روشنی میں سمندر پار پاکستانیوں کی تعداد دس ملین سے کچھ زائد ہے جو ہر سال اوسطاً انیس سے اکیس ارب ڈالر پاکستان کو زرمبادلہ کی شکل میں بھجواتے ہیں اور یہ رقم پاکستانی معیشت کو بہت بڑا سہارا فراہم کرتی ہے۔ سال 2020 میں ترسیلات میں اضافہ دیکھنے میں آیا کیونکہ ماہ جون اور جولائی میں عیدالاضحیٰ کی تیاریوں کے سلسلے میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے اپنے اہل خانہ کو زائد رقومات بھجوائیں۔ اس طرح 2020 میں تقریباً 23ارب ڈالر موصول ہوئے جو ایک ریکارڈ ہے، جبکہ 2020 میں کرونا وائرس نے پوری دنیا میں تہلکہ مچایا ہوا تھا، ہرچند کہ یہ وبائی مرض تاحال جاری ہے۔

سال 2020 کے اعداد و شمار کے مطابق سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں میں سمندر پاکستانیوں کی تعداد انتالیس لاکھ باون ہزار کے لگ بھگ ہے۔ بارہ لاکھ تیس ہزار پاکستانی یرطانیہ میں مقیم ہیں۔ اسپین میں ایک لاکھ چھ ہزار، فرانس میں ایک لاکھ تیس ہزار اور اٹلی میں ایک لاکھ چالیس ہزار پاکستانی مقیم ہیں۔ وزیراعظم کے خصوصی مشیر برائے سمندر پاکستانی زلفی بخاری نے ایک بیان میں کہا کہ، سمندر پار پاکستانی ملک کے عام انتخابات میں حصہ لے سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ سمندر پار آباد پاکستانیوں کو بائیو میٹرک شناختی کارڈ بھی جاری کئے جا رہے ہیں تاکہ وہ بینکوں میں اپنے اکائونٹ کھول سکیں۔

سال 2020 میں حکومت کی طرف سے وزارت برائے سمندر پار پاکستانی تارکین نے اعلان کیا ہے کہ اسلام آباد اور لاہور میں رہائشی مکانات اور کثیر المنزلہ فلیٹ تعمیر کرنے کے منصوبوں کو حتمی شکل دیدی گئی ہے یہ رہائشی یونٹ سمندر پار پاکستانیوں کو الاٹ کئے جائیں گے۔

سال دو ہزار انیس بیس کے مالی سال میں کرونا وائرس کے حملے نے عالمی معیشت، معاشرت، سیاست اور سماجی و قدرتی ماحول میں متاثر کیا۔ چین کے شہر ووہان میں زیر تعلیم پاکستانی طلبہ کو پاکستان لانے کیلئے بیس ملین روپیہ کی منظوری دی گئی ہے یہ طلبہ کرونا وائرس کی وجہ سے شہر میں نافذ لاک ڈائون کی وجہ سے شدید مشکلات کا شکار تھے۔

سال 2020 میں سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی نے جو سمندر پار مقیم پاکستانیوں کے مسائل پر غور کرتی ہے اس کے ایک اجلاس میں بیرونی ممالک میں آباد پاکستانیوں کو جو کرونا کی وبائی بیماری کی وجہ سے بعض ممالک میں محصور ہوگئے ہیں اور وطن واپس آنا چاہتے ہیں ان کو ریلیف دینے کیلئے خصوصی پروگرام پر عمل کرنے کی منظوری دی۔ اس کے بعد بیشتر پاکستانی تارکین وطن پاکستان واپس آئے۔

2020 میں حکومت پاکستان نے سینٹرل ڈائریکٹوریٹ آف نیشنل سیونگز کے تحت سمندر پار پاکستانیوں کیلئے امریکی ڈالر یا پاکستانی روپیہ میں اپنا اکائونٹ کھول سکتے ہیں۔

وزارت برائے سمندر پار پاکستانی اور افرادی وسائل نے فروری میں لگ بھگ 90 ہزار پاکستانیوں کو مختلف ممالک میں ملازمتیں فراہم کیں۔ نومبر 2020 میں سعودی عرب میں اٹھائیس ہزار پانچ سو چالیس مختلف کٹیگریز کی ملازمتیں دستیاب تھیں جن پر تقرری کیلئے درخواستیں طلب کی گئی ہیں۔ ان میں تعمیراتی مزدوروں سے لے کر اسپتال کی نرسوں تک کی ملازمتیں ہیں۔ وزارت خارجہ نے سمندر پار پاکستانی ملازمین جو سعودی عرب میں کام کرتے رہے یا کر رہے تھے جن کے تیس ستمبر 2020کو اقامے ورک پرمٹ کی مدت ختم ہوئی،انہیں سعودی وزارت محنت نے یہ سہولت فراہم کی ہے کہ وہ تمام ایسے ملازمین جن کے اقامے ختم ہوگئے وہ اسلام آباد میں سعودی سفارت خانے سے رجوع کرکے مطلوبہ کاغذات جمع کراسکتے ہیں تاکہ سفارت خانہ ان ملازمین کے کفیل یا کمپنی سے رجوع اقاموں کی مدت میں توسیع کرا سکے۔

پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کرونا وائرس کے دنیا بھر میں پھیلنے اور اس سے متاثرہ سمندر پار پاکستانیوں کیلئے اعلان کیا جو پاکستانی کرونا کے پھیلائو اور لاک ڈائون کی وجہ سے اپنی ملازمتیں کھو چکے ہیں ان کی تعداد چالیس ہزار کے قریب ہے ان کو وطن واپس لانے کی ہرممکن کوششیں کر رہی ہے ،مگر ہوائی پروازوں پر پابندی کی وجہ سے دبئی، قطر، استنبول، تاشقند، بنکاک اور کوالالمپور سے لانے میں کچھ مشکلات ہیں۔ درحقیقت 2020 کے اوائل میں کرونا وائرس کا جو پھیلائو رہا ،اس کے بارے میں اقوام متحدہ کے عالمی صحت کے ادارے نے انکشاف کیا کہ کرونا کی دوسری لہر اور پھر چند ماہ بعد تیسری لہر بھی آئے گی جب تک کہ اس وبائی بیماری کی ویکسین تیار نہیں ہو جاتی، اس کا سلسلہ چلتا رہے گا۔

اس حوالے سے دنیا کے تقریباً تمام ممالک نے لاک ڈائون ، ماسک پہننے اور ایک دوسرے سے فاصلہ رکھنے کے طریقہ کار پر عمل کرنے کا سلسلہ شروع کیا، ایسے میں صنعتی کارخانے، ہوٹل ریسٹورنٹ، شاپنگ سینٹرز، تعلیمی ادارے بند ہونا شروع ہوگئے۔ ان حالات میں بیشتر ممالک میں ملازمتوں سے محروم ہونے والوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ عمل میں آیا، جن میں سمندر پار پاکستانیوں کی تعداد بھی خاصی ہے۔ ان پاکستانیوں کو دیار غیرمیں مختلف مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ عالمی ادارہ صحت کے بموجب ستمبر اکتوبر سے دوسری لہر بھی ابھری اور مختلف ممالک نے احتیاطی تدابیر شروع کردیں۔ فی الفور سب سے موثر طریقہ کار ماسک پہننا اور لاک ڈائون ہے جس سے کرونا جیسی وبائی بیماری کا کسی حد تک سدباب کیا جا سکتا ہے۔

وزیراعظم کے مشیر برائے سمندر پار پاکستانی زلفی بخاری نے نومبر 2020 میںاعلان کیا کہ کویت کی حکومت نے پاکستان سے تقریباً تین سو ڈاکٹر، نرسیں، دیگر طبی عملہ کو ملازمتیں فراہم کرنے کیلئے اعلان کیا ہے۔ اس کے علاوہ کویت مزید پاکستانیوں کو بھی آئندہ ملازمتیں فراہم کرتا رہے گا۔

حالیہ جائزے کے مطابق تاحال سمندر پار پاکستانیوں کی مجموعی تعداد تقریباً ایک کروڑ ہےجو سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں میں زیادہ ہے۔ اس کے بعد برطانیہ، امریکہ، کینیڈا، یونان، اٹلی، اسپین، روس، فرانس، جرمنی، ناروے، ڈنمارک، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، ملائشیا اور جنوبی افریقہ میں پاکستانی ورکرز اور تارکین وطن پھیلے ہوئے ہیں۔ پاکستانی ورکرز کو دیار غیر میں مختلف مسائل کا سامنا کرنا پڑتا رہتا ہے۔ وہ پاکستانی جو اپنا وطن اور سب کچھ پیچھے چھوڑ کر ملازمت کی تلاش یا اچھی زندگی کی تلاش میں دیار غیر میں پناہ لیتے ہیں ان میں زیادہ تر کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

مشکلات سے نمٹنے کیلئے یہ جب پاکستانی سفارت خانوں اور قونصل خانوں سے رجوع کرتے ہیں تو انہیں کم کم ہی تعاون یا مدد میسر آتی ہے، زیادہ تر سفارت خانوں میں عملہ کی کمی یا فنڈز کی کمی کی شکایات سامنے آتی ہیں۔مثال کے طور پر ماہ اکتوبر 2020میں فرانس میں ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے حوالے سے کارٹون بناکرجو افسوسناک بے حرمتی کی گئی اس پر دنیا بھر کے مسلمانوں نے بیک وقت شدید احتجاج کیا اور فرانس کا ہر سطح پر بائیکاٹ کیا گیا ایسے میں پاکستان کی پارلیمان نے قرارداد مذمت پیش کی جس میں پہلا نکتہ یہ تھاکہ فرانس سے پاکستانی سفیر کو احتجاج کے طور پر واپس بلایا جائے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ فرانس میں گزشتہ طویل عرصے سے پاکستانی سفیر ہی نہیں ہے۔

سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں میں مقیم محنت کش پاکستانیوں کو زیادہ تر رہائش کے مسئلے میں مشکلات پیش آتی ہیں۔ کام کے اوقات اور چھٹیوں کے مسئلے میں مشکلات نہیں آتی ہیں ان معاملات میںبیشتر کفیل کا عمل دخل ہوتا ہے وہ اپنے کام کی خاطر دوسروں کی مشکلات کو خاطر میں نہیں لاتا۔ ان ممالک میں کفیل کا کردار بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ وہ اپنے ملازمین کے پاسپورٹ اپنے پاس رکھتا ہے۔ ویزا اقامہ پر جاری ہوتا ہے جو کفیل کی دسترس میں ہوتا ہے۔ ملازم دوسری ملازمت نہیں کر سکتا۔ کفیل اس کی عموماً اجازت نہیں دیتا۔ مگر ایک اچھی بات یہ ہوئی ہے کہ نومبر میںسعودی حکومت کی طرف سے یہ اعلان سامنے آیا ہے کہ جلد کفیل اور کفالت کا سلسلہ ختم کرکے ملازمین کو بڑی حد تک بااختیار بنا دیا جائے گا۔

پاسپورٹ ان کے پاس ہوگا اور وہ دوسری ملازمت بھی حاصل کر سکیں گے۔ یہ خبر سعودی عرب میں کام کرنے والوں کیلئے خوش خبری ہے۔ اس خطے میں پاکستانی ورکرز کا مقابلہ بھارتی، بنگلہ دیشی یا افریقی ورکرز سے ہوتا ہے۔ پاکستانی ورکرز کی زیادہ تعداد، کم تعلیم یافتہ اور غیر ہنرمند ہوتی ہے، ایسے میں دوسرے ممالک کے ورکرز فائدہ اٹھا جاتے ہیں۔ ان کمزوریوں کے باوجود پاکستانی ورکرز خواہ وہ ہنرمند ہوں یا غیر ہنرمند اپنی محنت اور جانفشانی کا سکہ جما چکے ہیں، البتہ چند پاکستانی اپنی بعض حرکات کی وجہ سے پوری کمیونٹی کیلئے باعث شرمندگی بھی ہوتے ہیں۔ سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں میں کئی کئی دہائیوں سے کام کرنے والوں کو رہائشی پرمٹ دیا جاتا ہے لیکن شہریت نہیں دی جاتی۔ مگر پچاس کی دہائی میں سعودی عرب کی حکومت نے پہلے پاکستانیڈاکٹر انور علی کو جو آئی ایم ایف کی طرف سے اس عالمی ادارے کے سعودی عرب میں گورنر مقرر ہوئے جن کا 1974 میں سعودی عرب میںانتقال ہوا۔

ان کے علاوہ ڈاکٹر غلام علی اختر نیازی ماہر معاشیات عمر چھاپرا، انجینئر عبداللہ عالم کو بھی شہریت دی گئی۔ تاہم سلطنت آف عمان کے فرمانروا سلطان قابوس مرحوم نے طویل مدت ملازمت پوری کرنے والے پاکستانیوں کی نمایاں تعداد کو عمان کی شہریت اور پاسپورٹ جاری کیا تھا۔ مغربی ممالک میں جیسے کینیڈا، امریکہ، برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک طویل مدت پوری کرنے والے پاکستانیوں کو اچھے چال چلن کی بنیاد پر شہریت دیتے ہیں، مگر عرب ممالک میں شہریت کا قانون نہیں ہے۔ یہ صرف ریاست اور اس کے قطعی بااختیار شخصیات کے رحم و کرم پر ہوتا ہے۔ البتہ سعودی عرب میں تبدیلی کا ایک عمل جاری ہے جس کے ذریعہ بعض قوانین میں ترمیم کی گئی ہے اور پابندیاں ختم کر دی گئیں یا نرم کردی گئیں اس سے پاکستانی محنت کشوں کو بھی کسی حد تک فائدہ ہوگا۔

2020 کی ایک اچھی خبر یہ ہے کہ قطر کی حکومت غور کر رہی ہے کہ پاکستانیوں کو ویزا سے مبرا قرار دیا جائے، امید ہے بہت جلد فیصلہ ہو جائے گا۔ اس سے قطر میں پاکستانی ورکرز اور ہنرمند افراد کو بہت زیادہ ملازمتیں مل سکتی ہیں کیونکہ قطر ایک جدید اور ترقی یافتہ ریاست کے طور پر ابھرنے کا خواہشمند ہے۔ اس ضمن میں پاکستانی محنت کشوں اور ہنرمند افراد سے بہتر افرادی قوت اسی خطے میں دوسری نہیں ہے۔ اس کا کھلا ثبوت سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی ترقی ہے جو چالیس دہائیوں پر محیط ہے۔ انسانی اسمگلر ایک مسئلہ ہے جو پاکستانیوں کو بیرون ملک ملازمتیں دلوانے یا یورپ، کینیڈا، آسٹریلیا، جاپان اور مشرق وسطیٰ میں پہنچانے کا آسرا دے کر ہزاروں لاکھوں روپیہ بٹورتے ہیں۔ انسانی اسمگلروں کا پورے ملک میں جال بچھا ہوا ہے یہ منظم طریقے سے کام کرتے ہیں۔ انسانی اسمگلرز پاسپورٹ کی تصویر بدل کے دوسرے افراد کو سفر کراتے ہیں۔ جعلی ویزا کی مہریں استعمال کرتے ہیں۔

ان کے پاس جعلی کام کرنے، جعلی دستاویزات تیار کرنے کا پورا بندوبست ہوتا ہے۔ مشرق وسطیٰ کیلئے لوگوں کو لے جانے کیلئے لانچیں بھی استعمال کرتے ہیں مگر 2020 میں بحریہ عرب اور خلیج کے سمندروں میں کوسٹ گارڈز کی پیٹرولنگ زیادہ ہونے کی وجہ سے لانچوں کے ذریعے لوگوں کو خلیجی ریاستوں میں اسمگل کرنے کا سلسلہ کچھ کم ہوا ہے۔ انسانی اسمگلرز کے اہم مراکز کراچی، لاہور، ملتان، پشاور، آزاد کشمیر، کوئٹہ کے علاوہ استنبول، یوگوسلاویہ، یونان، اٹلی، اسپین، فرینکفرٹ وغیرہ ہیں۔ جنوبی افریقہ ماسکو اور بنکاک بھی ان کے اہم مراکز رہے ہیں۔ انسانی اسمگلرز انسانوں کو دیار غیر میں اسمگل کرنے کیلئے جو طریقہ کار اپناتے ہیں، وہ خطرناک ترین موت اور زیست سے کھیلنے والے ہوتے ہیں اور اس طرح بیشتر افراد راستے ہی میں دم توڑ دیتے ہیں۔ ٹینکروں، کنٹینرز اور ربر کی بوٹس میں انسانوں کو غیر ممالک میں اسمگل کیا جاتا ہے۔

اکثر لوگ کنٹینرز اور ٹینکروں میں دم گھٹ کر مرجاتے اور لانچوں میں بھر کر سمندروں میں سفر کرانے والے یا تو سمندر بپھر جائے تو ڈوب جاتے ہیں یا پھر ساحلی پولیس کی پیٹرولنگ میں پکڑے جاتے ہیں۔ مگر المیہ یہ ہے ان انسانی اسمگلرز کو روکنے پکڑنے کے ذمہ دار ادارے آنکھیں بند کرلیتے ہیں۔ روزگار کی تلاش میں سرگرداں پاکستانی اسمگلرز کے ہاتھوں لٹتے رہتے ہیں۔ خطروں سے کھیلتے رہتے ہیں کبھی منزل مل جاتی ہے یا پھر جیل کے اندھیرے ان کے حصے میں آتے ہیں۔ یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔

تاہم وزارت برائے سمندر پار پاکستان اور ذرائع افرادی قوت سے فائونڈیشن برائے سمندر پار پاکستانی اور دیگر متعلقہ ادارے سعودی عرب متحدہ عرب امارات میں پاکستانی ورکرز کو ملازمتیں دلوانے کیلئے کوشیں کرتے رہے ہیں اور ہزاروں پاکستانی ان اداروں سے مستفید ہوتے رہے ہیں اور تاحال مستفید ہو رہے ہیں، یہ ایک حوصلہ افزا حقیقت ہے۔ سال 2020 میں عرب امارات، کویت، سعودی عرب اور قطر میں پاکستانی ملازمتیں حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں ،حالاں کرونا وائرس کے مہیب اثرات ہر طرف پھیلے ہوئے تھے۔

حکومت پاکستان نے پاکستانی تارکین وطن کے بچوں کی تعلیم و تربیت کے لئے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور برطانیہ میں اسکول قائم کئے ہیں جو ہائر سیکنڈری تک تعلیم دیتے ہیں۔ پاکستان میں بھی دو درجن اسکول اس پروگرام کے تحت کام کر رہے ہیں۔

سمندر پار پاکستانی محنت کشوں کا ایک اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ ان میں زیادہ تر افراد ان پڑھ ہوتے ہیں یا کم تعلیم یافتہ ہیں جن کو پاسپورٹ، شناختی کارڈ، ویزا اور دیگر معاملات میں دستاویزات تیار کرنا پڑتی ہیں۔ فارم وغیرہ پر کرنے ہوتے ہیں ایسے میں وہ سفارت خانے اور قونصل خانے کی طرف دیکھتے ہیں ان سے رجوع کرتے ہیں مگر اوپر سے بہت کم مدد فراہم کی جاتی ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ ہمارے پاس کام بہت ہے مگر عملہ کم ہے۔

سمندر پار پاکستانی جب اپنی چھٹیوں میں پاکستان آتے ہیں تو انہیں یہ توقع ہوتی ہے کہ ایئرپورٹ پر کسٹم کا عملہ ان سے نرم برتائو کریگا ہمیں کچھ رعایات دی جائیں گی مگر ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ ان پاکستانیوں کو یہ معلوم ہے کہ وہ اپنی محنت کی کمائی زرمبادلہ کی شکل میں اپنے وطن ارسال کرتے ہیں اس کے بدل میں انہیں کسٹم میں کچھ رعایات دی جائیں۔ تارکین وطن کو بعض یورپی ممالک میں مسلمان خواتین کے نقاب پہننے اور عبایا پہننے پر پابندی عائد کردی ہے جس سے خواتین کو دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

2020 اکتوبر میں فرانس میں ایک بار پھ توہین رسالت کے مسئلے پر شدید ردعمل سامنے آیا اور یہ احتجاج دوسرے یورپی ممالک، جنوبی ایشیا، مشرق وسطیٰ اور دیگر ممالک مں پھیل گیا۔ دنیا بھر کے مسلمانوں نے فرانس کی حکومت بالخصوص فرانسیسی صدر میناوئل میکرون کے خلاف شدید احتجاج کیا گیا اور ان کے توہین رسالت کے مرتکب عناصر کی حمایت کے اقدام کی بھر پور اتداز میں مذمت کی گئی اور فرانسیسی سامان کا بائیکاٹ کیا گیا۔

سال 2020 میں کرونا جیسی وبائی بیماری کے مہیب اثرات ہر طرف پھیلے ہوئے تھے۔ عالمی معیشت اور تجارت شدید مندی کا شکار تھے۔ سماجی حالات اور روزمرہ کی زندگی بہت زیادہ متاثر ہو رہی تھی۔ کارخانے، ہوٹل، تعلیمی ادارے اور شاپنگ سینٹرز بند ہو رہے تھے ان تمام نامساعد حالات کے باوجود 2020 میں زائد زرمبادلہ پاکستان بھجوایا۔ مالی سال 2018-19 میں ترسیلات کی مجموعی رقم 21.83 ارب ڈالر تھی جبکہ 2019-20 میں مجموعی رقم میں قابل قدر اضافہ عمل میں آیا اور رقم بڑھ کر 23.120 ارب ڈالر ہوگی۔ ایسے میں یہ ایک خوشگوار حیرت سے کم بات نہ تھی اس مثبت رجحان کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے مالی سال 2020-21 کیلئے 24ارب ڈالر سے زائد کا ٹارگٹ مقرر کیا ہے۔ خیال ہے کہ ترسیلات میں اضافہ کا رجحان برقرار رہے گا۔

درحقیقت سال 2019 میں سمندر پار جانے والے پاکستانیوں کی تعداد میں اضافہ ہوا اور اس سال پانچ لاکھ تریسٹھ ہزار سے زائد پاکستانی بیرون ملک ملازمتیں حاصل کرنے میں کامیاب رہے جبکہ سال 2018 میں بیرون ملک جانے والے پاکستانیوں کی تعداد تین لاکھ بیاسی ہزار کے لگ بھگ تھی۔ کرونا جیسی وبائی بیماری کے مہیب اثرات اور افراتفری کے باوجود سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں میں کام کرنے والے پاکستانی محنت کشوں اور ہنرمند افراد نے زائد رقومات ارسال کی ہیں۔ جیسے سعودی عرب سے 39% زائد رقم متحدہ عرب امارات سے 14.5% سےزائد رقم دیگر جی سی سی ممالک سے ترسیلات میں اضافہ 13.4فیصد رہا جبکہ برطانیہ سے 8.3فیصد زائد زرمبادلہ موصول ہوا۔

مالی سال 2020 میں سمندر پار پاکستانیوں نے سعودی عرب سے 5.4 ارب ڈالر متحدہ عرب امارات سے 4.7 ارب ڈالر، امریکہ سے 4.2ارب ڈالر، برطانیہ سے 3.5ارب ڈالر، یورپی یونین سے 4.86ارب ڈالر اور جی سی سی ممالک سے 2.0 ارب ڈالر کے لگ بھگ ترسیلات موصول ہوئیں۔ ان ترسیلات کے علاوہ جو رقومات سمندر پار پاکستانی حوالہ اور ہنڈی کے ذریعہ ارسال کرتے ہیں اس کا درست ریکارڈ معلوم کرنا مشکل ہے۔

یہ رجحان پرانا ہے اور ہنڈی یا حوالہ کے کاروباری افراد زائد رقم کا لالچ دے کر یہ کاروبار کرتے ہیں جو تقریباً دنیا کے بہت سے ممالک میں پھیلا ہوا ہے اور جنوبی ایشیا کے بیشتر سمندر پار کام کرنے والے اس چینل کو استعمال کرتے ہیں۔ اس لئے خیال ہے کہ ریکارڈ کردہ رقومات سے زائد رقومات پاکستان پہنچتی ہیں۔

امریکہ، کینیڈا اور برطانیہ سمیت دیگر یورپی ممالک میں رہائش پذیر تارکین وطن پاکستانی کاروبار، ملازمت یا محنت کے شعبوں سے وابستہ ہیں۔ پاکستانی طلبہ کی بھی نمایاں تعداد مذکورہ ممالک میں تعلیم کے حصول میں مصروف ہے۔ سال 2020 میں وبائی بیماری کے پھیلنے کی وجہ سے تعلیمی ادارے بھی شدید متاثر ہوئے ہیں۔ پاکستانی طلبہ جزوقتی ملازمت بھی کرتے ہیں اور تعلیم بھی جاری رکھتے ہیں۔ جدید تعلیم، تحقیق اور تنوع کے اس دور میں مسابقت میں بہت اضافہ ہوا ہے۔

مگر پاکستان میں تاحال صنعتی کارخانوں میں نمایاں اضافہ اور سرمایہ کاری میں اضافہ ناکافی ہے جب تک صنعت، تجارت اور معیشت مستحکم نہیں ہوگی، ملکی استحکام میں خلل پڑتا رہے گا، بے چینی برقرار رہے گی۔ ہنر مند اور باصلاحیت تعلیم یافتہ پاکستانی بیرون ملک جاتے رہیں اور ملکی ترقی کی رفتار سست روی کا شکار رہے گی انحطاط میں اضافہ ہوگا۔ اس اہم ترین مسئلے سے ہم زیادہ دیر تک آنکھیں نہیں چرا سکتے۔2020 میں کچھ نہ کچھ تو کرنا ہوگا۔

ہالینڈ جانا چاہتے ہیں تو پہلے ڈچ زبان سیکھیں

ہالینڈ کی حکومت نے یورپ میں دہشت گردی کے واقعات کےبعد پاکستانیوں کے لیے مخصوص قانون کی منظوری دے دی ہے ۔ہالینڈ آنے والے پاکستانی باشندوں کو ویزہ لینے کے لیے ڈچ (ولندیزی ) زبان سیکھنا لازمی قرار دے دیا گیا ہے ۔نئے قانون کے تحت ہالینڈ میں رہائشی کوئی پاکستانی اپنی بیوی منگیتر بچوں یا خاندان کے کسی فرد کو ہالینڈ بلواتا ہے تو اس امید وار کے لیے بھی ڈچ زبان سیکھنا لازمی ہوگا ۔علاوہ ازیں اسے اسلام آباد (پاکستا ن ) میں ڈچ ایمبسی میں ٹیسٹ پاس کرناہوگا۔

ناکامی کی صورت میں اسے ویزاجاری نہیں کیا جائے گا ۔ہالینڈ میں مقیم پاکستانی تارکین نے اس نئے قانون پر شدید احتجاج کیا ہےجب کہ پاکستانی سفارت خانہ حسب معمول خاموشی اختیار کئے ہوئے ہے ۔پاکستانیوں کا موقف ہےکہ پاکستان میں ڈچ زبان سیکھنے یاسکھانے کا کوئی ادارہ یا انسٹی ٹیوٹ نہیں ہے ،جس کی وجہ سے ڈچ زبان سیکھنا بے حد دشوار ہے ،ان کاکہنا ہے کہ ڈچ ایمبیسی کے ساتھ حکومت پاکستان کوبھی مدد کے لیے آگے آنا چا ہیے ۔

متحدہ عرب امارات کی پاکستان کے لیے وزٹ ،ورک ویزے پر پابندی

متحدہ عرب امارات کی پاکستانیوں کیلئے وزٹ اور ورک ویزے پر پابندی کی خبر نے مجھ سمیت ہر شخص کو حیرت سے دوچار کردیا ہے۔ پاکستان پر یہ پابندیاں غیر معینہ مدت کیلئے لگائی گئی ہیں جبکہ پاکستان کے علاوہ دیگر 12 ممالک میں ترکی، ایران، افغانستان، عراق، شام اور لیبیا بھی شامل ہیں جن کے شہریوں پر یہ پابندیاں عائد کی گئی ہیں۔

متحدہ عرب امارات کا شمار پاکستان کے دیرینہ دوست ممالک میں ہوتا ہے جہاں پاکستانیوں کی بڑی تعداد روزگار سے وابستہ ہے جو ترسیلاتِ زر کا ایک بڑا ذریعہ ہیں۔ پاکستان پر عائد یو اے ای کی ویزا پابندی سے ابتدا میں یہ تاثر پیدا ہوا کہ یو اے ای حکومت نے یہ اقدام ممکنہ طور پر کورونا کے باعث اٹھایا لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بھارت جہاں کورونا سے متاثرہ افراد کی تعداد پاکستان سے کئی گنا زائد ہے، اِس پابندی سے کیوں مستثنیٰ ہے؟

یہ بات قابل ذکر ہے کہ پاکستان سے جتنے لوگ بھی سیاحتی یا ورک ویزے پر یو اے ای جاتے ہیں، اُن کیلئے پاکستان سے روانگی اور یو اے ای پہنچنے پر کورونا ٹیسٹ لازمی ہے۔ یو اے ای حکومت کی نئی پالیسی کے تحت ورک ویزے پر پابندی کے باعث تقریباً 3ہزار سے زائد وہ پاکستانی ورکرز جو اپنے ورک ویزے کا انتظار کررہے تھے، بھی متاثر ہوں گے اور کورونا سے پیدا ہونے والی موجودہ صورتحال میں اِن پاکستانیوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا جن کی جگہ یقیناً بھارتی شہریوں کو ملازمتیں فراہم کی جائیں گی۔

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے حال ہی میں نائیجر میں او آئی سی وزرائے خارجہ اجلاس کے دوران اپنے اماراتی ہم منصب ریم الہاشمی سے ون ٹو ون ملاقات میں اِس معاملے کو اٹھایا تھا لیکن یو اے ای حکومت کی جانب سے اب تک کوئی اطمینان بخش جواب نہیں دیا گیا اور نہ ہی اس سلسلے میں کوئی ٹائم فریم دیا گیا کہ یہ پابندیاں کتنی مدت تک عائد رہیں گی؟ ایسے میں سوشل میڈیا پر افواہوں کا بازار گرم ہے اور یہ افواہ بھی گردش کررہی ہے کہ یو اے ای حکومت کی جانب سے پاکستان پر ورک ویزے کی پابندی کی ایک وجہ پاک یو اے ای تعلقات میں سردمہری ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ حالیہ دنوں میں سعودی عرب اور یو اے ای کے ساتھ پاکستان کے تعلقات میں سرد مہری دیکھنے میں آئی ہے۔

ان دونوں ممالک میں لاکھوں پاکستانی ورکرز روزگار سے وابستہ ہیں اور ہماری نصف سے زائد ترسیلاتِ زر اِن ممالک سے آتی ہیں۔حالیہ پابندیوں کو یو اے ای اور اسرائیل کے مابین بڑھتے تعلقات سے بھی جوڑا جارہا ہے۔ حکومت پاکستان کو چاہئے کہ وہ اس معاملے کو یو اے ای حکومت کے سامنے سنجیدگی سے اٹھائے اور یو اے ای کے تحفظات دور کرتے ہوئے انہیں باور کرایا جائے کہ پاکستانی ورکرز روزگار کی غر ض سے یو اے ای جاتے ہیں اور اُنہیں یو اے ای حکومت کے اسرائیل سے تعلقات سے کوئی سروکار نہیں۔

اگر ایسا نہ ہوا تو وہ وقت دور نہیں جب اِن پابندیوں کا اطلاق یو اے ای میں کئی سالوں سے روزگار سے وابستہ پاکستانیوں پر بھی ہوسکتا ہے اور خدشہ ہے کہ اُن کا ورک ویزا بھی منسوخ نہ کردیا جائے۔ اگر آج ہم نے یو اے ای کی حالیہ پابندی کو سنجیدگی سے نہ لیا تو مستقبل میں امکان ہے کہ بھارتی شہری یو اے ای میں پاکستانیوں کی جگہ لے لیںگے۔