فٹبال نارملائزیشن کمیٹی کو مزید وقت درکار؟

December 22, 2020

پاکستانی فٹ بال کے معاملات بدستور الجھے ہوئے ہیں اور ان معاملات میں ابتری مزید وسعت پکڑتی جارہی ہے۔ 2016ء کے پاکستان فٹ بال فیڈریشن کے انتخابات اور اس کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال میں تاحال کوئی بہتری نہیں آئی، گزشتہ سال فٹ بال کی عالمی تنظیم فیفا کی جانب سے پاکستانی فٹ بال کیلئے معاملات درست کرنے کیلئے پانچ رکنی نارملائزیشن کمیٹی کا اعلان کیا گیا اور اسے مینڈیٹ دیا گیا کہ وہ فٹ بال کی صورتحال کو بہتر بنائے اور فیڈریشن کے انتخابات کرا کے منتخب افراد کو پی ایف ایف کا چارج حوالے کرے۔ نارملائزیشن کمیٹی تاحال اپنا کام مکمل نہیں کرسکی ، پاکستان فٹ بال فیڈریشن جو پہلے دو واضح دھڑوں میں بٹی ہوئی تھی اب مزید ٹکڑوں میں تقسیم ہوگئی ہے۔

نارملائزیشن کمیٹی کے چیئرمین نے پاکستانی کھیلوں خاص طور پر فٹ بال کی تاریخ میں ایک نیا ریکارڈ قائم کیا ہے۔ وہ پاکستانی فٹ بال کو چلانے والے واحد شخص ہیں جو میڈیا سے براہ راست بات چیت سے انکاری ہیں، ان کا کہنا ہے کہ پہلے پی ایف ایف میڈیا منیجر سے وقت لیا جائے۔ اس کو بتایا جائے کہ فلاں میڈیا کا رپورٹر بات کرنا چاہتا ہے تو پھر اسے وقت ملے گا اور حمزہ خان اسے فون کریں گے۔

رقم الحروف کے ساتھ بھی یہی واقعہ پیش آیا پاکستان فٹ بال کی موجودہ صورتحال جاننے کیلئے جب حمزہ خان سے بات کرنے کی کوشش کی گئی تو انہوں نے فون اٹینڈ نہیں کیا پھر جب پی ایف ایف کے میڈیا کے منیجر سے بات کی اور انہیں بتایا کہ میں حمزہ خان سے فٹ بال کے حوالے چند امور پر بات چیت کرنا چاہتا ہوں تو میڈیا منیجر نے بتایا تو انہوں نے فون کرکے صورتحال بتائی۔ میں نے ان سے گلہ کیا کہ آپ پاکستان فٹ بال کے معاملات چلانے والے پہلے سربراہ ہیں جو صحافیوں سے دور بھاگتے ہیں اگر آپ اس ملک کے صدر یا وزیراعظم بن گئے تو ملک کے معاملات کیسے چلیں گے۔

حمزہ خان کا کہنا تھا کہ پاکستان فٹ بال کے معاملات بہتر انداز میں چل رہے ہیں ہم اسکروٹنی کے ساتھ ساتھ تمام امور جو ہمیں تفویص کئے گئے ہیں کامیابی کے ساتھ انجام دے رہے ہیں۔ کرونا وائرس کے باعث ہمارا کافی وقت برباد ہوگیا اس دوران کسی قسم کی سرگرمیاں نہیں ہوسکیں۔ فیفا نے بھی چھ ماہ کا وقت ہمیں دیا اور دسمبر کے اواخر تک تمام امور نمٹانے کا کہا اب چونکہ کافی کام نمٹ گیا ہے اور تھوڑا کام رہ گیا ہے اس لئے ہم نے فیفا کو خط بھیجا ہے کہ ہمارا کام ابھی مکمل نہیں ہوا ہے۔

امکان ہے کہ فروری میں ہم اپنا کام مکمل کرکے پاکستان فٹ بال فیڈریشن کا چارج منتخب عہدیداروں کے حوالے کردیں گے۔ میں نے فی الحال کوئی استعفی نہیں دیا اور نہ ہی ایسا کوئی ارادہ ہے فیفا کی جانب سے دیئے جانے والے ٹاسک کے مطابق اپنا کام مکمل کروں گا ،دوسری جانب پاکستانی فٹ بال کے معاملات کو سنبھالنے، صدارت اور دیگر عہدوں پر قبضے کی خواہشات نے پاکستانی فٹ بال کو کئی حصوں میں تقسیم کردیا۔

پاکستان فٹ بال کے کئی سینئر عہدیدار برملا اظہار کررہےہیں کہ ملک میں فٹ بال کو قائم دائم رکھنے کیلئے نارملائزیشن کمیٹی اپنا کردار نبھانے میں بری طرح ناکام ہوچکی ہے۔ پاکستان فٹبال فیڈریشن (نارملائزیشن) کے چیئرمین حمزہ خان کی غیرفعالیت کے باعث فیڈریشن کے معاملات غیرآئینی اور غیرقانونی ہوچکے ہیں۔ ملک بھر کی ایسو سی ایشنوں کے عہدیدار نارملائزیشن کمیٹی کی جانب سے قائم کی جانے والی صوبائی کمیٹیوں کے عہدیداروں پر الزامات عائد کررہے ہیں۔ سندھ، پنجاب، بلوچستان، خیبرپختونخواہ کوئی صوبہ ایسا نہیں جہاں نارملائزیشن کمیٹی کی قائم کردہ کمیٹیوں پر اعتراضات نہ آرہے ہوں۔

سندھ فٹ بال کے سابق نائب صدر اور حیدرآباد فٹ بال کے چیئرمین اعظم خان نے سندھ کے قائم مقام سیکرٹری دوست محمد دانش پر بھرپور الزامات عائد کرتے ہوئے کہا ہے کہ جعلی کلبوں کو بنیاد بناکر اسکرونٹی کا غیر آئینی اور غیر قانونی کام کیا جارہا ہے جس کی وجہ سے فٹبال کے حلقوں میں سخت بے چینی اور اضطراب پایا جاتا ہے یہ سب کچھ ناقابل برداشت ہے، حیدرآباد میں پریس کانفرنس کے دوران اپنے ساتھیوں سابق سیکرٹری حیدرآباد عبدالوحید شیخ، راشد صدیقی، عدنان، ایوب قریشی، رائو رونق علی، لیاقت دیسوالی، یاسین مغل و دیگر کے ہمراہ اعظم خان کا کہنا تھا کہ غیرقانونی اسکروٹنی سے سندھ فٹ بال کا ماحول انتہائی خراب ہوچکا ہے۔ پاکستان فٹ بال فیڈریشن اس عمل کو روکے اور ذمہ داران کے خلاف بھرپور کارروائی عمل میں لائی جائے، فٹ بال کو تباہی کی جانب لے جایا جارہا ہے اور اسے سیاست کی نظر کیا جارہا ہے۔

قائم مقام سیکرٹری کو یہ حق کس قانون کے تحت حاصل ہے جب مرکزی صدر نے مستعفی ہوکر سارا نظام تحلیل کردیا تو اس مرحلے پر اسکرونٹی کا عمل کیسے مکمل کیا جاسکتا ہے۔ اسکرونٹی کیلئے نہ تو کلبوں کو کوئی فہرست فراہم کی گئی اور نہ ہی کسی کو اعتماد میں لیا گیا۔ خود ساختہ کلبوں کو آگے لایا جارہا ہے۔ سندھ کے 19اضلاع کے کلبوں میں ہونے والے اس غیر آئینی عمل کو رکوایا جائے ،اسعمل کو نہ روکا گیا تو سندھ اور بالخصوص ملک کے دیگر شہروں میں سخت احتجاج کیا جائے گا۔ فٹبال کی ترقی میں حائل رکاوٹوں کو بھی دور کیا جائے۔