بےنظیر بھٹو اور ووٹ کو عزت دو

December 27, 2020

27دسمبر، ایک نہ بھولنے والے دن جب خونی درندوں نے عظیم لیڈر، دور اندیش، معصوم، جمہوریت کی لڑائی لڑنے والی، انسانی آزادیوں کو حقیقت کا روپ دینے والی، عدلیہ کی آزادی کو یقینی بنانے والی، پریس کی زنجیروں کو توڑنے کا عزم رکھنے والی اور پارلیمنٹ کی بالادستی پریقین رکھنے والی ’’بےنظیر بھٹو‘‘ کو ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا نعرہ بلند کرتے ہوئے ہم سے چھین لیا۔

وہ دن نہ بھولنے والا تھا۔ ابھی چند دن پہلے تو میری محترمہ سے انتخابی جلسوں کے حوالے سے تفصیلی بات ہوئی تھی، وہ مشاورت پر یقین رکھتی تھیں۔ مجھے ان سے کبھی یہ شکوہ نہیں رہا کہ میں نے انہیں کوئی مشورہ دیا اور انہوں نے اس کو تسلیم کرتے ہوئے اس پر عمل نہ کیا ہو۔

27دسمبر سے چند ہفتے قبل میں نے محترمہ سے اجازت لے کر جنرل توقیر ضیاء کو پاکستان پیپلزپارٹی میں شامل کرایا تھا۔ بی بی نے پشاور اور پنجاب کے جلسوں کا پروگرام بنایا تو میں نے ان سے گزارش کی کہ پشاور، راولپنڈی، جہلم، گوجرانوالہ اور لاہور کے جلسوں میں جنرل توقیر کو ساتھ رکھا جائے کیونکہ جنرل توقیر کشمیری ہے اور فوج سے تعلق رہا ہے۔

ان علاقوں میں فوجیوں اور کشمیریوں کی اکثریت ہے۔ اس لیے ان کی موجودگی الیکشن میں فائدہ دے گی۔ محترمہ نے نہ صرف مشورہ قبول کیا بلکہ حکم دیا کہ انہیں پشاور کے جلسہ سے قبل اسلام آباد بلا لو۔

محترمہ بےنظیر بھٹو کی سیاسی زندگی جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء دور سے شروع ہوئی اور جنرل مشرف کے فسطائی دورمیں ختم ہوگئی۔ سیاسی زندگی کا ایک ایک لمحہ جدوجہد میں گزرا۔ اقتدار حاصل کیا تو بڑے سے بڑا کام کیا۔ ملک کو مضبوط کرنے کی کوشش کی، ملکی دفاع کو بہتر بنایا۔

حکومت چلانے کیلئے EGOکی بجائے مصلحت کا راستہ اختیار کیا، مخالفین کو ساتھ ملایا۔ بےنظیر بھٹو ڈائیلاگ پر یقین رکھتی تھیں۔ سیاسی مخالف کو دشمن نہیں سمجھتی تھیں۔ جنرل مشرف کے مارشل لا کے خلاف جدوجہد کا وقت آیا تو میاں نواز شریف کو ساتھ ملایا۔

مرحوم نوابزادہ نصراللہ خان کی قیادت میں ARDبنا ڈالی۔ بیرون ملک بیٹھ کر احتجاجی تحریک کی قیادت کی۔ پاکستان میں جمہوریت 2008کے بعد سے چل رہی ہے۔ بدقسمتی سے جمہوریت برائے نام ہے۔

آج پھرملک میں ’’ووٹ کوعزت دو‘‘ کی تحریک چل رہی ہے۔ بےنظیر بھٹو نے اپنی زندگی اس نعرہ کیلئے صرف کردی۔ آج ایک بار پھر عدلیہ کی آزادی سوالیہ نشان بن گئی ہے، پھر صحافت زنجیروں میں جکڑی جکڑی لگ رہی ہے، پارلیمنٹ غیرموثر ہو چکی ہے۔ احتسابی ادارہ کی غیرجانبداری پر شک کیا جا رہا ہے۔

اپوزیشن کہتی ہے کہ NABکو سیاسی انتقام کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ بدقسمتی یہ بھی ہے کہ حکمران مذاکرات نہیں کر پا رہے۔ وزیراعظم عمران خان کے قریبی لوگ گالی نکالنے کو اپنی کامیابی سمجھتے ہیں۔ خیال کیا جاتا ہے کہ جو اپوزیشن کو جتنی بڑی گالی دے گا وہ اتنا زیادہ وزیراعظم کے قریب ہوگا۔

حکومت اور اپوزیشن گاڑی کے دوستون ہیں۔ ایک ستون کے ساتھ گاڑی نہیں چل سکتی۔ دونوں ستونوں کومل کر چلنا چاہئے۔ تحریک انصاف کی حکومت کوتیسراسال شروع ہو چکا ہے، اس لئے اب کام کے ساتھ ساتھ اپوزیشن کو Engageکرنے کی ضرورت ہے۔مذاکرات تمام قومی امورپرہونے چاہئیں۔

الیکشن کے قوانین ہوں یا NABکے قوانین میں ترامیم، حکومت اور اپوزیشن کو اتفاق رائے پیدا کرنا چاہئے۔ سینیٹ الیکشن ہویاکوئی دوسرا قومی معاملہ افہام و تفہیم کے بغیر حل نہیں ہو سکتا۔

بےنظیر بھٹو کی برسی ہمیں مذاکرات کاسبق دیتی ہے۔ بےنظیر بھٹو کا سبق یہ ہے کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے، اس لئے جمہوریت کو مضبوط بنا کر بےنظیر بھٹو کی برسی منائی جا سکتی ہے۔

صحافت کو آزاد اور غیرجانبدار بنائے بغیر ملک کو آگے نہیں بڑھایا جا سکتا اور نہ ہی عدلیہ کو آزاد اور خودمختار بنائے بغیر ہم لوگوں کو انصاف دلا سکتے ہیں۔ بےنظیر بھٹو غریبوں کی حامی تھیں۔

عام آدمی کا سوچتیں اور اُنکے کیلئے کچھ کر گزرنے کا عزم رکھتی تھیں۔ آئیے آج ہم بےنظیر بھٹو کی یاد میں اس عزم کا اظہار کریں کہ ملک کی ترقی کیلئے کام کریں گے۔

جمہوریت، عدلیہ، پارلیمنٹ اور میڈیا کے کمزور ہونے کی بدولت مریم نواز ایک Symbol اورFighterکے طور پر سامنے آئی ہیں۔ بےنظیر بھٹو نے جس طرح اپنے باپ کے مشن کو بڑھایا، اسی طرح مریم نواز نے اپنے والد میاں نواز شریف کی سوچ کو پروان چڑھایا ہے۔ بےنظیر بھٹو ہوں یا مریم نواز، لوگ جمہوریت چاہتے ہیں۔

عام انسانوں کا بھلا چاہتے ہیں۔ عدالتوں سے انصاف چاہتے ہیں۔ صحافت کو غیرجانبدار دیکھنا چاہتے ہیں۔

’’ووٹ کوعزت دو‘‘ کے نعرے کو کبھی ختم نہیں کیا جا سکتا جب تک کہ صحیح معنوں میں ایسا نہ ہو جائے وگرنہ بےنظیر بھٹو آئیں گی اور مریم نواز بھی اور یہ سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوگا۔