چودہویں صدی کا چینی مفکر اور ایک ترک ہم عصر

December 29, 2020

بات سے بات اس طرح نکلتی ہے کہ منزلوں کا نشاں نہیں ملتا۔ ایک ایسا مقام بھی آتا ہے جہاں مصطفیٰ زیدی نے ’’لٹ گئی شہر حوادث میں متاع الفاظ‘‘ کا مضمون باندھا تھا۔ خیر گزری کہ دیدہ تر کی شبنم ابھی خشک نہیں ہوئی، متاع احساس سلامت ہے اور قلم اپنے منصب سے دست بردار نہیں ہوا۔ اتنا ضرور ہوا کہ لاہور، لاڑکانہ اور اسلام آباد پر اتری دھند سے مجروح بصارت نے دور قریب کے دیاروں کی سیاحی کا ارادہ کر لیا ہے۔ سیاحت اور جلا وطنی کا فرق تو آپ خوب سمجھتے ہیں۔ جرمن ادیب تھامس مان پر یہ ماجرا کچھ مختلف رنگ میں گزرا۔ 1875میں جرمن شہر لیوبیک میں پیدا ہونے والے تھامس مان نے پہلی عالمی جنگ سوئٹزرلینڈ میں گزاری۔ جنگوں کے درمیانی برس یورپ کے مختلف شہروں میں گزارتے ہوئے 1939میں امریکا چلا گیا۔ جنگ ختم ہوئی تو تھامس مان نے تقریر و تحریر میں اہلِ جرمنی کے ’’اجتماعی جرم‘‘ کا ذکر شرو ع کر دیا۔ اُس کا کہنا تھا کہ ہٹلر کے جرمنی میں لکھے جانے والے تمام ادب سے ’خون اور جرم‘ کی بو آتی ہے۔ یہ نقطہ نظر جرمنی کے ان حلقوں پر سخت گراں گزرا جنہوں نے نازی اقتدار کے بارہ برس اپنے وطن میں رہ کر گزارے تھے جب تھامس مان اور ہٹلر کی دہشت میں بحیرہ اوقیانوس حائل تھا۔ جرمن ادیب فرینک تھیس نے ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ جرمن قوم کے ’’جرم‘‘ کے بارے میں بات کرنے کا حق صرف انہیں پہنچتا ہے جنہوں نے نازی استبداد کا براہِ راست سامنا کیا۔ اس ضمن میں ’داخلی مہاجرت‘ (Internal émigré) کی اصطلاح متعارف کرائی گئی۔ یہ بحث کسی نہ کسی رنگ میں آج تک جاری ہے بلکہ 60کی دہائی کے سوویت یونین میں ریاستی بیانیے سے انحراف کرنے والے ادیبوں مثلاً بورس پاسٹرناک کو Internal émigréقرار دے کر شہری حقوق سے محروم کرنے کا مطالبہ بھی کیا جاتا تھا۔ اگلے روز کچھ اس طرح کی باتیں محترم عمران خان نے بھی چکوال میں کی ہیں۔ عزیزو، یہ بڑے لوگوں کی باتیں ہیں۔ ہم آپ تو افتخار عارف کے پانچ لفظوں میں سما جاتے ہیں، ہم کیا، ہماری ہجرت کیا…تو طے یہ پایا کہ آج چین اور ترکی کا ذکر رہے۔ چین سے ہماری دوستی ہمالیہ سے بلند، سمندر سے گہری اور شہد سے میٹھی ہے۔ ترکی سے ہمارے رشتے تاریخی بھی ہیں اور اب تو ترک رہنما طیب اردوان کے طرز حکومت نیز ترک ڈراموں نے خاص اہمیت اختیار کر لی ہے۔ چودہویں صدی کے چین میں فلسفی، سیاست دان اور شاعر لیو جی (Liu Ji) ہمارے حافظ شیراز کے ہم عصر تھے۔ لیو جی 1311سے 1375تک جئے اور حافظ شیراز کی حیات 1315سے 1390پر محیط رہی۔ لیو جی نے ’’بندر والا‘‘ کے نام سے ایک حکایت لکھی ہے۔ خلاصہ کچھ یوں ہے کہ ریاست چُو میں ایک بوڑھے شخص نے بہت سے بندر پال رکھے تھے۔ ہر صبح وہ اپنے بندروں کو باڑے سے نکالتا اور سب سے بوڑھے بندر کو حکم دیتا کہ ان سب کو لے کر پہاڑوں پر چڑھ جائو اور درختوں سے پھل جمع کر کے لائو۔ شام ڈھلے جب بندر پھلوں سے لدے پھندے واپس آتے تو بوڑھا اس رسد سے اپنا حصہ وصول کر کے انہیں پھر سے باڑے میں بند کر دیتا۔ پھل لانے میں کوتاہی کرنے والے بندر کو کوڑے مارے جاتے۔ کسی بندر کو اف کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ ایک روز ایک کم عمر بندر نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا کہ کیا یہ درخت اس بوڑھے نے اگائے ہیں؟ جواب ملا کہ نہیں، خودرو پیڑ ہیں۔ اس نے پھر پوچھا کہ کیا ہم اس بوڑھے کی اجازت کے بغیر اپنا پیٹ نہیں بھر سکتے۔ اسے بتایا گیا کہ ایسا بالکل ممکن ہے۔ سدھائے ہوئے بندروں نے اس امکان پر کچھ غور کیا۔ لیو جی لکھتے ہیں کہ اس رات جب بندر والا سو رہا تھا، سب بندر باڑے کی دیوار پھلانگ کر باہر نکل گئے اور پھر کبھی واپس نہیں آئے۔

مہمت مورات ایلدان (Mehmet Murat ildan) جدید ترکی کے فلسفی اور ادیب ہیں۔ 1965میں پیدا ہونے والے ایلدان کا قصہ دلچسپ ہے۔ الیکٹرک انجینئرنگ کی تعلیم پا رہے تھے کہ اچانک راستہ بدل کر اکنامکس کا مضمون اختیار کر لیا۔ 1997میں برطانیہ کی Essexیونیورسٹی سے معاشیات میں پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی اور پھر اکنامکس کو خیرباد کہہ کر ادیب بننے کا فیصلہ کر لیا۔ اب تک سات ڈرامے اور درجنوں کہانیاں لکھ چکے ہیں۔ مورات ایلدان کا خاص موضوع آمریت ہے۔ ان کے کردار اس ضمن میں پتے کی باتیں کہتے ہیں۔ کچھ جواہر پارے آپ کی نذر ہیں۔

آمر کی طاقت کے دو سرچشمے ہیں، اُس کا اپنا مریض ذہن اور آسانی سے دھوکہ کھا جانے والے جاہل عوام کا ہجوم۔ آمریت کی حمایت کرنے والے آمریت سے بھی زیادہ خطرناک ہوتے ہیں۔ جب ایک آمر رخصت ہوتا ہے تو دنیا میں آکسیجن کی مقدار بڑھ جاتی ہے۔ ایک باوقار قوم اور ننگ خلق آمریت اکٹھے نہیں چل سکتے۔ ان میں سے ایک کو شکست ہوتی ہے۔ آمریت کے دعوئوں پر یقین کرنے والا احمقوں کا بادشاہ ہوتا ہے۔ زلزلے اور آمریت کا نتیجہ تباہی ہوتا ہے۔ زلزلے سے بچنے کیلئے مضبوط عمارت کی ضرورت پڑتی ہے اور آمریت سے بچنے کیلئے تعلیم یافتہ اور باشعور ذہن درکار ہوتا ہے۔ جہاں لوگ اپنے سائے سے بھی خوفزدہ نظر آئیں، وہاں یقیناً آمریت کا راج ہوتا ہے۔ آمریت کا کوئی ارفع مقصد نہیں ہوتا۔ معاشرے کے جاہل اور بےشعور گروہ آمریت کے گن گاتے ہیں۔ باشعور اور قابلِ احترام ذہن آمریت کی مزاحمت کرتے ہیں۔ جب کوئی قوم اپنا ملک کسی بےوقوف شخص کو سونپ دیتی ہے تو تاریخ بھی ایسی قوم کو بےوقوف ہی شمار کرتی ہے۔ آمریت سے نجات پانا بےحد آسان ہے۔ اس کیلئے آمریت سے تعاون ترک کرنا پڑتا ہے۔

مورات ایلدان کو پڑھتے ہوئے بوڑھے چینی فلسفی لیو جی کی حکایت کے بندر یاد آتے ہیں۔