لاک ڈاؤن میں ٹی وی پروگرامز، ڈرامے معمول سے زیادہ دیکھے گئے

January 10, 2021

2020ءکی آمد پرکسی کے سان و گمان میں بھی نہ تھا کہ اِمسال محض ایک وائرس کے سبب خوشیوں بَھرے تہوار، میل جول، سیروتفریح، خلوت و جلوت کے صد ہا رنگ سب کچھ ’’لاک ڈاؤن‘‘،’’مائکرو لاک ڈاؤن‘‘اور ’’ اسمارٹ لاک ڈاؤن‘‘کی نذر ہو جائے گا۔ اور ان حالات میں باخبر رہنے، خوف و دہشت کی فضا سے باہر نکلنے اور ذہنی تناؤ دُور کرنے کا واحد ذریعہ ٹی وی چینلز ہی تھے۔سو، 2020ء میں ٹی وی پروگرامز بشمول ڈرامے دیکھنے کا تناسب معمول سے کچھ زیادہ ہی رہا۔

ایک دَور تھا، جب تقریباً ہر چینل پر صُبح کا آغاز مخصوص فارمیٹ پر مبنی مارننگ شوز سے ہوا کرتا، پھر 4برس قبل’’جیو نیوز‘‘ نے ایک منفرد نیوز بیسڈ مارننگ شو ’’جیو پاکستان‘‘کا آغاز کیا،توناظرین نے اس خوش گوار تبدیلی کا زبردست خیر مقدم کیا اور یہ ’’جیو پاکستان‘‘کی کام یابی ہی کی دلیل ہے کہ پھر 2020ء میں متعدّد چینلز نے اسی فارمیٹ کو اپنایا، حتیٰ کہ ایک چینل نے تو اپنا کئی برس پُرانا مارننگ شو بند کر کے ’’ایکسپریسو مارننگ شو ‘‘کا آغاز کردیا۔ البتہ ریٹنگ کی دوڑ میں2020ء میں بھی’’جیو پاکستان‘‘ ہی سرِفہرست رہا۔

دیگر مارننگ شوز میں باخبر سویرا، مُسکراتی صُبح وِد نازیہ ملک، مُسکراتی مارننگ، آج پاکستان وِد سدرہ اقبال، جی اُٹھا پاکستان، پیامِ صُبح، مارننگ شو وِد سیمل ہاشمی اینڈ ابوذر معظم، مارننگ وِد ثمرہ، مارننگ ایٹ ہوم وِد نادیہ خان، صُبح سے آگے، چائے ٹوسٹ اور ہوسٹ، نیوز کیفے اور نیا دِن بھی دیکھے اور پسند کیے گئے۔پُرانے فارمیٹ پر نشر ہونے والے شو’’گڈ مارننگ پاکستان‘‘ کی میزبان ایک بار پھر تنقید کی زد میں آئیں کہ جنسی درندگی کا نشانہ بننے والی5سالہ مروہ کے والدین سےشو میں غیر سنجیدہ سوالات کرنےپر سوشل میڈیا صارفین نے آڑے ہاتھوں لیا۔ بعد ازاں، اُنھیں ایک ویڈیو کے ذریعے بچّی کے والدین سے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگنی پڑی۔

ٹاک شوز کا ذکر کریں، تو سالِ گزشتہ بھی پاکستان کے مقبول و معتبر چینل، جیو نیوز سے نشر ہونے والا پروگرام ’’آج شاہ زیب خان زادہ کے ساتھ‘‘نمبر وَن رہا۔ اس شو کے کئی پروگرامز کو غیر معمولی پذیرائی ملی، لیکن وزیرِاعظم کےمشیر برائے پٹرولیم، ندیم بابر کے انٹرویو اور گندم، چینی بحران سے متعلق ایک ایکس کلیوسیو اسٹوری پر مبنی شوز خاص توجّہ کا مرکز رہے۔

اِسی طرح کیپٹل ٹاک،جرگہ،ایک دِن جیو کے ساتھ، نیا پاکستان، آپس کی بات،رپورٹ کارڈ اور میرے مطابق بھی ریٹنگ کی دوڑ میں نمایاں نظر آئے، جب کہ ذرا ہٹ کے، آف دی ریکارڈ، دُنیا کامران خان کے ساتھ، ٹو دی پوائنٹ وِد منصور علی خان، ندیم ملک لائیو، کل تک وِد جاوید چوہدری، سوال یہ ہے، پاور پلے، نیوز آئی، نیوز بیٹ، فیصلہ آپ کا، بریکنگ پوائنٹ ، جی فار غریدہ ، ہارڈ ٹاک پاکستان، الیونتھ آور، اب تک ڈاکٹر دانش کے ساتھ،آن دی فرنٹ، نائٹ ایڈیشن، رو برو، ہوکیا رہاہے، ٹو نائٹ وِد فریحہ ادریس، نقطۂ نظر، حرفِ راز، اسپاٹ لائٹ وِد منیزے جہانگیر، نسیم زہرا ایٹ8،لائیو وِد نصراللہ ملک، سیدھی سی بات، اعتراض ہے، اِن فوکس وِد فہد حسین، کلیش وِدعمران خان اورخبر گرم ہے بھی ناظرین کے مختلف حلقوںمیں پسند کیے گئے۔

آپس کی بات‘‘ کے ایک شومیں نون لیگ کی رہنما عظمیٰ بخاری اور وزیرِاعلیٰ پنجاب کی معاونِ خصوصی فردوس عاشق اعوان آپس میں کچھ یوں اُلجھیں کہ اینکر کو مجبوراً پروگرام ہی ختم کرنا پڑا، تو ایک ٹاک شو کے میزبان کو وفاقی وزیربرائے آبی وسائل، فیصل واوڈا کو بلانا اور اُن کا ’’بوٹ‘‘ کے ساتھ آنا خاصا منہگا پڑ گیا۔

پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی(پیمرا) نے اس امر کا فوری نوٹس لیتے ہوئے شو پر60 روز کی پابندی عائد کی اور میزبان کو دیگر چینلز پر بطور تجزیہ نگار شرکت سے بھی روک دیا۔ تاہم، عوامی حلقوں کے دباؤ کے تحت نوٹس واپس لے لیا گیا۔ اسی طرح ایک مقبول ٹاک شو کی میزبان نے ایک ٹویٹ کے ذریعے اعلان کیا کہ ’’انہوں نے اپنی ٹیم کے ساتھ استعفیٰ دے دیا ہے‘‘، جو ناظرین کے لیے تعجب کا باعث بنا۔ علاوہ ازیں، بعض سینئر اینکرز، جو مختلف وجوہ کی بنا پر حالاتِ حاضرہ کے پروگرامز کی میزبانی سے دست بردار ہو گئے تھے، گزشتہ برس نئے فارمیٹ کے شوز کے ساتھ دکھائی دئیے۔

جرائم کی خبروں پر مبنی پروگرامز کی تعداد کم ہوتے ہوتے اب برائے نام ہی رہ گئی ہے، جن میں سرِعام،ذمّے دار کون اور ایسا بھی ہوتا ہے کی ریٹنگ مناسب رہی۔ کھیلوں کے پروگرامز کی بات کی جائے، تو سالِ رفتہ بھی جیو اسپورٹس اور پی ٹی وی اسپورٹس ہی سے مختلف کھیلوں کی حوصلہ افزائی کی گئی۔مزاحیہ شوز تو بہت حد تک یک سانیت کا شکار ہوکر ہی رہ گئے ہیں۔

تاہم، ریٹنگ اور معیار کے اعتبار سے جیو نیوز کا ’’خبرناک ‘‘ نمبر وَن رہا ،جب کہ مذاق رات، خبر یار اور حسبِ حال بھی پسند کیے گئے۔ بچّوں کے پروگرامز کا تذکرہ کریں، تو پی ٹی وی ہوم نے ایک گھنٹہ’’چلڈرن آور‘‘ کے طور پر وقف ضرور کیا، لیکن یہ نشریات ماضی میں نشر ہونے والے بچّوں کے پروگرامز کی ہم پلّہ ثابت نہ ہو سکیں۔

رمضان ٹرانس میشنز کے حوالے سے 2020ء قدرے مختلف رہا۔ گزشتہ برسوں کے مقبول میزبان اسکرین سے آئوٹ تھے۔ جب کہ کورونا وائرس کے پھیلائو کے باعث پیمرا نے خصوصی ہدایات بھی جاری کیں، جن کے تحت سحر و افطار کی نشریات میں حاضرین کی شرکت اور دورانِ نشریات تحائف وغیرہ کی تقسیم پر پابندی عائد کی گئی۔ تاہم، جیو چینل نے یک سر مختلف انداز سے رمضان ٹرانس میشن نشر کرکے ایک نیا ٹرینڈ متعارف کروایا، جس کا فیڈ بیک بھی بہت اچھا ملا۔

اس کے علاوہ روحِ رمضان، پیارا رمضان، رمضان مہمان اوررمضان پاکستان بھی پسند کیے گئے۔ سالِ گزشتہ19ویں لکس اسٹائل ایوارڈز کا انعقاد اپنے آغاز کے بعد پہلی بار ورچوئل کیا گیا اور میڈیا پارٹنر کی چیئر، ’’جیو انٹرٹینمنٹ‘‘ کے حصّے آئی۔مئی میں ہونے والے پی آئی اے طیارہ حادثے میں سینئر صحافی انصار نقوی داغِ مفارقت دے گئے، تو عالم گیر وبا کےحملوں سے مختلف میڈیا ہاؤسز سے وابستہ صحافی، اینکرز بھی محفوظ نہ رہ سکے۔جیو نیوز کے سینئر صحافی ارشد وحید چوہدری، محمّد حنیف زئی اور طارق محمود ملک اس موذی وبا کا شکار ہوکر سب کو سوگ وارکر گئے،تو متعدّد معروف اینکرز، صحافیوں کو وائرس کی زَد میں آنے کے سبب اپنے پروگرامز، ذمّے داریوں سے عارضی رخصت لے کر قرنطینہ ہونا پڑا۔

پی ٹی وی کے دَور سے لے کر تاحال پاکستانی ڈرامے نے ارتقاء کی کئی منازل طے کیں۔ عروج و زوال کے کئی موسم آئے۔ موضوعاتی اعتبار سے انتہائی مضبوط، شان دار اسکرپٹ لکھے گئے، تو سطحی موضوعات پر بننے والے ڈراموں کی بھی کمی نہیں، لیکن گزشتہ دوچار برسوں سے جیسے ڈرامے آن ائیر ہورہے ہیں، اُن سے ’’فیملی‘‘ کا تصوّر مفقود ہوتا جارہا ہے۔ چند ایک معیاری پراجیکٹس کے سوا لگ بھگ ہر دوسرے ڈرامے میں خاندانی نظام کا شیرازہ بکھیرا ، خُوب صُورت، مقدّس رشتوں کی توہین کی جارہی ہے، جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی۔ سالِ گزشتہ بھی ایک دو نہیں، کئی ڈراموں کے سبجیکٹس متنازع ہی نہیں، گم راہ کُن بھی رہے۔4سے6ڈراموں میں بہن، بہن کا گھر برباد کرتی نظر آئی، تو کہیں نند، دیورانی، جیٹھانی یا قریبی سہیلی نے دوسری عورت کا گھر تباہ کرڈالا۔

عورت کے کردار کو شخصی و اخلاقی اعتبار سے اس حد تک کم زور اور کج فہم دکھایا گیا ۔گویا عورت نہ ہوئی’’چلتی پھرتی سازش‘‘ ہوگئی۔ بقول معروف ڈراما نگار، اصغر ندیم سیّد، ’’مارکیٹنگ کی آڑ میںعورت کے امیج کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا جا رہا ہےاور یہ انتہائی ذہین،زیرک، عقل و شعور اور آگہی رکھنے والی خواتین کے ساتھ سخت زیادتی ہے۔‘‘مگر انٹرٹینمنٹ کے نام پر ڈراموں کے موضوعات کی صُورت یہ زیادتی گزشتہ کئی برس سے ہورہی ہے، جو 2020ء میں بھی جاری رہی۔ بیش تر ڈراموں میں عورت کو بطور پراڈکٹ ہی استعمال کیا گیا۔

البتہ الف، ثبات، رسوائی، رازِ الفت، عہدِ وفا، عشقیہ،پیار کے صدقے، بندھے اِک ڈور سے، کشف، دیوانگی، ڈر خدا سے، دَمسہ، غلطی، بکھرے موتی اور تڑپ جیسے موضوعاتی ڈراموں نے بھیڑ میں بھی نہ صرف اپنی جگہ بنائی، بلکہ ناظرین کے دِل و دماغ پر گہرے نقش ثبت کیے۔ البتہ سالِ رفتہ بھی، پچھلے کئی سالوں کی طرح مختصر پلاٹ کی کہانی کو بلاوجہ کھینچ تان کر 25،30 اقساط تک لے جانے کی روش نے بھی ڈرامے کے معیار کو شدید زک پہنچائی۔ بہرحال، قارئین کی آراء سے مرتّب کی جانے والی ایک فہرست کے مطابق 2020ء میں جن ڈراموں نے ابتداسے آخر تک ناظرین کو اپنے سحر میں جکڑے رکھا،ان میںسرِ فہرست جیو چینل سے نشر ہونے ولا عمیرہ احمد کے ناول پر مبنی ڈراما ’’الف‘‘تھا،جو منفردموضوع، مضبوط کردار نگاری اور اعلیٰ ڈائریکشن کی بدولت سال کا بہترین ڈراما قرار پایا۔

اِسی طرح ڈراما’’ثبات‘‘محض ایک ڈراما نہیں، بلکہ زندگی کے نشیب و فراز، رشتوں کے حُسن اور عورت کے مختلف روپ رنگ کے گرد گھومتا انتہائی سبق آموز درس تھا۔کاشف انور کا تحریرکردہ یہ ڈراما ناظرین کی بَھرپور توجّہ کا مرکز ٹھہرا، تو جیو انٹرٹینمنٹ کا ڈراما سیریل ’’رازِ اُلفت‘‘،جسے ماہا ملک نے تحریر کیا، خُوب صُورت اسٹوری لائن کے باعث ریٹنگ میںنمایاں رہا۔ ڈراما ’’عہدِ وفا‘‘کی کہانی مصطفیٰ آفریدی نے لکھی،جوپاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) اور ایک چینل کی مشترکہ پیش کش تھی۔ اگرچہ ڈرامے کے چند مناظر پر اعتراضات بھی ہوئے، لیکن مجموعی طور پر پسند کیا گیا۔ ’’پیار کے صدقے‘‘ ایک کامیڈی، رومانی ڈراما تھا، جسے یمنیٰ زیدی اور بلال عباس خان کی بے مثال اداکاری نے خاصا دِل چسپ بنا دیا۔

ڈراما ’’عشقیہ‘‘ نے بھی ریٹنگ چارٹ پر جگہ بنائی، جب کہ ’’رُسوائی‘‘ ڈرامے کی رائٹر نائلہ انصاری نے ایک حسّاس موضوع کی احسن انداز سے ڈرامائی تشکیل کے ذریعے ناظرین تک ایک اچھا پیغام پہنچایا ۔’’یہ دِل میرا‘‘ ایک رومانی، تھرلر اسٹوری پر مبنی ڈراما تھا، جو قدرے مختلف موضوع کے سبب دِل چسپی سے دیکھا گیا۔ جیو چینل کا ڈراما ’’دیوانگی‘‘،جسے سعدیہ اختر نے تحریر کیا اور ہدایت کار ذیشان احمد تھے،اچھوتے موضوع کے سبب پسند کیا گیا۔اس ڈرامے کی 33ویں قسط کی یو ٹیوب پر ویور شپ خاصی زیادہ رہی کہ ایک سین میں وہ گاڑی کھڑی تھی، جو بعدازاں پاکستان اسٹاک ایکسچینج حملے میں استعمال ہوئی۔ڈراما ’’کشف‘‘عمران نذیر کا تحریر کردہ تھا، یک سر جداگانہ موضوع پر لکھا گیا یہ ڈراما بھی ناظرین سے پسندیدگی کی سند حاصل کرنے میں کام یاب رہا۔

علاوہ ازیں، عشق زہے نصیب، منافق، مقدّر، خُوب سیرت، دِل رُبا، میرا دِل، میرا دشمن، دشمنِ جاں، نند، سزائے عشق، تھوڑا سا حق، جھوٹی، جو تُو چاہے، دیوارِ شب، کہیں دیپ جلے، مَیں نہ جانوں، داسی، تم ہو وجہ، کسک اور منِ التجا نے بھی ناظرین کی توجّہ سمیٹی۔ تادم ِتحریر نشر ہونے والے ڈراموں میں بندھے اِک ڈور سے، مہر پوش، کاسۂ دِل، ایک اور منافق، سراب، مشک، گِھسی پٹی محبّت، پریم گلی ،مَیں اگرچُپ ہوں، لوگ کیا کہیں گے،دلہن، بے ادب، چھلاوا، قرار، محبتیں، چاہتیں، دِل تنہا تنہا، بھڑاس اور فطرت بھی دِل چسپی سے دیکھے جا رہے ہیں۔ سالِ رفتہ عبدالخالق خان کا تحریر کردہ ڈراما’’محبّت تجھے الوداع‘‘ خاصی تنقید کا نشانہ بنا کہ اِسے بھارتی فلم ’’جدائی‘‘ کی کاپی کہا گیا، جب کہ فلم ’’جدائی‘‘خود 1971ء میں نشر ہونے والے ایک سندھی ڈرامے کا چربہ تھی۔

اس کے علاوہ شدید عوامی ردِّعمل اور شکایات موصول ہونے پر پیمرا نے ڈراما ’’جلن‘‘پر پابندی عائد کی، جو بعد ازاں کئی سینز کے سینسر کے بعد ختم کردی گئی۔دو ڈراموں، ’’عشقیہ‘‘ اور ’’پیار کے صدقے ‘‘کے نشر مکرر پر بھی پابندی عائد کی گئی۔ بشریٰ انصاری کا تحریر کردہ ڈراما ’’زیبائش ‘‘بھی کم زور اسکرپٹ اور ناقص ڈائریکشن کے سبب سوشل میڈیا صارفین کی تنقید کی زد میں رہا۔ اوریجنل ساؤنڈ ٹریکس میں سرِفہرست راحت فتح علی خان کی آواز میں’’میرے پاس تم ہو‘‘، مومنہ مستحسن اور شجاع حیدر کا’’الف بس‘‘اور آئمہ بیگ اور شانی ارشد کا’’تم ہی تو تھے خیالوں میں‘‘رہے۔ ان کے علاوہ ثبات، پریم گلی، تڑپ، پیار کے صدقے، دیونگی، گھسی پٹی محبّت، جلن، رسوائی اور بندھے اِک ڈور کے او ایس ٹی بھی پسند کیے گئے۔ علی ظفر کی آواز میں ’’مشک کھوندا رہیا، عشق ہوندا رہیا‘‘بھی سُنا جارہا ہے۔

شوبز انڈسٹری بھی کورونا وائرس کے حملوں سے محفوظ نہ رہ سکی کہ سب سے پہلے معروف گلوکار سلمان احمد امریکا میں کووِڈ19سے متاثر ہوئے۔ بعدازاں، روبینہ اشرف، سکینہ سموں، ابرار الحق، یاسر نواز، نوید رضا، علیزے شاہ، نعمان سمیع، امیر گیلانی، صحیفہ جبار خٹک، جواد احمد، بلال مقصود،عثمان مختار، بہروز سبزواری، نیلم منیر، ماہرہ خان، صنم جنگ اور انور مقصود کے بھی وائرس میں مبتلا ہونے کی خبریں موصول ہوئیں۔ گزشتہ برس چند فن کاروں کی شادیاں لاک ڈاؤن سے قبل ہوئیں، تو بعض لاک ڈاؤن کے دوران شادی کے خُوب صُورت بندھن میں بندھے۔

ان جوڑیوں میں سعد قریشی اور میشا چوہدری، نور بخاری اور عون چوہدری، ارمینہ رانا خان اور فیصل خان، سعدیہ غفار اور حسن حیات خان، سجل علی اور احد رضا میر، ثمینہ احمد اور منظر صہبائی،حنا الطاف اور آغا علی، فریال محمود اور دانیال راحیل، شہروز سبزواری اور صدف کنول،ہارون رشید اور فروا حسین، سارہ خان اور فلک شبیر،آمنہ شیخ اور عُمر فاروقی، سلمان سعید اور علینہ فاطمہ،ثناء جاوید اور عمیر جسوال، نمرہ خان اور افتخار احمد، رباب ہاشمی اور شعیب اور صرحا اصغر اور عُمر مرتضیٰ شامل ہیں۔