براڈشیٹ کا ہنگامہ

January 23, 2021

حال میں ہی منظرعام پر آنے والے براڈ شیٹ اسکینڈل نے جہاں شکوک وشبہات کے سائے میں چھپے کئی رازوں سے پردہ اٹھایا ہے وہاں یہ بات حقیقت بن کر ابھری ہے کہ ملک میں کرپشن کی وبا سرایت کر چکی ہے۔ ملک پر حکمرانی کرنے والا طبقہ سب سے زیادہ کرپشن میں ملوث رہا ہے اور اسی طبقے نے کرپٹ ہونے کے باوجود سب سے زیادہ فوائد اور مراعات حاصل کی ہیں۔

حکومتِ پاکستان / قومی احتساب بیورو(نیب) اور براڈ شیٹ ایل ایل سی کے درمیان مقدمے کے حتمی فیصلے کے بعد سامنے آنے والے حالات وواقعات کا سلسلہ 1999 میں جنرل (ر) پرویز مشرف کے اقتدار میں آنے کے ایک سال بعد یعنی 2000میں براڈ شیٹ کی خدمات حاصل کرنے سے شروع ہوتا ہے۔نیب او ربراڈ شیٹ کے درمیان معاہدے کے مطابق 200 کے قریب سیاستدانوں اور دیگر اہم شخصیات کی بیرونِ ممالک جائیدادوں کا سراغ لگانا طے پایا تھا۔ان غیرقانونی جائیدادوں کی نشاندہی کے بعد 2003 میں براڈ شیٹ کے ساتھ طے پانے والا معاہدہ اچانک ختم اور 2007میں قومی مفاہمتی آرڈیننس (این آر او) جاری کر دیا جاتا ہے جس کے ذریعے قومی خزانے کو لوٹنے والی کئی سیاسی و کاروباری شخصیات کے ساتھ ساتھ دیگر افراد کے خلاف درج مقدمات واپس لے کر انہیں کلین چٹ دے دی جاتی ہے۔ یہاں سے ایک بار پھر حالات کروٹ بدلتے ہیں اور براڈ شیٹ کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کے تحت 15 ملین ڈالر کی ادائیگی کا معاملہ سامنے آتا ہے اور اس وقت کی حکومت انتہائی غیرسنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مذکورہ فرم کے شراکت دار کا دعوی کرنے والے ایک شخص کو 15لاکھ ڈالر کی ادائیگی کر دیتی ہے۔ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی اپنے اپنے ادوار حکومت میں نیب کے سربراہوں کی تقرریوں اور براڈشیٹ کے ساتھ ثالثی کے فیصلوں کی دھجیاں اڑاتے ہوئے بیشتر مقدمات تحریری طورپر ختم کروا لیتی ہیں۔براڈ شیٹ کمپنی 28.7ملین ڈالر کی ادائیگی سے متعلق برطانوی عدالت میں ریاست پاکستان کے خلاف مقدمہ دائر کرتی ہے جس کے بعد عدالتی فیصلے کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومتِ پاکستان مجبوراً مذکورہ رقم ادا کرنے کی پابند ہوتی ہے۔

قومی خزانے سے اربوں ڈالر کی لوٹ مار کرنے والے حکمران طبقات ریاست کو دھوکہ دینے کے جرم کے علاوہ مبینہ مجرموں کو احتساب سے بچانے کے لئے نیب کے دائرہ اختیار کو محدود کرنے اور اس کے کام کو سبوتاژ کرنے میں بھی ملوث رہے ہیں۔ یہ بھیانک کہانی 2دہائیوں سے زیادہ عرصے پر محیط ہے۔ ہیرا پھیری کے اس عمل میں سامنے آنے والی بے ضابطگیوں کا اندازہ اس حقیقت سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ایک طرف تو حکومت عدالتی فیصلے کے بعد اس نقصان کو آئینی طورپر ادا کرنے کی پابند تھی جبکہ دوسری طرف بدعنوانی کے ذریعے نشاندہی کی گئی اصل رقم این آر او کی بھینٹ چڑھ جاتی ہے۔ اگرچہ سپریم کورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں این آر او کو کالعدم قرار دیا تھا لیکن اس کے باوجود نہ تو این آر او کو واپس لینے کے لئے کوئی قدم اٹھایا گیا اور نہ ہی قوم کے اربوں روپے لوٹنے والے مجرموں سے رقم کی وصولی کے لئے مقدمات کا اندراج کیا گیا۔ ان سارے واقعات میں جان بوجھ کر ڈالی جانے والی رکاوٹیں اس بات کی عکاسی کرتی ہیں کہ ہر دور حکومت میں تمام معاملات میں ریاستی مشینری کو یرغمال بنا کر رکھا گیا چاہے وہ آمریت کا دور ہو یا نام نہاد جمہوری دور۔ ہر دور میں جس کا جتنا ہاتھ پڑا اس نے ملکی خزانے کو لوٹا اور ملک کو معاشی لحاظ سے مضبوط ومستحکم بنانے کے بجائے قوم کو ریاستی وسائل سے محروم رکھا ۔

براڈ شیٹ کے ہنگامے سے یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ ریاستی مشینری قومی مجرموں کو سزا دینے کی بجائے الٹا انہیں قانونی تحفظ فراہم کرنے کے لئے راہ ہموار کرنے میں مصروف رہی ہے۔ این آر او اور سودے بازی سمیت اسی طرز کے متعارف کروائے گئے دیگر طورطریقوں کے ذریعے سنگین وارداتوں میں ملوث قومی مجرموں کو احتساب کے عمل سے بچنے کا محفوظ راستہ فراہم کیا جاتا رہا۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ریاست ازخود اس بات کا کھوج لگائے کہ آیا وہ اپنے آپ کو ایسی مجرمانہ حرکتوں سے محفوظ رکھ سکتی ہے یا نہیں اور وہ مراعات یافتہ طبقے کو مزید استحصال کرنے کی اجازت دے سکتی ہے جن کی بدولت مستقبل میں بھی قومی ادارے کمزور ہوتے رہیں؟حالات و واقعات کو اس نہج پر پہنچانے والی بنیادی وجوہات پر قابو پانے سے انکار کرنا درحقیقت عدم توجہی کے مترادف ہوگا۔ یہاں تک کہ جن لوگوں کے جرائم کے حوالے سے کسی شک وشبہ کی گنجائش نہیں ، وہ بھی نہ صرف اعتراف جرم سے انکاری ہیں بلکہ اپنے ساتھ ناانصافی کا رونا روتے ہیں۔

ابتدائی اقدام کے طورپر موجودہ حکومت نے براڈشیٹ سے متعلق تمام متعلقہ دستاویزات اور عدالتی فیصلوں کو عوام کے سامنے پیش کر دیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ایک وزارتی کمیٹی بھی تشکیل دی ہے جس نے براڈشیٹ کی طرف سے سامنے آنے والے حقائق کی مکمل تحقیقات کے لئے سپریم کورٹ یا ہائیکورٹ کے کسی سابق جج کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دینے کی سفارش کی ہے۔ اگر براڈ شیٹ ہنگامے کے نتیجے میں حکومتی اقدامات موثر قانون سازی کے نفاذ کا باعث بنے تو اداروں کو پھر قومی مجرموں کو قانون کی گرفت میں لانے کا مکمل اختیار مل جائے گا جو یقیناً قابلِ قدر اقدام ہے لیکن خدانخواستہ اگر ہم موجودہ صورتحال پر قابو پانے میں ناکام رہے تو پھر تنزلی ہمارا مقدر ٹھہرے گی۔