وہ لاہور کہیں کھو گیا

February 14, 2021

مال روڈ جس کا نام کبھی انار کلی سے میاں میر تک’ براہ راست سڑک ‘بھی رہا ہےاور اسے کبھی ڈونلڈ ٹالون بھی کہا جاتا رہا ہے۔ سر ڈونلڈ میکلوڈ پنجاب کے لیفٹیننٹ گورنر تھے اور کبھی اس ساری سڑک کو اپر مال بھی کہا جاتا تھا۔ اب اپرمال نہر سے آگے میاں میر تک اور ٹائون ہال سے آگے لوئر مال اور ٹائون ہال سے نہر تک مال روڈ ہے جسے اب شاہراہ قائداعظم بھی کہا جاتا ہے۔ ایک زمانے میں اس کا نام لارنس روڈ بھی رہا۔ اب لارنس روڈ سینٹ انتھونی ہائی اسکول والی روڈ ہے جس کا نام تبدیل کر کے ونگ کمانڈر سیسل چوہدری کر دیا گیا ہے۔ ونگ کمانڈر سیسل چوہدری 1965کی جنگ کے ہیرو تھے۔ لیفٹیننٹ کرنل نیپیئر نے 1851میں مال روڈ کا منصوبہ بنایا تھا۔ کرنل نیپیئر کے نام پر لاہور میں ایک سڑک بھی ہے جبکہ کراچی میں نیپیئر روڈ سندھ کے پہلے برطانوی گورنر لیفٹیننٹ نیپیئر کے نام پر ہے۔ چیئرنگ کراس کے قریب کسی زمانے میںانگریزوں کی کئی دکانیں تھیں۔ لاہور کے مشہور فوٹو گرافر ایس رولر کی دکان بھی مال روڈ پر تھی۔ یہ گورا بڑا کمال کا فوٹو گرافر تھا۔ اسی مال روڈ پر کبھی کئی مجسّمے بھی نصب تھے جس کا ذکر ہم پہلے کر چکے ہیں۔ اب صرف ایک مجسمہ رہ گیا ہے۔ سر گنگا رام جن کو جدید لاہور کا بانی کہا جاتا ہے ان کا مجسمہ بھی یہاں نصب رہا ہے۔ دلچسپ اور تلخ حقیقت یہ ہے کہ اس مجسّمے کو جلوس کے شرکا توڑ رہے تھے اور ایک شخص نے ان کے مجسّمے پر سیاہی پھینکی تو پولیس کی لاٹھی چارج یا پھر گولی لگنے سے وہ شخص زخمی ہو گیا تو اس کی جان بھی سر گنگا رام اسپتال میں فرسٹ ایڈ ملنے پر بچی تھی۔ سر گنگارام واقعی لاہور کا محسن ہے۔ لاہور کی ویسے تو دو شخصیات محسن ہیں ایک ملک ایاز (محمود و ایاز والا) اور دوسرا سر گنگا رام ۔ ملک ایاز نے اجڑے ہوئے لاہور کو بسانے کاجو کام کیا ہے وہ لاہوریوں کو ہمیشہ یاد رہے گا۔ سرگنگا رام نے بے شمار خوبصورت عمارتیں بنائیں اور بھائی رام سنگھ جو کہ میو اسکول آف آرٹس کے طالب علم تو رہے ہی، بعد میں پہلےہندوستانی وائس پرنسپل اور پرنسپل رہے۔ انہوں نے بھی کئی عمارتیں تعمیر کی تھیں۔ سر گنگارام کی سمادھی کا آج کوئی پرسانِ حال نہیں۔ اس مال روڈ پر ہائی کورٹ کے سامنے ایک سفید رنگ کی بہت وسیع عمارت آج بھی اپنی اصل حالت میں قائم ہے۔ اگرچہ اس عمارت کے دونوں طرف اب ریسٹورنٹس بن چکے ہیں ۔ یہ گھر اپنے وقت کے معروف صحافی اور سچے عاشقِ رسولؐ آغا شورش کاشمیری کا ہے وہ آغا شورش کاشمیری جن کے ہاں کئی حاکمانِ وقت نے حاضری دی۔ اس ننگی تلوار نے ہر حاکم کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ اسی مال روڈ پر آغا شورش کاشمیری نے ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف کئی جلسوں کی قیادت کی، وہ مال روڈ پر وائی ایم سی اے کے ہال میں یہ جلسے اکثر کیا کرتے تھے اور پھر وہاں سے جلوس کی شکل میں چیئرنگ کراس کی طرف روانہ ہوتے تھے۔ ہم بھی کئی جلوسوں میں ان کے ساتھ گئے اور پولیس کی لاٹھیاں بھی کھائیں۔ وائی ایم سی اے ہال میں کئی نامور شخصیات نے تقریریں کی تھیں۔

اس مال روڈ پر میو اسکول آف آرٹس (این سی اے) اور پنجاب یونیورسٹی کے اولڈ کیمپس کے شعبہ ڈی فارمیسی کے سامنے تاریخی توپ پچھلے ڈیڑھ سو برس سے نصب ہے۔ زمزمہ توپ جس کو بھنگیاں والی توپ بھی کہتے ہیں ، جب ہم نے اس کو دیکھا تو اس کے اوپر بھنگیاں والی توپ ساختہ 1757/1474 کا بورڈ بھی لگا ہوا تھا۔ 1980 تک یہ بورڈ توپ پر لگا رہا۔ عزیز قارئین اس توپ کا تعلق ان بھنگیوں سے بالکل نہیں جن کو ہمارے معاشرے میں صفائی کرنے والا کہا جاتا ہے۔ یہ دراصل سکھوں کی ایک مثل تھی جس کا نام بھنگی تھا اور یہ توپ ان کے قبضے میں طویل عرصہ تک رہی تھی۔ لہٰذا یہ بات یاد رہے کہ بھنگیاں والی توپ سے بالکل یہ مراد نہیں کہ اس کو لاہور کے صفائی کرنے والوں نے چرایا تھا یا ان سے اس تاریخی توپ کا کوئی تعلق ہے۔ اس توپ کے سامنے ایک تاریخی مجسمہ بھی نصب ہے۔ مال روڈ پر اس توپ کی جگہ کئی مرتبہ تبدیل ہوئی۔ اس توپ نے ساٹھ برس سے زیادہ مختلف جنگوں میں حصہ لیا ، اس ماڈل کی پورے ایشیا میں تین توپیں تھیں۔ ایک توپ تو دریائے چناب میں ڈوب گئی تھی، دوسری کا کچھ پتہ نہیں۔ تیسری اور آخری یہ توپ ہے۔ اب اس توپ کے پاس بے شمار کتوبر دانہ کھانے آ تے ہیں۔ اس زمزمہ کو حاصل کرنے کے لئے کئی حکمرانوں میں جنگ ہوئی۔ اس توپ کی تاریخ بڑی دلچسپ ہے۔ جس زمانے میں ہم نے یہ توپ دیکھی تھی اس کی حالت خاصی خستہ ہو چکی تھی بلکہ اس کے پہیے اور اس کی لکڑی تک خراب ہو چکی تھی۔ بہرحال اب یہ تاریخی توپ ماضی کے مقابلے میں بہت بہتر اور اچھی حالت میں ہے۔ اس نے پانی پت کی جنگ میں حصہ لیا تھا۔ اس پر شاہ ولی خاں اور شاہ نذیر کے نام درج ہیں۔ یہ احمد شاہ ابدالی کے حکم پر 1757 میں تیار کی گئی تھی۔ یہ دو سو تینتالیس برس قدیم ہے۔ عزیز قارئین! آپ سوچ رہے ہوں گے بھلا زمزمہ توپ کا لاہور سے کیا تعلق ہے؟ آئندہ کالم میں اسی باب میں عرض کروں گا۔(جاری ہے)