پریمیم پرائز بانڈ کا شرعی حکم (گزشتہ سے پیوستہ)

February 19, 2021

تفہیم المسائل

علامہ بدرالدین عینی حنفی ؒلکھتے ہیں:ترجمہ:’’ زمانۂ جاہلیت میں جب قرض کی مدت پوری ہوجاتی تو یا تو قرض ادا کردیاجاتایا اس پر سود لگایاجاتا، قرض خواہ مدت میں اضافہ کرتا تو مقروض اصل رقم پراضافہ کرتا ،ہر سال اسی طرح ہوتا ،حتیٰ کہ قلیل رقم دگنی چوگنی ہو کر کثیر ہوجاتی ،(عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری ، جلد11،ص:199)‘‘۔

پریمیم بانڈ میں چھ ماہ بعد ملنے والا نفع ’’ربا الجاہلیۃ ‘‘ کی قبیل سے ہے ، علامہ غلام رسول سعیدی ؒ لکھتے ہیں: ’’علامہ ابو بکر جصاصؒ ’’ربوٰالجاہلیۃ ‘‘کی تعریف میں لکھتے ہیں :ـ ترجمہ:’’ رِبا جاہلیت اس قرض کو کہتے ہیں ،جس میں مقروض پر مدت کی وجہ سے اصل مال پر زیادتی کی شرط لگائی گئی ہو ‘‘۔

علامہ ابو بکر جصاص حنفیؒ لکھتے ہیں: ترجمہ:’’ کسی شخص نے علیٰ الفور ایک ہزار درہم دینے ہوں اوروہ یہ کہے: مجھے مہلت دو تو میں ایک سودرہم زیادہ دوں گا ، اس کے عدم جواز میں کسی کا اختلاف نہیں ہے کیونکہ سو درہم مہلت کے عوض ہیں، کیونکہ اس نے یہ سودرہم مدت کے عوض مقرر کیے ہیں اور مدت کے بدلے معاوضہ لینے کے عدمِ جواز کی یہی اصل ہے ،(احکام القرآن، جلد1،ص:467-469۔شرح صحیح مسلم ،جلد4،ص:116)‘‘۔

اس سے قطع نظر کہ ششماہی شرح سود کیاہے ،پریمیم بانڈ ایک سودی معاہدہ ہے اور سود پر مبنی ہر معاہدہ اپنی اصل کے اعتبار سے حرام ہے ، اس لیے پریمیم بانڈز کا عقد اور اس پر حاصل ہونے والا سود ناجائز ہے، یہ عام پرائز بانڈ کی طرح نہیں ہے۔

اگر حکومت ’’بلیک منی‘‘ یعنی کالے دھن کا راستہ روکنا چاہتی ہے تو ہرقسم کے پرائز بانڈز کالین دین یکسر ختم کردے ، کالے دھن کا یہ راستہ حکومت یعنی اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے خود ہی شروع کیاہے اور حکومت اب بھی اس کی بابت گومگو کا شکار ہے ۔ہونا یہ چاہیے کہ حکومت حلال ذرائع سے کاروبار کو فروغ دے ، اس کے زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم کرے، ٹیکس کی شرح متوازن رکھے ،جو انصاف پر مبنی ہو ،تاکہ لوگ کھلے عام کاروبار کریں اور برضا ورغبت حکومت کو ٹیکس دیں ۔