مجھے اسٹیبلشمنٹ بھی ٹھیک نہیں ملی

March 01, 2021

قول وفعل کا تضاد شاید ہمارا قومی مزاج ہے۔ ایک حجام نے دکان کے باہر لکھوا رکھا تھا، ہم دل ہی نہیں سر کا بوجھ بھی ہلکا کرتے ہیں۔ ساتھ ہی جلی حروف میں تنبیہ کی گئی تھی کہ یہاں فضول بیٹھنا سخت منع ہے، سیاسی گفتگو سے اجتناب کریں۔ اندر داخل ہونے پر معلوم ہوا کہ تین چار کھلنڈرے نوجوان اپنی اپنی ہانک رہے ہیں اور موضوعِ سخن کچھ اور نہیں بلکہ سیاست ہے۔ حجام آلاتِ آرائش و زیبائش گیسو تھام کر آگے بڑھا تو دل ودماغ پر مزید بوجھ لادتے ہوئے پوچھنے لگا، آپ کے پاس تو اندر کی خبر ہوتی ہے، یہ بتائیں کیا واقعی اسٹیبلشمنٹ نیوٹرل ہوگئی ہے؟ میں نے فوری طور پر بھانپ لیا کہ یہاں دل اور سر کا بوجھ ہلکا نہیں کیا جاتا صرف جیب ہلکی کی جاتی ہے۔ آج کل ہر طرف یہی سوال موضوع بحث ہے کہ کیا اسٹیبلشمنٹ غیرجانبدار ہو چکی ہے؟ اب جب کہ قبلہ یوسف رضا گیلانی انکشاف کر چکے ہیں کہ ان کے خیال میں اسٹیبلشمنٹ غیرجانبدار ہے اور اس کے اثرات بھی واضح دکھائی دے رہے ہیں تو کسی معمولی صحافی سے یہ سوال کرنے کا کوئی جواز نہیں رہ جاتا کہ اسٹیبلشمنٹ غیرجانبدار ہے یا نہیں۔ ڈسکہ میں دوبارہ الیکشن کا فیصلہ آگیا۔ حمزہ شہباز شریف رہا ہوگئے، غلام یوں مشعلیں لے کر دوڑتے پھرتے ہیں جیسا کہ محل پر آسماں گرنے والا ہو، اور آپ اب بھی پوچھتے پھرتے ہیں کہ ہوائوں کا رُخ بدلا یا نہیں؟ ایک قلمی مزدور کیسے بتا سکتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ غیرجانبدار ہے یا نہیں؟ مگر آپ بیحد اصرار کرتے ہیں تو اپنی سی کوشش کر دیکھتے ہیں۔ اب کیا بتائیں صاحب! نیوٹرل یا غیرجانبدار نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی دنیا میں۔ اگر آپ نے زمانہ طالبعلمی میں کیمسٹری پڑھی ہے تو یقیناً جانتے ہوں گے کہ کیمیائی طور پر ایک غیرجانبدار یا نیوٹرل مادہ اسے کہا جاتا ہے جو بے رنگ، بے بو اور بے ذائقہ ہو۔ طبعیات میں دلچسپی رہی ہے تو معلوم ہوگا کہ حرکیاتی طور پر نیوٹرل گیئر کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ مشینری جامد رہے، حرکت نہ کرے۔ اسٹیبلشمنٹ سے جس طرح غیرجانبدار رہنے کا مطالبہ کیا جاتا ہے، اسی طرح کالم نگاروں اور صحافیوں کو بھی تلقین کی جاتی ہے کہ وہ غیرجانبدار رہیں۔ خدا جانے ایسی تلقین کرنے والوں کی دلی مُراد کیا ہے۔ بہرحال کالم نگاروں کی غیرجانبداری کا مطلب کیا ہے، اس پر پھر کبھی بات ہو گی، فی الوقت بات اسٹیبلشمنٹ تک ہی محدود رکھتے ہیں۔ جوں جوں مارچ کا مہینہ قریب آ رہا ہے، دلوں کی دھڑکنیں تیز تر ہوتی جا رہی ہیں اور اس سوال کی گونج بڑھتی جارہی ہے کہ کیا ہو گا؟ کیونکہ مارچ میں سینیٹ کا الیکشن ہے، مارچ میں پی ڈی ایم کا مارچ ہے۔ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا بلکہ کس کروٹ بٹھایا جائیگا۔ ان غیرمعمولی ایام میں اسٹیبلشمنٹ کس کے ساتھ ہے؟بعض اوقات کہا جاتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سیاست سے دور رہے لیکن کبھی یہ جملہ سننے کو ملتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اپنی آئینی و قانونی ذمہ داریاں پورا کرے۔ یہ دونوں جملے تو ایک جیسے ہیں لیکن ان کا مطلب اور معانی بدلتا رہتا ہے۔ جب کسی سیاسی جماعت کی جانب سے یہ کہا جاتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ سیاست سے دور رہے تو اس کا مفہوم یہ ہوتا ہے کہ ہم اقتدار کی بس میں سوار ہیں، اپوزیشن کو سوار کرانے کےلئے اسٹیبلشمنٹ اس گاڑی کو روکنے کی کوشش نہ کرے اور اچھے بچے کی طرح ’کونے میں بیٹھ کر چپ چاپ ’’دہی‘‘ کھاتی رہے۔جب کسی کی طرف سے یہ مطالبہ کیا جاتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ غیرجانبدار رہے تو اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ حالات کنٹرول میں ہیں،ہم اپنے سیاسی مخالفین سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتے ہیں،لہٰذا تم اپنے کام سے کام رکھو، اگر ضرورت پڑی تو ہم آپ کو بلالیں گے۔اسی طرح اگر حزب اختلاف کی کوئی جماعت اسٹیبلشمنٹ کو پکارتی ہے اور اسے اپنے قومی فرائض ادا کرنے یا ملک بچانے کی ترغیب دیتی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے پاس آپ کی مدد کے بغیراقتدار تک پہنچنے کا کوئی راستہ نہیں ،براہِ کرم ان نافرمان حکمرانوں کو نکال کر ہمیں اقتدار دیں ہم آپ کو شکایت کا موقع نہیں دیں گے۔

ہمارے ہاں سیاسی اصطلاحات کا مطلب لغوی نہیں ہوا کرتا۔ مثال کے طور پر جب کبھی کرپشن کی بات ہو یا احتساب کا مطالبہ کیا جائے تو آپ اس سے ہرگز یہ مراد نہ لیں کہ سب کے کڑے احتساب کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ بلکہ اس کا مفہوم یہ ہوتا ہے کہ ناپسندیدہ سیاستدانوں کو احتساب کی بھٹی میں ڈال کر کندن بنایا جائے۔اسی طرح جب معاشی صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا جائے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ ملکی معیشت کے دگرگوں ہونے پر دکھ درد بیان کیا جارہا ہے بلکہ بعض دکھ بہت ذاتی نوعیت کے ہوتے ہیں ،گویاشاعر اپنی معاشی صورتحال کا رونا رو رہا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ بعض جملے، سیاسی اصطلاحات اور ترکیبات اس قدر پیچیدہ ہوتی ہیں کہ ان کے کئی مطالب اور معنی نکل سکتے ہیں۔ ایسے حالات میں زمینی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے کئی تفسیروں کی روشنی میں قیافہ شناسی کی جا سکتی ہے مگر کوئی بڑے سے بڑا شرح نگار اور مصنف بھی پورے وثوق اور قطعیت کے ساتھ دعویٰ نہیں کر سکتا مثال کے طور پر چند برس قبل بعض سیاسی جماعتیں سیاست نہیں ریاست بچائو کا نعرہ لگایا کرتی تھیں۔ اس نعرے کا مطمع نظر کیا ہے؟ اس حوالے سے اختلاف ِرائے ہو سکتا ہے مگر مجھ ناچیز کے مطابق اس کا مفہوم یہ تھا کہ اسٹیبلشمنٹ کو من مانی کرنے دو،اس کی راہ میں روڑے نہ اٹکائو،نقشِ کہن مٹاؤ، نیا پاکستان بنائو۔لیکن یہ نعرہ لگانے والے اب ریاست کا دفاع کرنے کی بجائے کینیڈا کے پرفضا علاقوں میں پرسکون زندگی گزار رہے ہیں کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ ریاست اب محفوظ ہاتھوں میں ہے۔بہر حال بات ہو رہی تھی قبلہ یوسف رضا گیلانی کے کشف واسرار سے بھرپور اس جملے کی کہ اسٹیبلشمنٹ غیرجانبدار ہے۔ اگر واقعی ایسا ہے تو جلد اسلام آباد سے ایک صدا بلند ہوگی ’’مجھے اسٹیبلشمنٹ بھی ٹھیک نہیں ملی‘‘۔